عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ندیم اصغر نے ظہیر کاشمیری پر لکھے خاکہ نما مضمون کا نام رکھا ہے اور یہ اُن کے خاکے نما مضامین میں "نیاز….. بے نیاز” کے بعد سب سے اچھا خاکہ نما مضمون ہے – اس مضمون میں انہوں نے کئی جملے ایسے لکھے ہیں جنھیں پڑھ کر ادبی مسرت ملتی ہے اور بے اختیار شاہ جی کو داد دینے کو دل کرتا ہے –
اگرچہ دیگر مضامین کی طرح اس مضمون میں شاہ جی کی خود ستائشی کی عادت بار بار عود کر آتی ہے اور لاہور اور اسلام آباد کے اندر اپنی فتوحات کی داستانیں قند مکرر کی طرح سُنانے لگتے ہیں- اُن کی "میں” بہت بڑی ہے –
ویسے ان خاکوں کو پڑھتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ وہ انہیں لکھتے ہوئے اُسی مالیخولیا کا شکار ہوئے جس کا شکار وہ شاگرد تھا جو اپنے ہر مضمون میں "میرا بہترین دوست” مضمون ضرور شامل کرتا تھا – ان خاکہ نما مضمونوں میں کم و بیش ہر مضمون میں کشور ناھید کا تذکرہ ضرور ہے اور تکرار کے ساتھ ہے –
"انقلاب بیڈن روڈ سے شارٹ کٹ میں نہیں پہنچ سکا”
"وہ یا تو اپنا انقلاب کہیں گُم کر بیٹھے تھے یا نئے ادبی کلچر سے اُن کی کوئی شناسائی نہ تھی – اس لیے وہ اپنی بجھی ہوئی آگ اپنے اندر سمیٹے ہوئے زندگی گزار رہے تھے”
عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے
(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوںکے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)
یہ بھی پڑھیے
سکھر تے بکھر دِی کتھا“(وسیب یاترا :18)||سعید خاور
”””عشق ٻاجھوں جیوݨ کوڑ کہاݨی “ (وسیب یاترا :17)||سعید خاور
”خیرپور تے ہیرا منڈی لہور دا سانگا“(وسیب یاترا :16)||سعید خاور