مئی 5, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اپنا فلیپ خود ہی لکھا۔۔۔||یاسر جواد

یاسر جواد معروف مصنف و مترجم ہیں ، انکی تحریریں مختلف ادبی مجلوں کے ساتھ ساتھ اشاعتی اداروں میں بھی پبلش ہوتی رہتی ہیں، یاسر جواد کی منتخب تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

یاسر جواد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اپنا فلیپ خود ہی لکھا
بڑے لکھاری ہمیشہ عام لوگوں کی کہانیاں لکھتے ہیں اور عام لوگ بڑے لوگوں کی کہانیاں پڑھتے ہیں۔ یہ کوشش عام مگر فہیم لوگوں کو ایک عام شخص کی کہانی پڑھانے کی ہے جس کے مختلف حصوں کے ساتھ وہ زیادہ قربت محسوس کر سکیں گے اور اُمید ہے کہ اپنے تعصبات، میلانات اور رویوں کو الگ انداز میں جانچنے کے قابل ہوں گے۔
اپنی زندگی میں آنے والے کرداروں اور رشتوں کا یہ بیان کسی لسانی فریب، بے جا ملمع کاری اور جذباتیت کے بغیر ہے۔ مجھے اُمید ہے کہ یہ آپ پر اپنی زندگی کے معنی کھولنے کی ذاتی کاوش میں بھی معاون ہو گی، کیونکہ زندگی اُن چھوٹے چھوٹے لمحات کے سوا کیا ہے جن کا میں نے اپنے حوالے سے بیان کیا ہے؟
میرے لیے زندگی کا مفہوم سوائے اِس کے کچھ نہیں کہ آپ زیادہ سے زیادہ لوگوں کی کہانیاں سمجھنے اور بیان کرنے کے قابل ہو سکیں۔ زندگی کے حوالے سے ’ابدیت‘ محض ایک لفظ ہے جسے استعمال کرتے وقت ہم بھول جاتے ہیں کہ ہم گزرے لوگوں کی ابدیت میں ہی تو زندہ ہیں۔
مجھے ابدیت کا یہ تسلسل کتابوں کے ذریعے وصول ہوا اور اِسی کا حصہ بننے کا موقعہ ملا۔ چنانچہ میں نے ”کتاب کہانی“ میں اس رفاقت کو بیان کیا ہے، نیز اپنی زندگی پر اثرانداز ہونے والی کتب اور کاموں کا ذکر بھی کیا۔ یہ کتابوں سے اخذ کردہ تفہیم کے ساتھ ساتھ اُس کے ماخذوں کا بھی حوالہ رکھتی اور نئی راہیں سجھانے کی سعی کرتی ہے۔
دنیا بھر میں کتب کے فلیپ لکھے جاتے ہیں، لیکن عموماً وہ دیگر لکھاریوں کی بجائے اہم ادبی جرائد کے تبصروں وغیرہ پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں ادبی جرائد اتنے مؤقر نہیں رہے، اس لیے زیادہ تر دوست اور مداح لکھاری ہی تبصرے کیا کرتے ہیں۔
فلیپ یا رائے دینے سے کتاب کی اہمیت، وقعت اور معنویت اجاگر کرنا مقصود ہوتا ہے۔ یہ معیوب نہیں، مگر میں نے اِس سے قصداً گریز کیا ہے۔ اصل ریویوز پڑھنے والوں کے تاثرات ہوتے ہیں۔ گزشتہ ایک سال کے دوران مجھے فیس بک پر بہت سے نئے پڑھنے والے میسر آئے، اور ساتھ ساتھ پرانے پڑھنے والوں کے ساتھ بھی رابطہ ہوا۔ ان کی فیڈبیک روزانہ کی بنیاد پر ملتی بھی رہتی ہے۔
سو میرا نقطۂ نظر تھا کہ جہاں پوری کتاب خود لکھی ہے، وہاں فی الحال اِس کے متعلق بھی خود ہی لکھ دیا جائے، کہ یہ کس خیال کے تحت اور کیوں لکھی، کس طرح زندگی کو پیش کیا، وغیرہ۔ بعد میں قارئین تبصرے کرتے رہیں گے۔

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

یاسر جواد کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: