مئی 5, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

رقعہ بنام ضیا محی الدین۔۔۔||یاسر جواد

یاسر جواد معروف مصنف و مترجم ہیں ، انکی تحریریں مختلف ادبی مجلوں کے ساتھ ساتھ اشاعتی اداروں میں بھی پبلش ہوتی رہتی ہیں، یاسر جواد کی منتخب تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

یاسر جواد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سر آپ واقعی بہت بڑے آدمی تھے، اپنے فن میں یکتا۔ ہم نے راشد اور فیض اور کو آپ کی آواز میں سن کر پڑھنا سیکھا۔ آپ کی پڑھ کر سنائی ہوئی ’’اندھا کباڑی‘‘ نظم اچھی لگتی تھی، حالانکہ وہ راشد کی نہایت تھکی ہوئی نظموں میں سے ایک ہے۔ سر ہم EMI کی کیسٹ 25 روپے میں خریدتے تھے جس پر آپ کی تصویر ہوتی، نہ کہ راشد اور فیض کی۔
آپ نے جو پڑھا ہمیں زیادہ سمجھ آیا۔ آپ نے ’’موقلم، ساز، گل تازہ‘‘ والی نظم نہ پڑھی تو سمجھ ہی نہ آیا کہ یہ گِلِ تازہ یعنی تازہ مٹی ہے نہ کہ گُل تازہ یعنی تازہ پھول۔ سر آپ کمال تھے۔ لکھے ہوئے لفظ نے آپ کی آواز کو تقویت دی۔ سر لفظ ازلی ہے (ابد کے چکر میں نہیں پڑتے)۔ بہرحال اب آپ زندگی کے کنارے سے اُس پار ہیں اور تحریر کیا ہوا لفظ ہی آپ کو ہمارے درمیان رکھے گا۔
سر لفظ ’’مسئلہ‘‘ ہی ہے۔ ہم ایسے ہی لکھتے ہیں اور مسلا ہی پڑھیں گے۔ بلکہ ہم تو مثلاً کو بھی مسلن ہی بولیں گے، (خواہ ایسے مثلاً میں ثائے ساکن)۔ سر ہم بہت بدتہذیب ہیں۔ سر یہ اب اردو کا لفظ ہے، اس پر عربی کے تلفظ اور قواعد لاگو نہیں کرنے چاہئیں۔ سر ہم رمدان نہیں رمضان بلکہ رمزان ہی بولیں گے، ہم شِکست کو بھی شکست دیں گے۔
سر کئی لفظ بے غیرت انگریزوں نے بھی بگاڑے۔ اصطرلاب کو Astrolabe بنا دیا، امیر البحر کو ایڈمرل کر دیا، صوفہ کا لفظ بھی لے لیا۔ پنڈت اور گورو وہ بول سکتے تھے، اس لیے ویسا ہی رکھا۔ پائجاما کو تو وہ پی جے کہنے لگے۔ سر اردو میں بھی تو بہت سے لفظ ہیں جو مختلف طریقوں سے بولے جاتے ہیں۔ سَر بھی ٹھیک ہے اور سِر بھی، ذِبح بھی ٹھیک ہے اور ذَبح بھی، نَشتر بھی ٹھیک ہے اور نِشتر بھی، مَٹی بھی ٹھیک ہے اور مِٹی بھی۔ لفظ گالم گلوج تھا جو گالم گلوچ بن گیا۔ اکٹھا کو اکھٹا بھی کہتے ہیں۔
سر یہ پنجابی بڑے فضول لوگ ہیں۔ انھوں نے lintel کو لنٹر اور پلاسٹر کو پلستر بنا دیا۔ اسٹیشن کو سٹیشن بولتے اور لکھتے ہیں۔ آپ تو سٹیٹ کو بھی اسٹیٹ بولتے ہیں، حالانہ state اور estate دو مختلف چیزیں ہیں۔ آپ اسکول ہی بولتے ہیں نا! کیوں؟ ہم ضیا کو ضیاء نہیں لکھیں گے، بولنے میں یہ ایک جیسے ہی ہوں گے۔ ہم تو مَسئلہ کہنا سیکھ جائیں گے لیکن کیا آپ ڈھکنج یا ڈول بول سکتے تھے؟ کوئی عرب یا انگریز گھڑونجی بولے گا؟
سر ہو سکتا ہے میں آپ سے بات کرتا تو آپ میری بات ٹوک کر کہتے کہ چِہرہ نہیں چَہرہ ہے۔ لیکن سر ہم غَلَط بھی غلط بلکہ غلت بولتے ہیں۔ سر ہم پنجابی ہیں، عربی/فارسی نہیں۔ ہماری ہر بات اُلٹی ہے۔ ہم لکھتے کچھ اور ہیں پڑھتے کچھ اور۔ لفظ گھر کو ہی دیکھ لیں۔ ہم اُسے کَہر بولیں گے۔ شاید آپ میرے منہ سے غلط سن کر منہ پھیر لیتے۔ ہم فراخدل ہیں تہذیب کے معاملے میں۔ ہم نے آپ کی خاطر سب کچھ چھوڑ دیا۔ سر آپ نے راشد کو پڑھ کر بولا، شاید اُسے سنا ہوتا تو کان پکڑا دیتے۔ آپ نے منشا یاد کو افسانہ پڑھتے نہیں سنا۔ وہ مٹھائی کو مٹھیائی کہتے تھے۔
دوسری تہذیبوں نے تو دیویاں تک بدل ڈالیں۔ عشتار، عشتروت، استارات، زہرہ، وینس، ایفروڈائٹ، ڈایانا ایک ہی نہیں! سر یونان والے ’’الیکڑک‘‘ کیسے بولتے ہوں گے؟

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

یاسر جواد کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: