رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلی اور آخری بات موجودہ بحران کے ضمن میں یہ کہ مفاہمت کے بغیر اس سے نکلنا مشکل ہے۔ زور آزمائی کے ہم عادی ہیں‘ ماہر نہیں۔ اور اسی دھن میں ہم نے اداروں کی خود مختاری‘ عزت و احترام اور طے شدہ آئینی حیثیت تک کو دائو پر لگا رکھا ہے۔ سیاست میں زور صرف روایات‘ آئین اور قانون کا چلتا ہے مگر ہمارے سیاست باز جمہوریت کے ان سب ستونوں کو اپنے مقاصد کے لیے ٹیڑھا کرنے کے درپے رہتے ہیں۔ ایسے ہی تو بحران پیدا نہیں ہوتے رہے۔ جس بری طرح اب سارا معاشرہ‘ ملک اور ریاست اپنی تاریخ کے تلخ اور طویل ترین بحران میں دھنس چکا ہے‘ اس سے نکلنے کا راستہ صرف مل بیٹھ کر مذاکرات کرنے سے ہی نکل سکتا ہے۔ اور عوام کے خیر خواہ اور جماعتی وفاداریوں سے بالا تر ہو کر سوچنے والوں کی رائے اور خواہش یہ ہے کہ تیرہ جماعتی اتحاد اور تحریک انصاف کچھ دانش مندی کا مظاہرہ کریں‘ قوم پر ترس کھائیں اور ایک دوسرے کو راستہ دینے میں مزید وقت ضائع نہ کریں۔ ملکی معیشت کا اس وقت کیا حال ہے‘ کسی سے آپ کو پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ شہ سرخیوں پر ذرا غور فرمائیں اور بازار سے کوئی چیز خریدنے کی کوشش کریں تو روپے کی بے قدری آپ پر واضح ہو جائے گی۔ اس وقت عالمی اقتصادی بحران کے باوجود ہمارے ہمسایہ ممالک میں صنعتی ممالک سینکڑوں ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے منصوبے بنا رہے ہیں‘ ہماری طرف کوئی نظر اٹھا کر نہیں دیکھ رہا۔ گزشتہ کئی برسوں سے غیرملکی کمپنیوں کی ایک خاصی بڑی تعداد ہمارا ملک چھوڑ کر کہیں اور چلی گئی۔ سیاسی صورتحال اور طرزِ حکمرانی کی خرابیوں اور قانونی پیچیدگیوں کے پیش نظر آپ کسی بیرونی سرمایہ کار کو کس طرح قائل کر سکتے ہیں کہ وہ ہمارے ہاں سرمایہ کاری کرے؟ بلکہ ہو یہ رہا ہے کہ ہمارا اپنا سرمایہ دار اپنی بساط لپیٹ کر یہاں سے رخصت ہورہا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے وہ گویا اس نظام پر اپنے عدم اعتماد کا اظہار کررہا ہے۔
ایسے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے سیاست بازوں کی عقلوں پر کسی طاقتور جادوگر نے پردے گرا رکھے ہیں۔ اگر ملک میں سرمایہ کاری نہیں ہوگی‘ صنعتیں نہیں لگیں گی تو روزگار کے مواقع ہمارے نوجوانوں کو کیسے میسر آئیں گے؟ ادھار پر چلنے والا اور قرضوں کے بوجھ تلے دبا ملک کب تک لوگوں کو مفت آٹا اور مفت رقوم دینے کا متحمل ہو سکتا ہے۔ ان کی سیاسی لڑائیوں سے تو عام شہری غربت کی چکی میں پستا رہے گا۔ یہ بیچارے سرکاری افلاطون سینکڑوں ارب ہر سال سیاست چمکانے کی غرض سے ادھر ادھر پھینکنے کے بجائے اگر تعلیم‘ صحت اور ہنرمندی کے لیے کہیں لگاتے تو غریب لوگوں کی نسلیں سدھر جاتیں۔ اگر ہم صرف توانائی کے شعبے میں بدعنوانی اور چوری چکاری کا سدباب کر سکتے تو ہر سال ایک کھرب سے کہیں زیادہ کا ضیاع روک کر سائنس اور ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کر سکتے تھے۔ دشمن تو ہمارے اندر بیٹھا ہوا ہے جو ملکی خزانے کو نوچ کر کھا رہا ہے۔ اور ہم اندرونی اور بیرونی ذرائع سے ادھار لے کر ان گِدھوں کو خوراک فراہم کرتے آرہے ہیں۔ کوئی آپ کو موجودہ اتحادی حکومت یا ان سے پہلے والوں میں نظر آتا ہے کہ ان بنیادی باتوں کا ادراک رکھتا ہو‘ جرأت اور دور اندیشی اس میں ہو اور کئی دلدلوں میں پھنسے ملک کو باہر نکال سکے۔ ہم تباہی اور بربادی کی لہر پھرتے دیکھ رہے ہیں‘ نعرہ یہ ہے کہ ”معیشت کو سنبھال لیا ہے‘‘۔ ایک اور بات‘ جب بھی سیاست دان اپنی جنگیں لڑنا شروع کرتے ہیں‘ ملک عدم استحکام کا شکار ہوتا ہے تو ہر نوع کے سرکاری اور غیر سرکاری مافیاز زور پکڑ لیتے ہیں۔ بدعنوانی کے نرخ کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ وہ جس کے پاس صرف کاغذ کے کسی ٹکرے پر دستخط کرنے کی طاقت ہے‘ وہ بھی اپنا حصہ دھڑلے سے وصول کرنا شروع کر دیتا ہے۔ بہت کچھ مشاہدے میں ہے مگر پردے میں رہنے دیں۔ کسی ادارے یا فرد کا نام جانتے ہوئے بھی سپردِ قلم کرنے سے گریز کی وجہ یہ ہے کہ یہ بات کچھ افراد یا اداروں کی نہیں‘ ایک بگڑے ہوئے سیاسی نظام کی ہے جس کی وجہ سے معاشرے کا ماحول بگڑ جاتا ہے۔
اس وقت تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سب بندگلی میں ہیں۔ کوئی ایک فریق نہیں‘ سب اس بحران کے ذمہ دار ہیں۔ جب تک کم از کم تین میں سے کسی دو کے درمیان بات چیت نہیں ہوتی‘ ہمارا تنزلی کا سفر رکے گا نہیں۔ تیرہ جماعتی اتحاد نے سب ہتھکنڈے آزما کے دیکھ لیے‘ شاید کوئی ایک آدھ رہتا ہو‘ ہمیں خبر نہیں مگر وزیر داخلہ کے اس بیان کہ ”اگر ہمارے وزیراعظم کو کچھ ہوا تو ہم بھی تیار ہیں‘‘ کا لوگ جو مطلب نکال رہے ہیں‘ وہ ہو سکتا ہے کہ غلط سمجھ رہے ہوں کہ وہ عدالت عظمیٰ کے ایسے فیصلے کو قبول کرنے سے انکار کردیں گے۔ ایسا ہوا تو آئین کی حکمرانی اور حکومت کی جائزیت کا بھرم ٹوٹ جائے گا۔ اس سے کئی ایک بحران پیدا ہو سکتے ہیں۔ کسی ایک لیڈر کے خلاف اتنے مقدمات کی بارش کسی ماضی کی حکومت نے کبھی نہیں کی جو تیرہ جماعتی اتحاد نے عمران خان پر کی ہے۔ اور پھر ان کی جماعت کے رہنمائوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا ہے‘ صحافیوں کو کون پوچھتا ہے‘ جو زیرِ عتاب ہیں‘ کیا کچھ ان کے ساتھ نہیں ہوا۔ یہ رویے کسی جمہوری‘ آئینی اور سیاسی طور پر قائم حکومت کے نہیں ہو سکتے۔ یہ بھی سچ ہے کہ ان میں یہ سب کچھ کرنے کی جرأت اس لیے پیدا ہوئی کیوں کہ سر پر دستِ شفقت کسی نے رکھا ہوا ہے۔
ہمارا بحران ہمیں مزید تاریکیوں کے حوالے کر رہا ہے۔ تین فریقوں میں سے ایک بھی اپنی جگہ سے ذرا بھی جنبش کرتا دکھائی نہیں دے رہا؛ البتہ ادھر اُدھر سے بات چیت پر رضا مندی کے ہلکے سے اشارے ضرور ملے ہیں۔ سیاست اگر ملک کے لیے ہو تو رویوں میں لچک فطری طور پر پیدا ہو جاتی ہے۔ اگر اپنے لیے ہو تو مفاہمت کے بجائے زور آزمائی کی جاتی ہے۔ ان رویوں سے ہی آپ کو ہر ایک کا مقصدِ سیاست سمجھ میں آجائے گا۔ ہماری خواہش ہے کہ ملک کی بہتری کے لیے سیاست کریں مگر ہماری خواہشوں کی کیا اہمیت ہے؟ اگر ہے تو وہ عوام میں سیاسی شعور کی ہے کہ ان کے دباؤ سے ہی سدھار ممکن ہے۔ ورنہ یہ موروثی گدی نشین تو ہم پر حکومتیں کرنے آتے ہیں اور یہاں سے بہت کچھ سمیٹ کر دور دراز کے ممالک میں محفوظ کر لیتے ہیں۔ ان کی آنے والی نسلیں بھی ہماری نسلوں پر حکومتیں کرتی رہیں گی۔ خطرہ انہوں نے بھانپ لیا ہے۔ اس لیے تو زور آزمائی ہے‘ اداروں سے ٹکرائو‘ ان پر چڑھائی اور دھمکیوں کا طوفان تھمتا نظر نہیں آتا۔ ہمارا خیال ایک غیرسیاسی طاقت کی طرف جاتا ہے کہ وہ اگر آئین اور عدلیہ کے ساتھ کھڑی ہو تو فضا میں اُڑتے رنگ برنگے غبارے پھٹنا شروع ہو جائیں گے۔ عقل کے ناخن بھی نکل آئیں گے۔ پھر مذاکرات کی میز کی تلاش بھی شروع ہو جائے گی کہ اسے کہیں سے ڈھونڈ نکالا جائے۔ پارلیمان کے آئینی ادارے کو جس طرح ہمارے مقتدر سیاسی ھڑوں نے عدلیہ کے خلاف استعمال کیا ہے‘ کسی جمہوری ملک میں تو اس کی مثال نہیں ملتی۔ آنے والے دنوں میں دیکھیں سیاسی فساد کا یہ رخ کیا تماشا دکھاتا ہے۔ آئین کی حکمرانی صرف آزاد عدلیہ ہی قائم کر سکتی ہے۔ باقی سب کہانیاں ہیں۔ مفاہمت کی طرف جانا سب کی ذمہ داری ہے کہ اس کے بغیر قومی یا صوبائی بحران اور تصادم کا خطرہ نہیں ٹلے گا۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ