اپریل 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آئین پاکستان کی گولڈن جوبلی!!!۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے آئین پاکستان کی گولڈن جوبلی پر پیش کی گئی قرارداد منظور کر لی گئی جبکہ حکومت نے ہر سال 10 اپریل کو یوم دستور منانے کا اعلان کیا ہے۔وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ 1973ء کا آئین عوام کی امنگوں اور خواہش کا ترجمان ہے اور یہ صوبوںکی وحدت اور وفاق کے اتحاد کی علامت ہے۔ انہوں نے آئین کے بانی ذوالفقار علی بھٹو اور دیگر اکابرین کو بھی خراج تحسین پیش کیا۔ لیکن یہ بھی تو حقیقت ہے کہ جب ضیاء الحق نے آئین کو روندا اور آئین کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار تک پہنچایا تو میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف ان کے ساتھ تھے۔ یہ بات بذات خود بہت بڑا سوال ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی آج آئین کو معطل کرنے اور پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار تک پہنچانے والوں کی اتحادی ہے ۔ آئین کی پچاسویں گولڈن جوبلی کے موقع پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی شرکت سے عدالتی تقسیم کا تاثر ابھرا ہے گو کہ انہوں نے سیاسی تقریروں سے اپنی لا تعلقی کا اظہار کیا ۔ مارشل لاء کے اٹھنے کے بعد نئی حکومت کے لیے سب سے زیادہ اہم کاموں میں سے ایک نئے آئین کا مسودہ تیار کرنا تھا۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد 1972ء کو 1970ء کے انتخابات کی بنیاد پر اسمبلی بنائی گئی۔ ایک کمیٹی مختلف سیاسی جماعتوں کے کراس سیکشن سے قائم کی گئی، اس کمیٹی کا مقصد ملک میں ایک نیا آئین بنانا تھا جس پر تمام سیاسی پارٹیاں متفق ہوں۔ کمیٹی کے اندر ایک اختلاف یہ تھا کہ آیا کہ ملک میں پارلیمانی اقتدار کا نظام ہونا چاہیے یا صدارتی نظام۔ اس کے علاوہ صوبائی خود مختاری کے معاملے پر مختلف خیالات تھے۔ آٹھ ماہ آئینی کمیٹی نے اپنی رپورٹ تیار کرنے میں صرف کیے، بالآخر 10اپریل 1973ء کو اس نے آئین کے متعلق اپنی رپورٹ پیش کی، وفاقی اسمبلی میں اکثریت یعنی 135 مثبت ووٹوں کے ساتھ اسے منظور کر لیا گیا اور 14 اگست 1973ء کو یہ آئین پاکستان میں نافذ کر دیا گیامگر منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد آمروں کی طرف سے ہونیوالی من پسند ترمیمات نے آئین کا حلیہ بگاڑ ے رکھا۔ آئین میں پسماندہ علاقوں کی ترقی کا خصوصی ذکر ہوا جس پر آج تک عملدرآمد نہیں ہوا، خواتین اور اقلیتوں کیلئے قوانین موجود ہیں مگر آج بھی ان سے امتیازی سلوک ہوتا ہے، آئین میں بنیادی انسانی حقوق کا ذکر تو ہے مگر عملدرآمد آج تک نہیں ہو سکا۔ انسانی یا بنیادی حقوق کے بغیر نہ کوئی فرد آزادانہ زندگی گزار سکتا ہے اور نہ کوئی مملکت جمہوری کہلانے کی مستحق ہے۔ پاکستان کے 1962ء کے آئین میں یہ حقوق شامل نہ تھے ، بعد ازاں عوامی اور سیاسی دباؤ کے تحت انہیں آئین میں شامل کیا گیا۔ 1973ء کے مروجہ آئین میں بنیادی انسانی حقوق کی فہرست دے دی گئی اور ساتھ یہ بھی واضح کر دیا گیا کہ کوئی ایسا قانون جو ان بنیادی حقوق سے متصادم ہو گا کالعدم تصور ہو گا۔ آئین میں مذکورہ بنیادی حقوق یہ ہیں کہ زندگی اور آزادی کا حق، گرفتاری اور حبس بے جا سے تحفظ کا حق ( چند شرائط کے ساتھ )، غلامی اور بیگاری کی ممانعت ، دوہری سزا کے خلاف تحفظ ( یعنی کسی شخص کو ایک ہی جرم پر دوبارہ سزا نہیں دی جائے گی) ، ذاتی وقار کا تحفظ ، نقل و حرکت اور سکونت کی آزادی ، اجتماع کا حق، انجمن سازی کا حق، سیاسی جماعت بنانے یا اس میں شامل ہونے کا حق ( بشرطیکہ وہ سرکاری ملازم نہ ہو ) ، معاش ، کاروبار اور تجارت کا حق ، تحریر و تقریر کی آزادی، اپنے مذہب پر کار بند رہنے کا حق، تعلیمی اداروں میں مذہبی تحفظ، مذہبی ٹیکس سے تحفظ، حق جائیداد ، حقوق جائیداد کا تحفظ، شہریوں میں مساوات، عوامی مقامات تک رسائی کا حق، ملازمت، زبان و ثقافت کا حق، ان تمام بنیادی حقوق کو قانون کی زبان میں شہری آزادیاں بھی کہا جاتا ہے ۔ یہ حقوق آئین پاکستان کا حصہ ہیں ، اس میں زبان ثقافت کا حق بنیادی اہمیت کا حامل ہے، مگر سرائیکی وسیب میں انسانی حقوق کی صورتحال بہتر نہیں ، سب سے زیادہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں سردار ،جاگیردار اور تمندار کرتے ہیں، جاگیرداروں کے ہاں غریب آدمی کی قدر حیوان کے برابر بھی نہیں ، آج بھی بہت سے علاقوں میں جاگیردار ، سردار یا گدی نشین خود پلنگ پر بیٹھتے ہیں اور غریب کو نیچے بٹھایا جاتا ہے ۔ جاگیردار یا بڑے لوگ جتنے بڑے کرائم کریں کوئی نہیں پوچھتا مگر غریب کو کالا کالی اورغیرت کا نام دے کر جھوٹے الزام پر بھی قتل کر دیا جاتا ہے ۔ انسانی حقوق کے حوالے سے یہ بات بھی تسلیم کرنا ہو گی کہ بر صغیر جنوبی ایشیامیں معاشرے کو طبقات میں تقسیم کرنے والا انگریز سامراج تھا جس نے اپنے ایجنٹوں اور اپنے تنخواہ دار ملازمین کو مراعات اور عہدے دیئے وہ معزز کہلائے اور غرباء کو ان کی باج گزار کمی کمین بنا دیا گیا۔ بات صرف پاکستان کی نہیں ،پوری دنیا میں انسانی حقوق کی صورتحال اس وقت تک درست نہ ہو سکے گی جب تک ترقی یافتہ ممالک اپنی روش تبدیل کر کے ترقی پذیر ممالک اور وہاں بسنے والے لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق فراہم نہ کریں گے۔ آج وسیب کے لوگوں میں اپنے بنیادی انسانی حقوق کا شعور بڑھ رہا ہے ، لوگ تعلیم کی طرف راغب ہیں اور اپنی دھرتی ، اپنی مٹی اور اپنے وسیب سے جڑت مضبوط ہو رہی ہے۔ لوگ ا پنی شاعری ، موسیقی اور ثقافت سے والہانہ محبت کرتے ہیں جوکہ انتہا پسندی پر کاری ضرب ہے ۔ بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے صنف کی بنیاد پر ہر طرح کی امتیازی رسومات کے خاتمے کیلئے قوانین کی ضرورت ہے۔ ٭٭٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: