نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تاریخ اپنے آپ کو دوہرا رہی ہے||عامر حسینی

عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. روزنامہ بیٹھک ملتان کے ایڈیٹوریل پیج کے ایڈیٹر ہیں،۔۔مختلف اشاعتی اداروں کے لئے مختلف موضوعات پر لکھتے رہے ہیں۔

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نفسیاتی رویے سماجی-معاشی طبقات کے مفادات عکس ہوا کرتے ہیں – اور کبھی کبھی یہ نفسیاتی شعور مغالطہ بھی ہوا کرتا ہے –
مثال کے طور پر جب اسکندر مرزا نے 1956ء کے آئین کی بساط لیپٹی اور اُس نے دستور ساز اسمبلی کو چلتا کردیا تو یہ بنیادی طور پر اُس وقت کے حکمران طبقات میں ریاست پر کنٹرول کی اس کشاکش کا نتیجہ تھا جو ایک طرف تو حکمران مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے جاگیردار، زمیندار، سردار، خوانین پر مشتمل سیاست دانوں کے درمیان اقتدار پر قبضے اور کنٹرول کی کوششوں کا عکاس تھا جنھوں نے پاکستان میں وفاقی پارلیمانی نظام کی راہ میں روڑے اٹکائے تھے اور عوام کو مسلسل جمہوری نظام سے محروم رکھا تھا – یہ سارے اشرافی سیاست دان جن کا تعلق مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان سے تھا نہ صرف مسلم لیگ (جو کئی ٹکڑوں میں بٹ چکی تھی اور اُس وقت دو بڑے دھڑوں میں تقسیم تھی ایک پرانی مسلم لیگ تھی، دوسری اسی. کے اندر سے بننے والی ری پبلکن پارٹی تھی) کے اندر موجود عوامی طبقات کی جمہوری سیاست کے علمبردار سیاست دانوں ( جیسے بنگالی مڈل کلاس /پیٹی بورژوازی تعلیم یافتہ پرت میں مقبول حسین شہید سہروردی تھے جو لبرل بورژوازی ڈیموکریسی کے علمبردار تھے، مولانا عبدالحمید بھاشانی جو زیادہ تر شہری و دیہی غریب کسانوں اور صنعتی مزدوروں کے لیڈر تھے، مغربی پاکستان میں میاں افتخار الدین وغیرہ) کو دیوار سے لگانے کا کام کررہی تھی بلکہ یہ صوبہ سرحد میں متوسط طبقے کے پشتون کسانوں، قوم پرست پشتون متوسط طبقے کے کسانوں اور تعلیم یافتہ شہری پرتوں اور چھوٹے دکانداروں کے نمائندہ باچا خان، ریاست قلات کے بائیں جانب رجحان رکھنے والے محدود سے درمیانے طبقے کے بلوچ پرت کے نمائندے میر غوث بجش بزنجو، میر گل خان نصیر، عطا شاد وغیرہ کو اور بلوچ قوم پرستی کے نمائندہ سرداروں نواب خیر بخش مری، نواب عطاء اللہ مینگل اور ریاست قلات کے نواب جو اشراف سرداری قوم پرستانہ جذبات کے حامل تھے کو دیوار سے لگا چکی تھی – یہی کچھ اس نے سندھی قوم پرستی کے معمار جی ایم سید کے ساتھ کیا تھا) کو دیوار سے لگایا بلکہ دوسری طرف جو مسلم لیگ سے ہٹ کر دوسری جماعتوں سے آئے تھے انھیں بھی دیوار سے لگایا گیا- پنجابی سیاسی حکمران اشرافیہ جس کی سب سے بڑی نمائندگی ممتاز دولتانہ کررہے تھے اور یو پی سی پی اور ہریانہ کی مہاجر سیاسی اشرافیہ جس کی نمائندگی خان لیاقت علی خان کے ہاتھ میں تھی اور انھیں یہ فائدہ بھی حاصل تھا کہ نوزائیدہ پاکستانی ریاست کو برطانوی سامراج کی کھڑی کردی باوردی و بے وردی نوکر شاہی سے جو بیوروکریٹک غیر منتخب ہئیت مقتدرہ /اسٹبلشمنٹ ملی وہ بھاری تعداد میں پنجابی اور اردو اسپیکنگ مہاجر تھی – اس نے پاکستان کے سیاسی اور بیوروکریٹک ڈھانچے میں اپنی عددی اکثریت کو اپنے غلبے اور مفادات کے لیے تشکیل دیا – اور اسی غلبے اور کنٹرول کے تحت پنجاب اور سندھ کے شہری علاقوں ایک غالب نفسیات بھی تشکیل پائی جو آمریت پسندانہ اور بے وردی و باوردی نوکر شاہی کی سیاسی عمل میں مداخلت کی حمایت کرتی تھی – اسی لیے اردو کا زبردستی نفاذ، ، ون یونٹ کا قیام، سندھ طاس معاہدہ، صوبائی خودمختاری سے انحراف، مرکزیت پسند ریاستی میکنزم یہ سب کے سب پنجاب اور سندھ کے شہری علاقوں میں اس لیے مقدس اقدامات گردانے گئے کہ اس سے براہ راست مفادات وابستہ تھے – پنجاب اور کراچی میں عوامی شعور بار بار رجعت پرستی کے پروپیگنڈے سے اس لیے بھی متاثر ہوا کہ ان دونوں جگہوں پر شہری اربن مڈل کلاس کی افزائش اور بڑھوتری بھی اسی استحصالی پالیسی کا نتیجہ تھی – آمریت کے لیے پنجاب اور سندھ کے شہری علاقوں میں عوام کے اندر گنجائش بھی اسی لیے نکل آتی تھی – جاگیردار، گماشتہ سرمایہ دار سیاست دان اور بے وردی و باوردی نوکر شاہی اور ان کا ملاؤں سے گٹھ جوڑ اگر کہیں جگہ پاتا تو وہ بھی یہی علاقے تھے – عوامی شعور پر سنسر شپ اور ساختیہ پروپیگنڈا بھی اثر کرتا تھا – فوج اور سویلین بیوروکریسی نے جب جاگیردار، نواب، سردار، خوانین سیاست دانوں کو بھی چلتا کیا جو مسلم لیگ اور ری پبلکن پارٹی میں اکٹھے تھے تب ان میں سے کئی ایک جمہوریت پسند عوامی سیاست کے علمبرداروں کے ساتھ کھڑے ہوئے اور ایوب خان کے خلاف متحدہ اپوزیشن کا حصہ بنے لیکن یہ رجعت پرست ٹولہ اپنے مفادات سے دستبردار نہیں ہوا تھا – متحدہ اپوزیشن میں بھی یہ ایک ایسے جمہوری وفاق کی تشکیل کا حامی تھا جس میں بنگالیوں، سندھیوں، پشتون، بلوچ (بعد ازاں کھل کر سرائیکیوں) اقوام کے آئینی، لسانی و قومیتی حقوق کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی – جبکہ طبقاتی بنیادوں پر تو سیاست کو یہ کسی بھی طرح سے ماننے کو تیار نہیں تھا – ایوب خان، یحییٰ خان اور پھر ضیاء الحق اور اس کے بعد مشرف کو نجات دھندہ ماننے والوں کا تعلق بھی زیادہ تر اسی اشرافیہ طبقات سے تھا – پنجاب اور سندھ کی اربن مڈل کلاس کے بہت سارے سیکشن اور پرتیں آمریت کے لیے جواز جو تلاش کرتی رہی ہیں اور آج بھی کرتی ہیں تو اس کے پیچھے ان کی تشکیل کے حالات کارفرما ہیں اور اسی سے ان کی نفسیات بھی تشکیل پاتی رہی ہے –
ایوب خان کی کابینہ اور مشیروں میں پنجاب کی اربن مڈل کلاس کے تعلیم یافتہ پروفیشنل میں کافی بڑے نام شامل تھے جن میں لاہور سے سی اے قادر، قدرت اللہ شہاب، الطاف گوہر جیسے نام شامل تھے –
پیٹی بورژوازی کی لبرل پرتوں سے تعلق رکھنے والے روشن دماغ اکثر اپنے طبقے کے اجتماعی موقعہ پرست کردار کے سبب اکثر عوامی جمہوری روایت سے انحراف کا سببب بن کر عوامی طبقات کو صدمے کی کیفیت سے دوچار کردیتے ہیں – جیسے ایوب خان کی طرف اس طبقے سے تعلق رکھنے والے بائیں بازو کے کئی دانشور ایکٹوسٹ جھکاؤ کرگئے تھے جن میں خود فیض احمد فیض بھی شامل تھے جو ایوب رجیم کی جماعت اسلامی سمیت دائیں بازو کی مذھبی جماعتوں کے خلاف کاروائیوں سے امیدیں وابستہ کربیٹھے تھے – لاہور کے کئی سابق پنجابی بیوروکریٹس جن میں غلام احمد پرویز، ڈاکٹر یوسف گورایا، مسعود کھدرپوش شامل تھے اور غیر بیوروکریٹ اسلامی عقلیت پسند ایجوکیشنسٹ جیسے پروفیسر فضل الرحمان تھے بھی ایوب خان کی طرف ستائش سے دیکھ رہے تھے – اُس زمانے کے نوجوان اسلامی سوشلسٹ ٹائپ دانشور جن میں لاہور کے حنیف رامے جیسے بھی نمایاں تھے ایوب خان کی کنونشن لیگ کا حصہ بنے ہوئے تھے –
بھٹو صاحب کے زمانے میں پی این اے کے ہیجان خیز پروپیگنڈے جن میں بھٹو کو فاشسٹ بناکر پیش کرنے کا رجحان غالب تھا سے اعتزاز احسن جیسے متاثر ہوکر تحریک استقلال کا حصہ بن گئے تھے – اور پنجابی اور اردو اسپیکنگ اربن لبرل مڈل کلاس کے کئی بڑے نام جن میں لاہور سے منظور گیلانی، سید افضل احسن ایڈوکیٹ بھی اصغر خان سے متاثر ہوکر تحریک استقلال کا حصہ بنے تھے – یہاں تک کہ لاڑکانہ سے نثار کھوڑو تحریک استقلال کے ممتاز رہنما کے طور پر شامل ہوئے تھے اور ان کی بھٹو سے نفرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بھٹو کی پھانسی پر انھوں نے خوشی منائی اور مٹھائی بھی تقسیم کی اور پھر یہ نثار کھوڑو تحریک استقلال سے ہی ایم آر ڈی کا حصہ بنے تھے –
ڈاکٹر مبشر حسن کی کتاب اور اُن کی اس حوالے سے کی جانے والی گفتگو سے بھی یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اس ساری صورت حال کا زمہ دار بھٹو کو سمجھ رہے تھے اور پارٹی سے فاصلے پر ہوگئے تھے قریب تھا کہ وہ کھر کی بنائی نیشنل پیپلزپارٹی میں چلے جاتے جسے یہ پیپلزپارٹی کی اساس کی بحالی کی کوشش خیال کرنے لگے تھے – پھر یہی ڈاکٹر مبشر حسن غنوی بھٹو کی پارٹی سے امیدیں وابستہ کربیٹھے اور اسٹبلشمنٹ کی پیدا کردہ فضا کی روشنی میں بے نظیر بھٹو کو ولن قرار دیتے پائے گئے اور یہاں تک ہوا کہ انھیں لگتا تھا کہ بیگم نصرت بھٹو ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران جنرل ضیاء سے ڈیل کرنے کی کوشش کرتی رہیں – اور یہ جنرل مشرف کے احتساب کے نعرے سے متاثر ہوگئے تھے –
معراج محمد خان جیسے لیفٹ کے منجھے ہوئے لیڈر کو بھی ضیاء آمریت اور اس کے علاقائی و عالمی سطح پر سازشوں سے تعلق کا ادراک تک نہ تھا – یہ سب پیپلزپارٹی کو ایک رجعتی پارٹی خیال کررہے تھے – معراج محمد خان ایک موقعہ پر تو پستی کی اس انتہا کو چھو گئے جس کی اُن سے توقع نہیں کی جاسکتی تھی کہ وہ گل حمید کی بنائی پارٹی تحریک انصاف کے مرکزی جنرل سیکرٹری بن گئے – اُن کے بہت سارے لاہور اور کراچی میں پائے جانے والے شاگرد، عقیدت مند اب بھی تحریک انصاف میں موجود ہیں –
چودھری اعتزاز احسن ایک بار پھر میڈیا کے ھیجان خیز پروپیگنڈے اور شہری اربن مڈل کلاس کی خاص نوجوان پرتوں میں عمران خان کی مقبولیت سے مفید مطالب نکالنے کی کوشش کررہے ہیں – اور اس عمر میں اپنی سیاسی عاقبت خراب کررہے ہیں کہ اب ان کی اس غلطی کو کوئی نوجوانی کی ناتجربہ کاری کی غلطی بھی نہیں کہہ سکتا ہاں کوئی انھیں بڑھاپے میں سیاسی اعتبار سے سٹھیائے جانے کا طعنہ ضرور دے سکتا ہے-
مصطفی نواز کھوکھر کے اقدام سے ہمیں قطعاً حیرت نہیں ہوئی ہے – ان سے کہیں تجربہ کار لبرل جمہوریت پسند شیری رحمان پی پی پی کے سابقہ دور میں بطور وزیر اطلاعات میڈیا اینکرز پرسن کے جعلی پروپیگنڈے کے پریس کی آزادی کو پی پی پی کی حکومت سلب کرنا چاہتی ہے کو یک گونا سچ سمجھ بیٹھی تھیں اور وزرات سے مستعفی ہوگئی تھیں – لیکن انھیں بعد ازاں محتاط ہونا پڑا تھا-
نواز شریف کا حامی کمرشل لبرل میڈیا اینکرز ایک منظم منصوبے کے تحت پیپلزپارٹی میں شامل اربن مڈل کلاس کے نمایاں لبرل /سوشل ڈیموکریٹس کو "آزادی اظہار کا مہاتما” بناکر پیش کرتے ہیں اور جب وہ ان کا کمرشل بیانیہ حقیقی اینٹی اسٹبلشمنٹ بیانیہ سمجھ کر خرید لیتے ہیں تو تب اُن سے پی پی پی اور اُس کی مرکزی قیادت پر وہ فرد جَرم عائد کروانے کی کوشش کرتے ہیں جو جرم پی پی پی اور اس کی قیادت نے نہیں کیے ہوتے-
اعتزاز احسن کی افتخار چودھری سمیت پی سی او ججز کی بحالی کو عدلیہ کی آزادی اور ریاست ہوگی ماں جیسی نظموں کی جگالی ہو، شیری رحمان کا استعفا ہو، رضا ربانی کے آنسو ہوں، فرحت اللہ بابر کی باوجوہ کی توسیع ملازمت پر انقلابی لفاظی ہو یا اب مصطفی نواز کھوکھر کا اینٹی اسٹبلشمنٹ ہونے کی اداکاری ہو یہ تاریخ کے اپنے آپ کو دوہرائے جانے کی نشانی ہے فرق صرف اتنا ہے پہلے یہ المیہ تھی اور اب یہ مذاق ہے –

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

About The Author