مارچ 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پاکستانی دستور کی گولڈن جوبلی ۔۔۔||ملک سراج احمد

ملک سراج احمد ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھتے ہیں،وہ مختلف اشاعتی اداروں میں مقامی ،قومی اور بین الاقوامی موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

ملک سراج احمد

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ بنیادی طورپر دستور سازی اور دستور شکنی کی تاریخ ہے ۔جب دل چاہا دستور بنایا گیا اور جب کوئی رکاوٹ محسوس ہوئی تو اسی دستور کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا۔اگر قائد اعظم کی حیات میں ہی دستور تشکیل پاجاتا تو شائد قوم کی ابتدائی تین دہائیاں بھی سکون سے گذر جاتیں اور ملک بھی دولخت نا ہوتا۔ پاکستان کے دستور کی تشکیل کا سفر 10 اگست 1947 سے شروع ہوا اور 11 اگست کو قائد اعظم دستور ساز اسمبلی کے بلامقابلہ قائد ایوان منتخب ہوئے ۔تاہم ملک بننے کے بعد قائد کو اتنا وقت نا ملا کہ دستور سازی کا عمل مکمل ہوپاتا۔

قائد کے بعد تو گویا کسی ضابطے اور قانون کے بغیر طاقت کے بل پر وقت گذرتا رہا ۔1956 کے آئین کی عمر ہی دو سال رہی جبکہ 1962 میں مارشل لا کو جمہوری لباس پہنانے کے لیئے ایک دستور تشکیل دیا گیا۔بالآخر 1970 کے انتخابات ہوئے ۔16 دسمبر 1971 کو ملک دولخت ہوا اور 20 دسمبر 1971 کو ذوالفقارعلی بھٹو کو اقتدار میں مارشل لا ورثے میں ملا۔دستور کی عدم موجودگی کے سبب ذوالفقار علی بھٹو پہلے سویلین مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنے ۔چارماہ بعد اپریل 1972 میں بھٹو نے عبوری آئین نافذ کردیا جس کے تحت وہ صدر بنے ۔

آئین سازی کا عمل شروع ہوا اور فروری 1973 میں بھٹو نے بلوچستان میں نیپ کی حکومت کو برطرف کردیا۔اس پر بطور احتجاج صوبہ سرحد میں مولانا مفتی محمود جو کہ وزیراعلیٰ تھے مستعفی ہوگئے ۔ایک سیاسی بحران پیدا ہوگیا۔آئین سازی کے عمل میں رکاوٹ پیدا ہوگئی ۔ولی خان نے قومی اسمبلی میں آئین سازی کا بائیکاٹ کردیا۔صوبائی حکومتوں کے خاتمے کے بعد قومی اسمبلی میں موجود نیپ ، جے یو آئی ، جماعت اسلامی ، مولانا شاہ احمد نورانی اور مسلم لیگ پگاڑا نےبھی آئین سازی کے عمل کا بائیکاٹ کردیا۔

ملک کو آئین کی ضرورت تھی ایک ایسے متفقہ دستور کی ضرورت تھی کہ جس کے تحت آگے کا سفر شروع کیا جاسکے اور سیاسی بحران کے سبب آئین سازی کا عمل رک گیا۔ایسے میں 27 کو ذوالفقارعلی بھٹو نے اپوزیشن کو آخری بار آئین سازی کی دعوت دیتے ہوئے عندیہ دیا کہ اگر اپوزیشن کا بائیکاٹ جاری رہا تو یکطرفہ طورپر بھی آئین منظور ہوسکتا ہے ۔اس لیئے بہتر ہے کہ اپوزیشن مذاکرات پر واپس آجائے ۔29 مارچ کو حاکم علی زرداری کی سربراہی میں اپوزیشن سے مذاکرات کے لیئے چاررکنی کمیٹٰی بنائی گئی جس میں ملک جعفر اور علی بخش تالپور شامل تھے ۔کمیٹٰی نے اپوزیشن سے مذاکرات کیئےا ور اپوزیشن نے 2 اپریل کو چوہدری ظہور الہیٰ کے گھر پر اجلاس بلا لیا۔24 آئینی دفعات پر اتفاق ہوا کہ ان پر بات چیت کی جائے گی۔یوں آئینی سازی کا عمل دوبارہ شروع ہوا۔

اس وقت کی سیاسی قیادت چاہے وہ حکومتی یا اپوزیشن کی بینچوں پر موجود تھی سیاسی بصیرت رکھتی تھی ۔ان کو احساس تھا کہ آئین کی کیا اہمیت ہے اور اس کے لیئے ان کا آئین سازی کے عمل میں شریک رہنا کتنا اہم اور ضروری ہے ۔اپوزیشن کے آئین سازی کے عمل میں شریک ہونے پر غوث بخش بزنجو نے طنز کیا کہ بھٹو صوبوں میں ہماری حکومتیں ختم کرتا ہے اور ہم مرکز میں اس کے ساتھ بیٹھے ہیں اس پر مولانا مفتی محمود نے تاریخی جواب دیا تھا کہ بھٹو کے ساتھ ہماری سیاسی لڑائی ہے جو ہم صوبوں کی گلیوں میں لڑیں گے مگر یہ قوم 25 سال سے متفقہ آئین کی منتظر ہے ہم انہیں مایوس نہیں کرسکتے۔

لہذا اپوزیشن نے مذاکرات کے بعد آئین سازی کے عمل میں حصہ لیا اور 10 اپریل کو اسمبلی میں آئین کی رپورٹ پیش کی ۔اس رپورٹ پر حکومت اورعبدالولی خان سمیت اپوزیشن کے کم وبیش تمام اراکین نے دستخط کیئے جبکہ 9 اراکین اسمبلی جن میں نواب خیر بخش مری ، احمد رضا قصوری ، ڈاکٹر عبدالحی بلوچ سمیت دیگر اراکین نے دستخط نہیں کیے۔یوں 135 اراکین نے آئین کی دستاویز پر دستخط کرکے اس کو منظور کرلیا۔25 سال بعد پہلی بار ملک کو ایک متفقہ آئین مل گیا۔

دستور سازی کا مرحلہ اپنی جگہ مگر اس متفقہ آئین کو بھی معاف نہیں کیا گیا جنرل ضیاالحق کے مارشل لا میں آئین کو معطل کیا گیا پھر اس میں ترامیم کی گئیں ۔ جنرل مشرف کے دور میں بھی آئین کے ساتھ یہی کھلواڑ کیا گیا۔من پسند ترامیم نے آئین کا حلیہ بگاڑ دیا۔ آئین کو اپنی اصلی حالت میں واپس لانے کے لیئے 2010 میں سیاسی اتفاق رائے سے 18ویں آئینی ترمیم کی گئی اور اسوقت کی سیاسی قیادت نے بھی 1973 کی سیاسی قیادت کی طرح کا اعلیٰ سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کیا۔

آج 1973 کے آئین کو بنے ہوئے 50 سال ہوگئے ہیں اور ان پانچ دہائیوں میں گو کہ آئین کی روح پر من وعن عمل نہیں ہوسکا اور اس کو معطل کرنے کے ساتھ ساتھ اس میں من پسند آئینی ترامیم بھی کی گئیں تاہم اس آئین کی موجودگی روشنی کی وہ کرن ہے جس کے سہارے سیاہ رات گذاری جاسکتی ہے ۔یہ آئین ہی محکوم اور پسے ہوئے طبقات کو تحفظ فراہم کرتا ہے شہریوں کو بنیادی حقوق دیتا ہے ۔یہ آئین وہ ضابطہ اخلاق اور قوانین دیتا ہے جس کے تحت ریاست اور حکومت نے چلنا ہوتا ہے ۔یہ بھی غنیمت ہے کہ آج کی سیاسی قیادت اس متفقہ آئین پر ایک بار پھر متفق ہے اس آئین کی حفاظت کا عزم کررہی ہے اس آئین پرچلنے کا اعلان کررہی ہے اور تمام اداروں کو اپنا متعین کردہ آئینی کردار ادا کرنے کا کہہ رہی ہے ۔حالات چاہے جیسے بھی ہوں یہ اطمینان بہت ہے کہ کم ازکم ایک ایسا لائحہ عمل تو موجود ہے جس پر اگر عمل شروع کردیا جائے تو خوشحالی اور آسودگی کی منزل کو حاصل کرلیں گے ۔1973 کے آئین کو منظور کرنے والی اور اس آئین کی حفاظت کرنے والی سیاسی قیادت خراج تحسین کی مستحق ہے ۔

مصنف سے رابطے کیلئے
رابطہ نمبر 03334429707
وٹس ایپ 03352644777

یہ بھی پڑھیے:

ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد

وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد

حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد

بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد

عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد

حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد

ملک سراج احمد کے مزید کالم پڑھیے

%d bloggers like this: