مارچ 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سوالوں کا ’’رمبا‘‘ ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قانون کا نہیں سیاسیاست، تاریخ اور صحافت کا طالب علم ہوں فقط ۔ خبریں بناتے، تجزیہ کرتے، اداریہ اور ادارتی نوٹ لکھتے ہوئے جتنی سوجھ بوجھ ہوئی اس کی روشنی میں۔ سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس (پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات والے) کے فیصلے پر ایک سے زائد بار عرض کیا تھا کہ ’’جسٹس آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ کا اختلافی نوٹ اور ان کی جانب سے بنچ میں رہنے بارے معاملہ چیف جسٹس کی صوابدید پر چھوڑ دینے کا تقاضا یہ تھا کہ انہیں بنچ سے الگ کرنے کا حکم تحریری طور پر موجود ہوتا‘‘۔

ایسا نہیں ہوا اور اختلافی نوٹ فٹ نوٹ کے طور پر فیصلے کا حصہ رہے۔ بعد میں دو مزید ججز نے بھی وہی رائے دی جو جسٹس آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ نے دی تھی سپریم کورٹ کو متنازعہ بننے سے بچانے کے لئے ضروری تھا کہ چیف جسٹس اس صورت میں جب دو جج بنچ سے الگ ہوگئے دو نے بنچ میں رہنے یا نہ رہنے کو ان کی صوابدید پر چھوڑدیا تو ان کے بغیر پانچ رکنی بنچ سماعت کرے گا، پر مُصر رہنے کی بجائے فل کورٹ بنادیتے۔

فل کورٹ کیوں نہیں بن سکا اس کی کئی وجوہات ہیں۔ اہم ترین وجہ یہ ہے کہ یہ سمجھا گیا کہ اگر فل کورٹ کی تشکیل ہوئی تو سب سے پہلے دو سوال اٹھیں گے

اولاً یہ کہ سی سی پی او لاہور کے کیس میں جب چیف الیکشن کمشنر فریق ہی نہیں تھے تو کس کی دلجوئی کے لئے انہیں طلب کیا گیا؟

ثانیاً یہ کہ ازخود نوٹس لئے جانے کے محرکات کیا تھے۔ نیز یہ کہ ازخود نوٹس بنتا بھی تھا کہ نہیں؟

پچھلے کالموں میں جس نکتہ کی طرف توجہ دلائی تھی وہ یہ تھا کہ

’’کیا کسی پیشگی معاہدہ کے تحت وزیراعلیٰ بنائے جانے والا شخص اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری بھیجے گا تو یہ سمری روایتی قانون کے مطابق ہوگی یا پیشگی معاہدہ کا حصہ۔ کیا آئین پیشگی معاہدہ پر اسمبلی تحلیل کئے جانے پر خاموش ہے؟

آپ پانچ رکنی بنچ کے 2 جج صاحبان کے گزشتہ روز جاری ہونے والے اختلافی فیصلے کا تفصیلی مطالعہ کیجئے۔ پھر جسٹس آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ کے اختلافی نوٹس کو دیکھ لیئجے۔ طالب علم نے تقریباً انہی نکات اور سوالات پر متوجہ کیا تھا۔

سو اب بہت ادب کے ساتھ یہ عرض کرسکتا ہوں کہ نئے آئینی بحران کا دروازہ ہی نہیں کھلا بلکہ شاہراہ دستور پر آئینی بحران کا ’’رمبا‘‘ ( رمبا ایک افریقی رقص ہے ڈھول کی تھاپر ہوتا ہے ) جاری ہے۔

اب جبکہ پی ٹی آئی دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے التواء کے خلاف سپریم کورٹ گئی ہے۔ گزشتہ روز اس درخواست کی ابتدائی سماعت بھی ہوئی ان سطور کے لکھے جانے کے کچھ دیر بعد آج دوبارہ سماعت ہونی ہے مکرر یہ عرض کروں گا کہ خالص آئینی معاملے کو شخصی انا اور خاندانی محبت کی آنکھ سے دیکھنے کی بجائے پہلے ان 2سوالات کا جواب دیا جاناچاہیے۔

اولاً یہ کہ ازخود نوٹس کے فیصلے سے ہائیکورٹس کے اختیارات میں مداخلت اور ان کے کردار میں کمی ہوئی یا نہیں؟

ثانیاً یہ کہ 9رکنی بنچ سے 2جج الگ ہوئے (یہاں ان کے الگ ہونے کی وجہ زیربحث لانے کی ضرورت نہیں) 2نے اختلافی نوٹ لکھا اور پھر انہیں بنچ میں شامل کئے بغیر 5رکنی بنچ نے سماعت کی اور فیصلہ جاری کیا۔ اس میں بھی 2ججز کا اختلافی فیصلہ موجود ہے

اب قانونی نوعیت کا سوال یہ ہے کہ کیا یہ فیصلہ تین دو کا شمار ہوگا یا چار تین کا؟ ان دو سوالات کا جواب دیئے بغیر آگے بڑھنا نہ صرف مزید مسائل پیدا کرے گا بلکہ عدالت کی ساکھ پر حرف آئے گا۔

بعض قانون دان ان میں پاکستان بار کونسل بھی شامل ہے کی رائے یہ ہے کہ جب تک سابقہ فیصلہ کی حیثیت طے نہیں ہوجاتی نئی درخواستوں کی سماعت نہیں ہونی چاہیے۔

پانچ رکنی بنچ کے دو جج صاحبان کے گزشتہ روز جاری کئے جانے والے تفصیلی اختلافی فیصلے کے مندرجات سے آنکھیں بند کرکے آگے بڑھنا غلطی ہوگی۔

عدلیہ کا احترام لاریب واجب ہے لیکن اس سے زیادہ احترام پارلیمان کے حق قانون سازی کا ہے۔ چیف جسٹس نے گزشتہ روز کی سماعت میں کہا

’’آئین کی تشریح کا مطلب نیا آئین لکھنا نہیں نہ حکومتیں بنانے گرانے کے لئے ہے یہ عوام کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کے لئے ہوتی ہے‘‘۔

یہی قانون، سیاست اور صحافت کے طلباء کہتے آئے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ جو فیصلہ عددی بنیاد پر متنازعہ ہوگیا ہو کیا اس پر عملدرآمد سے انحراف پر کارروائی کی درخواست قانونی تصور ہوگی؟

عام فہم رائے یہی ہے کہ پہلے فیصلے کی حیثیت طے کرنا ہوگی۔ ازخود نوٹس لئے جانے کے عمل کو اگر چار جج مسترد کردیتے ہیں تو جو صاف سیدھی بات سمجھ میں آرہی ہے اس سے آنکھیں چرانے کی ضرورت نہیں۔

ہماری دانست میں اب بھی وقت ہے کہ اس معاملے پر فل کورٹ کی تشکیل کی طرف بڑھا جائے۔ یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ اسی عدالت کے جس فیصلے کے تحت پرویزالٰہی نے وزیراعلیٰ کے طور پر حلف لیا تھا وہ فیصلہ سپریم کورٹ کے ہی ایک فیصلے کی نفی تھا۔ ایک ہی معاملے میں دو مختلف فیصلوں سے جنم لینے والے سوالات ازخود نوٹس کیس میں ایڈریس نہیں ہوئے اب مزید سوالات سامنے آگئے ہیں۔

مناسب ترین بات یہی ہوگی کہ شخصی انا کی تسکین کی بجائے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔ یہی اس حساس نوعیت کے آئینی مقدمہ کی بنیادی ضرورت ہے ۔ مکرر عرض کئے دیتا ہوں کہ پچھلے 30برسوں سے ان سطور میں آئینی نوعیت کے کیسوں کے حوالے سے یہی عرض کیا کہ آئینی تنازعات، تشریحات، صوبوں اور وفاق میں پیدا ہونے والے قانونی اختلافات اور اختیارات کے تنازعات پر سماعت کے لئے الگ سے وفاقی دستوری عدالت ہونی چاہیے۔

اس رائے کی دو وجوہات ہیں اولاً معمول کی عدالتوں پر مقدمات کی سماعت کا بوجھ اور ثانیاً سیاسی مقدمات کی سماعت کے دوران جج صاحبان کے بعض ریمارکس جن سے سیاسی ماحول میں مزید تلخی بڑھتی ہے۔

جج صاحبان ریمارکس دینے میں آزاد ہیں ان کی اس ضمن میں رہنمائی حدِ ادب سے تجاوز کے زمرے میں آئے گی لیکن خود انہیں بھی دیکھنا ہوگا کہ ان کے ریمارکس کی تفسیر و تشریح کرنے والے کیسا ماحول بنانا چاہتے ہیں۔

اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ پچھلے چند برسوں سے بنچوں کی تشکیل کے ساتھ رائے بن جاتی ہے کہ جس کیس کے لئے بنچ بنا ہے اس کا فیصلہ کیا ہوگا۔ ایک بار پھر بہت ادب کے ساتھ یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ اس وقت تین اہم سوال ہیں۔

پہلا یہ کہ ’’کیا پیشگی سیاسی معاہدہ کے تحت وزیراعلیٰ بننے والا شخص اگر اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری بھجواتا ہے تو یہ روایتی قانون کا حصہ شمار ہوگی یا بدنیتی پر مبنی؟

دوسرا سوال یہ ہے کہ ازخود نوٹس کے فیصلے کی قانونی حیثیت اس صورت میں کیا ہوگی کہ گزشتہ روز کے تفصیلی اختلافی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ تمام ادارے 4ججز کے حکم کی تعمیل یقینی بنائیں۔

تیسرا اہم سوال ہائیکورٹس کی حدود اور اختیارات کا بھی ہے۔

ہم ازخود نوٹس کے فیصلے کے بعد شروع ہوئے فری سٹائل دنگل کا حصہ بنے بغیر بھی یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایسا تاثر نہیں ابھرنا چاہئے کہ عدالت کی کوئی پسندوناپسند ہے اسی طرح ازخود نوٹس والے بنچ سے الگ ہوجانے والے جسٹس جناب اعجازالحسن کو نئی درخواستوں کی سماعت کے لئے بنائے گئے بنچ کا حصہ نہیں بنانا چاہیے تھا۔

چیف جسٹس کے اختیارات و صوابدید اور ان کا منصب سر آنکھوں پر لیکن کیا وہ اعتراضات دور ہوگئے جن کی وجہ سے جسٹس اعجازالحسن 9رکنی بنچ سے الگ ہوئے تھے (جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کا معاملہ مختلف ہے)

عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر فیصلوں کی بجائے جج صاحبان بولنے لگیں گے تو دوسروں کو چپ کرانا مشکل ہوجائے گا۔

ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران 2ججز اور وکلاء کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات کو نظرانداز کرنے سے مسائل پیدا ہوئے۔ پانچ رکنی بنچ کا فیصلہ جاری کرتے وقت یہ نہیں بتایا گیا کہ دو ججز نے بنچ میں رہنے کا معاملہ چیف جسٹس پر چھوڑا تھا انہیں مزید سماعت کا حصہ نہ بنانے کا تحریری حکم کیوں جاری نہیں کیا گیا اس پر ان کے اختلافی نوٹس فٹ نوٹ کے طور پر کیوں موجود ہیں۔

بہرحال یہ حقیقت اب دوچند ہوچکی ہے کہ ایک آئینی بحران کا سامنا ہے۔ یہ کیسے حل ہوگا فیصلہ کرتے وقت یہ ضرور دیکھنا ہوگا کہ دستور و قانون بالادست ہیں یا شخصی محبت؟

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: