نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جب دہن گٹر بنالیئے جائیں ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ منطق درست نہیں کہ چونکہ فلاں بدزبان ہے اس نے اوراس کے حواریوں نے فلاں کی بیٹیوں اور اس کی پارٹی کی خواتین کو گالی دی تھی اور اب اگر کسی نے جواب میں اسے گالی دی ہے تو حساب برابر۔ یا یہ کہ پہلے تم اُس گالی کی مذمت کرو پھر اِس گالی کی مذمت درست ہوگی۔

سیاسی عمل میں گالم گلوچ اور سستی جملے بازی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنا یہ ملک۔ ہم یہاں تاریخ کے گڑے مردے اکھاڑنے کی بجائے ایک وفاقی وزیر رانا تنویر حسین کی گزشتہ روز قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر میں سابق وزیراعظم عمران خان کے لئے کہے گئے غلیظ ترین الفاظ پر بات کررہے ہیں۔

زبان تو ویسے عمران خان اوران کے ٹائیگرز کی بھی آب زم زم سے دھلی ہوئی نہیں لیکن کیا یہ اس گالی کا جواز ہے جو رانا تنویر حسین نے دی؟ بالکل بھی نہیں کسی کی ماں پر تہمت قومی اسمبلی میں لگائی جائے یا سوشل میڈیا اور عام زندگی میں، اس کی تائید کرنے کے لئے اتنا ہی کم ظرف ہونا پڑتا ہے جتنی کم ظرفی کا مظاہرہ گالی دینے والے یا والوں نے کیا ہو۔

یہ درست ہے کہ عمران خان کے ٹائیگرز نے اپنی بدزبانیوں سے ایسا ماحول بنادیا ہے کہ کوئی دوسرا بدزبانی کرے تو اکثر لوگ یہ کہتے ہیں کہ کوئی بات نہیں اس طرح کے لوگوں کو یہی زبان سمجھ میں آتی ہے لیکن کیا یہ بات سوفیصد درست اور ہماری سماجی اقدار سے لگا کھاتی ہے ؟ ۔

ابھی چند دن ہوتے ہیں ہمارے ایک عزیز نے سوشل میڈیا پر لکھا پیپلزپارٹی کے حامی ۔۔۔۔۔، اس کے بعد کا جملہ لکھنا کیا دہرانا بھی میرے لئے ممکن نہیں۔ اس عزیز کا خاندان اور سسرال دونوں عشروں تک پیپلزپارٹی کے حامی اور ووٹر رہے۔ دونوں خاندانوں کے چند افراد آج بھی پیپلزپارٹی کے حامی ہیں۔

کڑوا سچ یہ ہے کہ پپلزپارٹی کو چھوڑ کر اکتوبر 2011ء کےبعد بلکہ یوں کہہ لیجئے 2013ء کے بعد سے جیالوں کے جو خاندان انصافی ہوئے ان کی نئی نسل اور اچھے خاصے معقول لوگ بات بات پر ایسی بدزبانی کرتے ہیں کہ آدمی حیران ہوتاہے کہ یہ کیا ہورہا ہے۔

کیا یہ سستی بازاری زبان ردعمل ہے؟ سابق جیالوں اور حاضر انصافیوں میں سے اکثر سے جب بات نہیں بن پاتی تو فوراً محترمہ بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو سے 1988ء سے 1999ء تک کے درمیانی برسوں میں روا رکھے گئے سلوک کی آڑ لے لیں گے۔

بات دوسری جانب نکل گئی بالائی سطور میں ذاتی تجربہ لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ اس پر دو آراء نہیں کہ تحریک انصاف نے بدزبانیوں کی ایسی شاندار مثال قائم کی ہے کہ اس کا مقابلہ ممکن نہیں۔

مجھے حیرانی ہوتی ہے جب پیپلزپارٹی اور (ن) لیگ سے ہوتے ہوئے عمران خان کی بیعت تک پہنچنے والے بھی یہ کہتے ہیں کہ اُن، فلاں فلاں چوروں نے ملک برباد کردیا۔ ارے دو ساعت دم تو لیجئے یہ جن کو آپ چور اور فلاں فلاں کہہ رہے ہیں ماضی میں ایک طویل عرصہ آپ کے خاندانوں نے ان چوروں کے ساتھ بسر کیا اور ان سے فوائد سمیٹے وہ چور ہیں تو آپ کیا سادھو سنت ہیں؟

 

ہماری مروجہ سیاست میں عدم برداشت روز اول سے موجود ہے۔ طنزیہ جملے مخالفین کے الٹے سیدھے نام رکھنا اور ہلکی پھلکی موسیقی کے ساتھ ڈھولک ہمیشہ سے بجتی چلی آئی۔

جناح صاحب سے بھٹو تک سبھی نے کسی نہ کسی مرحلہ پر زبان کے بے قابو گھوڑے پر سواری کی۔

1988ء کے انتخابات سے قبل ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی چھتر چھایہ میں بننے والے اسلامی جمہوری اتحاد کے میڈیا سیل نے مخالفین کے خلاف پروپیگنڈے میں سوقیانیہ انداز اختیار کیا۔ بیہودہ پمفلٹ بازی، سستے بازاری نعرے اور گھٹیا گفتگو آئی جے آئی کے دین دار و غیردیندار قائدین کا سیاسی رزق بنی۔

اس دور میں جماعت اسلامی، مسلم لیگ (یہ اب مسلم لیگ (ن) کہلاتی ہے) اور آئی جے آئی کی دوسری مذہبی جماعتوں کے قائدین کے دہن مبارک گٹر بنے ہوئے تھے۔

یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ ان گٹروں کے لئے تازہ خوراک اسٹیبلشمنٹ فراہم کرتی تھی۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا دہنوں کو گٹر بنائے سیاستدانوں اور دین داروں کا خود سے عقل سے ہاتھ تنگ تھا؟

جی نہیں، اصل میں ان کی سیاست کو زندگی بھٹو خواتین یا یوں کہہ لیجئے ماں بیٹی کو گالی دے کر ہی ملتی تھی۔

اس دور سے کچھ پیچھے چلیں تو پی این اے (پاکستان قومی اتحاد) نے خود ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف کیا کیا نہیں کہا۔ گھاسی رام، نہرو کا بیٹا، اس کی ماں ہندو تھی، اس کا تعلق….؟ اس کی تو مسلمانی نہیں ہوئی تھی۔

یہی سب کچھ ہوا 1977ء سے 1999ء کے درمیانی 22برسوں میں۔

اکتوبر 1999ء میں جنرل مشرف نے نوازشریف کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کیا۔ پہلی بار دیرینہ دشمن (ن) لیگ اور پیپلزپارٹی اے آر ڈی نامی اتحاد میں فوجی حکومت کے خلاف اکٹھے ہوئے۔ رواں صدی کی پہلی دہائی میں میثاق جمہوریت ہوا۔ اس سے قبل جدہ کے سرور پیلس اور پھر لندن میں محترمہ بینظیر بھٹو اور میاں نوازشریف کے درمیان ملاقاتیں ہوئیں۔ دو تین ملاقاتیں ون ٹو ون تھیں کچھ ملاقاتوں میں طرفین کے خاندان بھی شامل تھے۔

ان میں اہم ترین ملاقات جدہ کے سرور پیلس والی تھی جہاں میاں نوازشریف کے والد میاں محمد شریف مرحوم نے اپنے بیٹوں اور خاندان کے دوسرے افراد کے ساتھ محترمہ بینظیر بھٹو کا استقبال کیا انہیں صاحبزادی کہہ کر چادر اوڑھائی۔ اس موقع پر انہوں نے مختصراً چند باتیں بھی کہیں۔

اس ملاقات کا تفصیلی احوال انہی دنوں ایک کالم میں عرض کیا تھا۔ میرے خیال میں یہ ملاقات ذاتی تلخیوں، نفرت اور کدوروتوں کے خاتمے اور تحمل و برداشت کو رواج دینے کی بنیاد بنی۔

آج جو سابق جیالے اور حاضر انصافی ماضی کا رونا رو رو کر اپنی بدزبانی کے لئے جواز گھڑتے ہیں یہ اس وقت ’’کومے‘‘ میں تو نہیں تھے زندہ تھے تب ان کی غیرت کا تقاضا اور امتحان یہ تھا کہ اس وقت اپنی قائد سے کہتے بی بی ہمیں شریف فیملی سے مفاہمت قبول نہیں۔

خیر چھوڑیئے ہم رانا تنویر حسین کے ان غلیظ ترین جملوں پر بات کرتے ہیں جو قومی اسمبلی کی ایک تقریر میں انہوں نے استعمال کئے۔

رانا تنویر 1985ء سے قومی اسمبلی کے لئے منتخب ہوتے چلے آرہے ہیں۔ درمیان میں ایک دو بار وہ اپنے حلقہ سے ہارے بھی لیکن وہ ایک سینئر سیاستدان ہیں کئی بار وزیر رہے اب بھی وفاقی وزیر ہیں۔

انہوں نے عمران خان کے بارے میں قومی اسمبلی میں جو کہا اس پر اگر وہ تنہائی میں غور کریں تو شرمندہ ہوں گے۔ کیا محض شرمندگی اس بدزبانی کا ازالہ ہے؟ جی نہیں، اسی طرح پی ٹی آئی کے فواد حسین چودھری نے بدھ کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران ایک سوال کے جواب میں رانا تنویر کو جو ننگی گالیاں دیں وہ بھی شرمناک عمل ہے۔

یہ عمل اور ردعمل کی منطق مجھے تو کم از کم کبھی قائل نہیں کرپائی۔ فواد تو خیر ذاتی زندگی میں بھی انتہائی بدزبان شخص ہے۔

رانا تنویر کے لئے اس کے منہ سے نکلی گالی پر حیرانی اس لئے ہوئی کہ ابھی جنوری 2022ء میں اسی فواد چودھری نے رانا تنویر سے مشترکہ دوستوں کے توسط سے دو ملاقاتیں کی تھیں ان ملاقاتوں کا مقصد وہی تھا جو ہر سیاستدان کا ہوتا ہے یہ وہی دن تھے جب فواد نے مولانا فضل الرحمن سے بھی بعض مشترکہ تعلق داروں کی معرفت رابطہ کیا تھا۔

دونوں جماعتوں سے اس کے رابطے کی وجوہات ان سطور میں تفصیل کے ساتھ عرض کرچکا۔ قصہ مختصر یہ کہ رانا تنویر کی بدزبانی اور فواد چودھری کی جوابی گالی دونوں قابل مذمت ہیں دونوں کو اپنی اپنی اس غلیظ حرکت پر ڈوب مرنا چاہیے اگر اس کا حوصلہ ہو تو ۔

اسی طرح ٹائیگرز اور سابق جیالے نواز شریف کی صاحبزادی کے لئے یا جواباً عمران کے کچھ مخالف ان کی اہلیہ کے لئے جو بدزبانی کرتے ہیں وہ بھی قابل مذمت ہے۔

سیاستدان کہلاتی مخلوق کو یہ سوچنا ہوگاکہ انہوں نے اپنے حامیوں کو کہاں لاکھڑا کیا ہے۔ اب تو خیر سے بہت سارے جیالے بھی اسی رنگ میں رنگے ہوئے ہیں۔

حرف آخر یہ ہے کہ سیاست میں گالم گلوچ مخالفین کی خواتین کے دوپٹے نوچنے، ان کی کردار کشی اور سستے بازاری جملے اچھالنے والے سبھی بلاامتیاز مجرم ہیں۔

گالی ایک دی جائے یا گالیوں کی چاند ماری ہو دونوں غلط ہیں اس گالم گلوچ پرستی نے ہمارے سماج کو جس تباہی کے کنارے پر لاکھڑا کیا ہے اس سے بچ نکلنے کی واحد صورت یہ ہے کہ ہر شخص ہر خاص و عام زبان کے درندے کو قابو رکھے اور یہ ذہن نشین بھی کرلے کہ زبان کا درندہ صرف وہ نہیں پال رہے دوسرے بھی پال پوس رہے ہیں اور یہ کہ یہ سوچ اور رویہ کسی بھی طرح قابل ستائش نہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author