مارچ 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

عدم تشدد پر مبنی سیاسی جدوجہد ||عامر حسینی

عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. روزنامہ بیٹھک ملتان کے ایڈیٹوریل پیج کے ایڈیٹر ہیں،۔۔مختلف اشاعتی اداروں کے لئے مختلف موضوعات پر لکھتے رہے ہیں۔

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسٹبلشمنٹ (غیر منتخب ہئیت مقتدرہ) کے کسی بھی ادارے آئین میں دیے گئے کردار تک محدود کرنے کے لیے جمہوریت پسند سیاسی جماعتوں کے پاس عدم تشدد پر مبنی سیاسی جدوجہد کے زریعے عوام کی حمایت کا حصول ہوتا ہے – ہر جمہوریت پسند جماعت کا اس حوالے سے اپنا وژن ہوا کرتا ہے –
پاکستان پیپلزپارٹی کا وژن سب کے سامنے ہے وہ پارلیمنٹ کو غیر منتخب ہئیت مقتدرہ کے ہر ادارے پر بالادست ادارہ ہونے کو اپنا آدرش سمجھتی ہے وہ اپنی عدم تشدد پر مبنی جمہوری سیاسی جدوجہد تین نسلوں سے کررہی ہے – اس جدوجہد کے دوران اُس نے کبھی بھی ملک میں غیر منتخب ہئیت مقتدرہ کے اپنے منحرف لاڈلوں سے لڑائی کے دوران اُن منحرف لاڈلوں کے وجود کو غیر منتخب ہئیت مقتدرہ کی زبردست تشدد و جبر کی طاقت سے مٹانے کے لیے غیر منتخب ہیئت مقتدرہ کی طرف سے تعاون کی خواہش کو ٹھکرایا اور بدلے میں حکومت لینے سے بھی انکار کیا –
اُس کا ہمیشہ مطالبہ سیاسی انجنئیرنگ، پری پول، پول دھاندلی اور پوسٹ پول انجنئیرنگ کا خاتمہ رہا ہے –
محترمہ بے نظیر بھٹو نے 1997ء میں زبردست دھاندلی سے مسلط کی جانے والی انتخابی شکست کے باوجود وزیراعظم میاں نواز کو 97ء کی قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں ہی اپنی تقریر کے دوران وزیراعظم میاں نواز شریف کو پیشکش کی تھی کہ وہ جیسے بھی وزیراعظم بنے ہوں، اُن کے پاس دوتہائی اکثریت ہے، اس اکثریت کو وہ اگر پارلیمنٹ کو جمہوریت کے ناقابل تسخیر قلعے میں بدلنے والے اقدامات اٹھائیں گے تو پی پی پی اُن کا بھرپور ساتھ دے گی – لیکن میاں نواز شریف پارلیمنٹ کو بالادست بنانے کی بجائے منتخب اور غیر منتخب ہئیت مقدرہ کے اداروں کو اپنی ذات کے تابع بنانے اور اپوزیشن کو کُچلنے کے راستے پر چَل نکلے – جس کا نتیجہ 12 اکتوبر 1999ء کو مشرف مارشل لاء کی صورت میں نکلا –
پی پی پی نے مشرف کے 8 سالہ دور آمریت میں مشرف کو اقتدار سے الگ کرنے کے لیے انتھک محنت کی – پی پی پی نے مشرف رجیم سے مل کر مسلم لیگ نواز کو ریاستی جبر اور ریاستی اداروں کی مدد سے کچلنے کے لیے مانگے گئے دست تعاون کو ٹھکرایا – اے آر ڈی میں شامل کرکے نواز لیگ کو بچایا-
نواز لیگ نے اس پی پی پی کی دور اندیش سیاست کا ساتھ دینے کی بجائے غیر منتخب ہیئت مقتدرہ کے لاڈلوں کے ساتھ اشتراک بناکر اے پی ڈی ایم بناکر اسٹبلشمنٹ کو بدستور متنازعہ کردار ادا کیے جانے کے قابل بنانے کا راستا دیا-
پی پی پی نے 2008ء کے قومی اور صوبائی اسمبلیوں شاندار کامیابی حاصل کی لیکن اُس نے پنجاب کا اقتدار حاصل کی خاطر مسلم لیگ نواز کو کمتر بنانے کے اسٹبلشمنٹ کے ایجنڈے کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا –
آصف علی زرداری کو کیانی نے پیشکش کی تھی کہ وہ اگر مسلم لیگ نواز کی بجائے کنگ پارٹی ق لیگ سے اتحاد بنائے تو پنجاب کی وزرات اعلیٰ بھی اُن کو مل جائے گی –
پیپلزپارٹی میں شاہ محمود قریشی اس پیشکش کو قبول کرنے کے حق میں تھے اور اسٹبلشمنٹ نے نجف سیال کی قیادت میں 40 کے قریب آزاد ایم پی ایز بھی شاہ محمود قریشی کے گھر جمع کردیے تھے – شاہ محمود قریشی مسلم لیگ ق، 40 آزاد امیدواروں کے تعاون سے چیف منسٹر پنجاب آسانی سے بن جاتے – اور وفاق میں پیپلزپارٹی ق لیگ اور آزاد اراکین قومی اسمبلی کی حمایت سے سادہ اکثریت سے کہیں زیادہ ووٹوں سے حکومت بنالیتی – قیمت اس کی مسلم لیگ نواز کو پنجاب اور وفاق میں اپوزیشن میں بٹھانا اور اس میں نقب لگانا تھا –
لیکن آصف علی زرداری نے اسٹبلشمنٹ کی اس پیشکش کو قبول کرنے سے انکار کیا-
مسلم لیگ نواز سے مل کر وفاق میں حکومت بنانے اور پنجاب میں نواز لیگ کو حکومت بنانے کا موقعہ فراہم کیا –
اسٹبلشمنٹ جس کی قیادت اُس وقت جنرل کیانی کے پاس تھی نے آصف زرداری کے عدم تعاون اور اُن کے ایجنڈے کی تکمیل کرنے سے انکار کی سزا دی –
کیانی نے نواز شریف سے ہاتھ ملایا- اپنی تابع فرمان افتخار چوہدری عدلیہ کو بھی نواز شریف کے سپرد کیا – مسلم لیگ ق میں سے ایک فاروڑ بلاک اور 40 آزاد اراکین صوبائی اسمبلی کو بھی نواز لیگ میں شامل کرایا – یوں مسلم لیگ نواز کو پنجاب میں کسی بھی خطرے سے بے نیاز کیا-
پی پی پی نے مسلم لیگ نواز کے خلاف استعمال ہونے سے انکار اس لیے کیا تھا کہ پی پی پی جمہوریت اور پارلیمنٹ کو بالادست بنانے کا سفر ہموار طریقے سے شروع کرسکے –
پی پی پی ایسی آئینی ترامیم متعارف کرانا چاہتی تھی جس سے فوج اور آئی ایس آئی کے متنازعہ کردار کو ہمیشہ کے لیے بند کیا جاسکے اور جوڈیشل ریفارمز لاکر عدلیہ کے زریعے منتخب جمہوری حکومت کے کام میں روکاوٹ کے طریقہ واردات کو روک سکے –
لیکن نواز شریف نے کیانی اور افتخار چودھری سے ہاتھ ملاکر پی پی پی کے اس عزم کو ناکام بنانے کی کوشش کی – یہاں تک کہ وہ پی پی پی کی جمہوری حکومت کو میمو گیٹ کے زریعے برطرف کرانے کی سازش میں بھی شریک ہوگیا-
کیانی نے آصف علی زرداری کے انکار کی سزا ملک میں طالبان اور اس کے اتحادی دہشت گردوں کو ڈھیل دے کر دی –
یہ کیانی کی قیادت میں غیرمنتخب ہئیت مقتدرہ تھی جس نے پی پی پی کی جانب سے امریکہ اور یورپ کی جمہوریت کی بھرپور حمای کے ایجنڈے کو امریکہ کی غلامی سے تعبیر کرایا اور اُس زمانے میں ابھرتے ہوئے الیکٹرانک میڈیا کے تمام چینلز پر یہ پروپیگنڈا کرایا کہ پی پی پی امریکہ اور یورپ کی خواہش پر فوج اور آئی ایس آئی کو کمزور کرنے کے درپے ہے – پی پی پی امریکہ کو نیوکلئیر پروگرام تک رسائی دینا چاہتی ہے –
کیانی کی قیادت میں اسٹبلشمنٹ نے ٹی وی چینلز پر شدت سے یہ پروپیگنڈا بھی کرایا کہ پی پی پی /آصف علی زرداری عدلیہ کی آزادی کے مخالف اور اُسے کنٹرول کرنا چاہتے ہیں –
پی پی پی پی سی اوز ججز کو گھر بھیج کر جمہوریت پسند ججز کی تعیناتی کے لیے میثاق جمہوریت میں کیے گئے وعدوں کی تکمیل چاہتی تھی –
نواز شریف نے عوامی طاقت سے وفاق کا اقتدار حاصل کرنے کی بجائے کیانی اور افتخار چودھری کو سیڑھی بنانے کا فیصلہ اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے ایجنڈے کو پس پشت ڈالا دیا –
میاں محمد نواز شریف نے جنرل مشرف کی نااہلی سے پیدا ہونے والے معاشی چیلنجز اور اس سے پیدا شدہ توانائی کے بحران کے دوران پیش آنے والی مشکلات جن میں گیس اور بجلی کی لوڈشیڈنگ کے مسائل سرفہرست تھے اُن سب کا ملبہ بھی پیپلزپارٹی پر ڈالا جبکہ اُسے اچھے سے پتا تھا کہ اس بحران کا پائیدار حل کے لیے بجلی اور گیس کے پروجیکٹس طویل المدت ہیں –
ایک طرف جنرل کیانی کی نیم دلی کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ سے پیدا شدہ تباہی، دوسری طرف افتخار چودھری عدلیہ کی حکومتی منصوبوں کے خلاف سوموٹو نوٹسز تھے جنھوں نے پی پی پی کو مفلوج کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی اور تیسری طرف نواز شریف کی طرف سے پی پی پی کی حکومت کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی مسلسل کوششیں یہ سزا پی پی پی کو غیر منتخب ہئیت مقتدرہ کے ساتھ تعاون نہ کرنے اور حکومت سازی کے وقت نواز لیگ کو دیوار سے نہ لگانے کی وجہ سے ملی – اس کے باوجود پی پی پی نے 20 بلین ڈالر کے زرمبادلہ کے ساتھ قدرے مستحکم معشیت کھڑی کی-
کیانی نے 2013 کے انتخابات کے دوران طالبان کو پی پی پی اور اے این پی پر چھوڑ دیا اور انھیں انتخابی مہم بھی چلانے نھیں دی گئی – جبکہ پنجاب اور کے پی کے میں پی پی پی میں توڑ پھوڑ کرکے آئی ایس آئی کے ڈی جی ظہیر السلام نے وہاں تحریک انصاف کو کھڑا کردیا تھا- رہی سہی کسر افتخار چوہدری کے لگائے ججز ریٹرننگ افسروں نے پوری کردی اور یوں نواز لیگ آر اوز کے مینج کیے گئے انتخابات میں اکثریتی پارٹی بن کر سامنے آگئی –
نواز شریف نے ایک بار پھر غیرمنتخب ہئیت مقتدرہ کے عزائم کو سمجھنے میں سخت ٹھوکر کھائی – وہ اقتدار میں آنے کے بعد ایک بار پھر آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی اور چیف جسٹس کو اپنا ذاتی غلام بنانے کی روش پر چل نکلے – لیکن وہ یہ بھول گئے تھے کہ غیر منتخب ھئیت مقتدرہ نے اُن کو پنجاب اور کے پی کے میں تنگ کرنے کے لیے اُن کے زریعے سے پی پی پی کی جگہ پی ٹی آئی کو جو دلائی تھی وہ اُن کے ساتھ 1997 سے 1999ء تک ہوئے تجربات اور پی پی پی کی روش کو دیکھتے ہوئے بنائی تھی –
نواز شریف اقتدار میں آکر یہ بھی نہ سوچا کہ خود اُن کی جماعت میں چوہدری نثار جیسے لوگوں کی جانب سے پی پی پی کو سندھ زچ کرنے کا انجام کیا ہوگا؟
نواز شریف راحیل شریف کو راضی رکھنے اور اُس کے بعد جنرل قمر باوجوہ کو گھیرنے میں مصروف رہے اور اس دوران ڈی جی ظہیر الاسلام اور پھر جنرل شجاع پاشا نے اُن کی بیڑی میں بھاری پتھر ڈال کر انھیں ڈبونے کا پورا سامان کرلیا تھا –
آصف زرداری کو غیر منتخب ھئیت مقتدرہ نے ایک بار پھر اُس وقت ساتھ مل جانے کی پیشکش کی جب عمران خان – طاہر القادری کا دھرنا جاری تھا اور نواز شریف گھبراکر اقتدار چھوڑنے کو تیار تھے – لیکن آصف زرداری نے ایک بار پھر غیر منتخب ہئیت مقتدرہ کی پیشکش ٹھکرائی اور پارلیمنٹ کو گرنے سے بچالیا- نواز شریف سمجھے کہ خطرہ ٹل گیا اور انھوں نے آصف زرداری کو پھر دھوکہ دیا اور اسٹبلشمنٹ کی بچھائی بساط پر مات کھا گئے – وہ پانامہ کیس کو پارلیمنٹ میں سلجھانے کی پی پی پی کی تجویز ٹھکرا کر عدلیہ کے پاس گئے اور نااہل ہوکر واپس لوٹے – اور پھر 2018ء میں اقتدار اپنے سے کہیں زیادہ بے بصیرت اور نااہل شخص کے سپرد کرنے کی راہ ہموار کرگئے-
نواز شریف آج پھر پی ڈی ایم کو آصف زرداری کی راہ پر چلنے سے روکنے میں لگے ہوئے ہیں – وہ اب بھی اسٹبلشمنٹ کو موقعہ فراہم کررہے ہیں، عدالتی اصلاحات کے ایجنڈے سے بھاگ رہے ہیں – انھیں سسٹم میں واپس آنے کے لیے اب بھی اسٹبلشمنٹ اور عدلیہ کی موجودہ شکل میں کاسمیٹک تبدیلیاں درکار ہیں – پی پی پی آج بھی جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بالادستی کی سیاست کررہی ہے اور اُس کی سیاست کو وہی عناصر اسٹبلشمنٹ نواز سیاست قرار دے رہے ہیں جو کل بھی اسٹبلشمنٹ کو 2008ء میں ہوئی وقتی شکست پیدا ہونے والے دباؤ کو عدلیہ کی آزادی کے نام پر ختم کرنے کی سازش میں ملوث تھے –

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

%d bloggers like this: