دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

طاقت کا نشہ……||رسول بخش رئیس

رسول بخش رئیس سرائیکی وسیب کے ضلع راجن پور کی تحصیل روجھان کے رہنے والے ہیں وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے درس وتدریس کے ساتھ ساتھ ملکی ،علاقائی اور عالمی معاملات پر مختلف اخباروں ،رسائل و جرائد میں لکھ بھی رہے ہیں، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

رسول بخش رئیس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

غرور تو کسی بھی شخص کو اپنی لپیٹ میں لے کر تباہی کی کھائی میں گرا سکتا ہے ۔مگر جب ساتھ دولت اور حکومت کی طاقت بھی ہو تو اس کا غلبہ عقل پر پردوں کی تہیں چڑھا دیتا ہے ۔ موجودہ حکمرانوں کے ذکر سے گریز کرنا چاہوں گا ۔ وہ اپنی سوچ کے مطابق جو کرسکتے ہیں‘ کررہے ہیں ۔ جہاں اور جتنا موقع ملے‘ جبرکے پہاڑ ڈھانے کی کوشش میں ہیں ۔ لیکن اس پر پھر سہی ۔ دنیا کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کہ جب بڑی سلطنتوں والے بھی غرور کے اسیر ہوئے تو ان کا انجام کیا ہوا۔ دو رِ جدید کی دو سپر پاورز‘ سوویت یونین جو ہمیشہ کے لیے اپنا وجود کھو بیٹھا اور امریکہ‘ جس نے طاقت کے نشے میں چور ہوکر افغانستان اور عراق پر جنگیں مسلط کیں لیکن پھرہزیمت اٹھا کر وہاں سے انخلا کرنا پڑا۔ ریاستیں ہمارے جیسی ہوں یا غالب عالمی قوتیں‘ انہیں چلاتے تو گوشت پوست کے انسان ہیں ۔ فرق یہ ہے کہ بڑی طاقتوں کے پاس باصلاحیت افرادی قوت‘ سوچ بچا رکے لیے کئی تھنک ٹینکس اور حکمت عملی تیار کرنے کے لیے بہترین ماہرین ہوتے ہیں ۔ دیگر ممالک کے متعلق اطلاعات جمع رکھنے اور ان کا تجزیہ کرنے کے لیے بے شمار مشینی اور انسانی وسائل میسر ہوتے ہیں ۔ معاشی اور فوجی طاقت کے ساتھ ساتھ جدید ٹیکنالوجی سے تیارکردہ ہر نوع کا مہلک ترین اسلحہ بھی ہو تو افغانستان اور عراق جیسے ممالک کا اُن کے ساتھ کیا مقابلہ؟
جب امریکہ کی قیادت جنگوں کا فیصلہ کررہی تھی تو کوئی ایسی طاقت نہ تھی جو توازن پیدا کرتی یا فوج کشی کے دور رس نتائج کے بارے میں دعوتِ فکر دیتی۔ افغانستان کے خلاف بیس سال تک جنگ لڑی گئی ۔ نیٹو سمیت تمام مغربی ممالک کی فوجیں وہاں اتاری گئیں‘ مگر زیادہ حصہ امریکی فوج نے ڈالا ۔ اقتدار کی جنگ مختلف لسانی اور علاقائی دھڑوں کی رقابت اور طالبان کے غلبے نے علاقائی ممالک میں مداخلت کے لیے اپنے من پسند گروہوں کو کھلی چھوٹ دے دی ۔ امریکی قیادت نے نائن الیون کے بعد طالبان کے حریفوں کو اپنا حلیف بنا لیا اور پھر جو کچھ ہوا‘ وہ تاریخ کا حصہ ہے ۔
افغانستان کی جنگ کے محرکات بھی قابلِ فہم ہیں کیونکہ دہشت گردوں نے امریکہ کے اندر جا کر تباہی مچائی ۔ اس کے بعد ردعمل صرف بیان بازی تک محدود نہیں رہ سکتا تھا ۔ سوویت یونین کے انہدام اور عالمی اشتراکیت کا جنازہ اٹھنے کے بعد امریکہ ہی دنیا کی غالب قوت‘ مغربی تہذیب اور طاقت کا نمائندہ اور عالمی نظام کو اپنے معاشی نظریے اور مفادات کے تحت چلانے کی قدرت رکھتا تھا ۔ طالبان کو اقتدار سے ہٹانے میں تو چند ہفتے لگے‘ مگر ایک نئی ریاست اور قوم سازی کا جنون سر پر سوار ہوا تو مغرب کے ماہرین‘ جاپان اور جرمنی کو بھی دوسری عالمی جنگ میں شکست دینے کے بعد وہاں نیا سیاسی نظام حکومت مرتب کرنے کی نظیر پیش کرنے لگے ۔ یہاں بھی نیا آئین مرتب کیا گیا ۔ نئی حکومت کی حمایت میں عالمی جواز پیدا کرنے کے لیے بون میں اقوام متحدہ کی سرپرستی میں کانفرنس منعقد کرائی گئی اور جمہوریت کا پودا افغانستان کی سیاسی طور پر بنجر زمین میں لگانے کی کوشش میں تین صدارتی انتخابات بھی کرائے گئے ۔ حکومت بنی‘ دنیا بھر کی فوجیں بھی موجود تھیں مگر امن اور سلامتی نصیب نہ ہوسکی ۔ جنگ جاری رہی‘ مزاحمت بڑھتی گئی‘ امریکہ کی حکمت عملی تبدیل ہوتی رہی ۔ افغانوں کا خون اور امریکہ کے اربوں ڈالر پانی ہوتے گئے لیکن امن اور استحکام خواب ہی رہے ۔ اس دوران چار امریکی صدرتبدیل ہوئے ۔ اندازہ ہے کہ ایک کھرب ڈالر سے کہیں زیادہ کا نقصان اٹھایا ۔ امریکہ اور اتحادی فوجوں کا تو جانی نقصان ہزاروں میں تھا مگرلاکھوں کی تعداد میں افغان جاں بحق ہوئے‘ بے گھر ہوئے‘ مگر اُن کے متحرک دستوں نے امریکی افواج کو دم نہ لینے دیا ۔ آخر کارامریکی قیادت کو کہنا پڑا کہ یہ فضول جنگ جلد ختم کرکے فوجوں کو گھر لوٹ جانا چاہیے ۔ طالبان جن کو اقتدار سے محروم کیا تھا‘ ان کے ساتھ ہی مذاکرات کرنے پڑے‘ اور وہ دن بھی آیا جب افغانستان کے صدر اچانک ملک سے فرار ہوگئے‘ فوج تتر بتر ہوگئی اور امریکہ کی افواج اتحادیوں کو افراتفری کے عالم میں نکال کر ملک کو افغانستان کے حوالے کر گئی۔
افغانستان کی ریاست امریکہ کی مداخلت سے پہلے مجاہدین کی سوویت یونین کے خلاف جنگ اور بعد کی داخلی جنگوں نے تباہ کردی تھی ۔ امریکہ نے اس کی تعمیر کی کوشش کی مگر جو بنیاد افغان دھڑوں کے درمیان باہمی سمجھوتا فراہم کرسکتی تھی‘ اس راستے پر نہ وہ خود آئے اور نہ ہی کوئی اور طاقت اُن کو ڈال سکی ۔ اس کے برعکس عراق میں ریاست اور حکومت فعال تھے‘ مگر صدام حسین امریکہ اور کچھ علاقائی ممالک کو کھٹکتے تھے ۔ اُنہیں اپنی قیادت‘ فوج اور تیل کی دولت کا گھمنڈ تھا۔ ایران میں انقلاب آیا تو اس کے خلاف آٹھ سال تک جنگ کی ۔ وہ اس گھناؤنی سازش میں اکیلے شامل نہیں تھے‘ ایران کے سب علاقائی اور عالمی دشمن صدام حسین کی پشت پناہی کررہے تھے ۔ ایران اکیلا تھا مگر انقلاب اور اپنی قومی سلامتی کا دفاع کرنے کے لیے اس نے بہت قربانیاں دیں اور صدام حسین کے عزائم کو خاک میں ملا دیا ۔ غرور میں عقل پر پردہ پڑجائے اور ایسا ہی ہوتا ہے جیسے صدام حسین نے کویت پر حملہ کرکے اس ہڑپ کرنے کا سوچا تھا۔ پھر وہ دن بھی دیکھا جب امریکہ اور عرب ممالک نے ”صحرائی طوفان‘‘ کے نام سے جوابی فوج کشی کی اور کویت کو آزاد کرالیا‘ اورصدام کی فوج کے سربراہ ایک خیمے میں کھسیانی بلی بنے بیٹھے ہتھیار ڈالنے کی دستاویز پر امریکی اور سعودی فوجی قیادت کے سامنے دستخط کررہے تھے۔
خیال تھا کہ اس کے بعد مشرق وسطیٰ میں امن قائم ہوگامگر نائن الیون کے واقعات کے بعد امریکہ کے اندر نئی قدامت پسند تحریک زور پکڑ چکی تھی جو عالمی طور پر امریکہ کا لوہا منوانے پر تلی ہوئی تھی ۔ اس ماہ عراق کے خلاف دوسری جنگ کو بیس سال ہوچکے ہیں تو دنیا میں گفتگواس حوالے سے ہورہی ہے کہ امریکہ کے اس جنگ کے مقاصد کیا تھے‘ اور جو د عوے اس کی قیادت نے کیمیائی اور جوہری ہتھیاروں کے تیاری کے حوالے سے کیے تھے وہ تو غلط نکلے ۔ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ امریکہ اور مغرب کے جاسوس محکمے اتنے نکمے تھے کہ ان کی اطلاعات حقائق کے برعکس تھیں۔ آخر کیا وجہ تھی؟ اس جنگ کے بارے میں کئی تجزیے‘ رسالوں میں مضامین اور کتابیں لکھی جاچکی ہیں ۔ ایک نہیں‘ کئی جواب آپ کو ملیں گے ۔ ایک تو یہ ہے کہ جیسا پہلی عالمی جنگ کے بارے میں ایک صدی گزرنے کے بعد بھی بحث جاری ہے کہ کیوں ہوئی تھی ؟ اسی طرح عراق کے خلاف امریکی جنگ کے بارے میں بھی ہر نوع کی گفتگو ہوتی رہے گی ۔ ہتھیاروں کے حوالے سے سب دعوے جھوٹ ثابت ہوئے۔ صرف صدام حسین ہی ظالم نہ تھا‘ اور بھی تھے‘ اور ہیں ۔ اور اُن کے مقاصد نہ جمہوریت تھے اور نہ ہی آزادی ۔ بلکہ ابھی تک یہ کہیں بھی ہویدا نہیں ہیں ۔ باہمی بداعتمادی‘ دونوں جانب طاقت کا گھمنڈ‘ بات چیت کے دروازے بند‘ تعصبات‘ نفرت اور خطے پر غلبے کی متضاد خواہشوں نے اس جنگ کے شعلے بلند کیے جو ابھی تک نہیں بجھنے پائے ۔ بلکہ کئی اور ممالک ان کی لپیٹ میں آچکے ہیں ۔ ہمارے ہاں ہمیشہ مگر آج کل کہیں زیادہ طاقت کے گھمنڈ کا زہر سرایت کرچکا ہے ۔ ماضی میں ”ہم جو چاہیں کرسکتے ہیں‘‘ کی روایت نے ملک کو پارہ پارہ کردیا ۔ اب تو اس میں نفرت کے زہر کی آمیزش بھی ہے ۔ عقل طویل رخصت پر جا چکی ۔ کبھی اپنی اور دوسروں کی تاریخ سے کچھ سبق سیکھ لیں ۔

یہ بھی پڑھیے:

رسول بخش رئیس کے مزید کالم پڑھیں

About The Author