مئی 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

زبان اب بھی موسموں کے اعتبار سے سوچتی ہے۔۔۔||یاسر جواد

یاسر جواد معروف مصنف و مترجم ہیں ، انکی تحریریں مختلف ادبی مجلوں کے ساتھ ساتھ اشاعتی اداروں میں بھی پبلش ہوتی رہتی ہیں، یاسر جواد کی منتخب تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

یاسر جواد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زبان اب بھی موسموں کے اعتبار سے سوچتی ہے۔ ہم اپنی زندگی اور کاوش کو موسموں کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ انجیر کے پتے جھڑ کر بے گھاس مٹی پر چرمرائے پڑے ہیں، بلبلیں اور طوطے کہیں سرمائی مساکن میں ہوں گے۔ برہنہ ڈالیوں اور شاخوں پر کونپلیں منہ بنا چکی ہیں۔ خزاں اور بہار کے درمیانی مرحلے پر ایسا ہوتا ہے، زندگی میں نہیں۔ موسموں کے اُتار چڑھاؤ، سورج کا نکلنا اور چڑھنا طے شدہ ہے، قانون ہے۔ انسان کی زندگی کے قوانین اور ہیں۔
انسانی زندگی، اور ہم پاکستانیوں کی زندگی کسی قانون کے بغیر چلتی ہے۔ اس کے قواعد شاید باقی ہم جیسے معاشروں سے مختلف ہیں۔ جہاں پشاور والے دھماکے کی طرح درجنوں کی تعداد میں لوگ مرتے ہوں، وہاں کونسی آس پنپ سکتی ہے؟ جہاں آپ کمیٹیاں ڈال کر گاڑی لیں اور ایندھن روزانہ گالیاں دے، وہاں کوئی اُمید ہو سکتی ہے؟
مجھے اِن سوالوں کے جواب معلوم نہیں۔ آپ ایسے سوالوں کے جواب محض اپنی زندگی سے ہی دے سکتے ہیں۔ اپنا کام اور بک بک جاری رکھ کر۔ ڈرنا بھی ووٹ ڈالنے جیسا ہی بے کار ہے۔ خزاں کے بعد بہار آنے جیسی اُمید باندھنا بھی لغو ہے۔ بہار ہمارے لیے نہیں درختوں پر آئے گی۔ معاشرے دائمی خزاں میں بھی سانس لے سکتے ہیں۔
(پس تحریر: زوجہ ماجدہ کو گرے ہوئے سوکھے پتے پسند ہیں، اور مجھے بھی۔ یہ خزاں کی جان ہیں)

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

یاسر جواد کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: