مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس سال ملک میں تبدیلی آئی اور لوگوں نے امید کی کہ اب زندگی بہتر ہوجائے گی، انھیں دنوں اس گھر کے حالات بگڑ گئے۔
ان کے پاس کھانے کو کچھ نہیں رہا۔ ماں کی چھاتیاں خشک ہوگئیں۔ اس نے خاندان کے سربراہ سے کہا کہ وہ صورتحال ٹھیک ہونے تک آرام سے سوجائے۔ وہ گزارہ کرلیں گے چاہے گھر کا سربراہ موجود نہ ہو۔
وہ گھر سے نکلی اور بے مقصد آوارہ گردی کرنے لگی۔ مرد لیٹ کر سوگیا اور چار سال تک سوتا رہا۔ اس کی آنکھ سائرن اور قومی ترانوں سے کھلی۔ اس نے اپنے بچوں سے پوچھا، کیا تمھیں کھانے کو کچھ ملا؟
انھوں نے بتایا کہ وہ اب تک فاقے سے ہیں اور اسے ختم کرنے کے لیے انھیں کچھ نہیں ملا۔ ماں تاریخی سفر سے واپس نہیں آئی تھی۔ ملک اپنے دشمنوں سے حالت جنگ میں تھا۔ بچوں نے امید ظاہر کی کہ جنگ ختم ہوگی تو انھیں کچھ کھانے کو مل سکے گا۔
باپ دوبارہ سونے چلا گیا۔ پانچ سال بعد وہ گلی میں شور سے بیدار ہوا۔ اس نے دیکھا کہ اس کا ایک بچہ غائب تھا۔ جو موجود تھے، انھیں تب تک کھانے کو کچھ نہیں مل سکا تھا۔ ماں کا سفر جاری تھا۔ ملک ایک سنسنی خیز مباحثے میں الجھا ہوا تھا کہ انڈے کو کھانے سے پہلے توڑنے کا بہترین طریقہ کیا ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ انڈے کو دائیں جانب سے توڑا جائے۔ کچھ کا اصرار تھا کہ بائیں طرف سے توڑنا بہتر ہوتا ہے۔ معتدل مزاج لوگوں کی رائے تھی کہ انڈے کو درمیان سے توڑنا چاہیے۔
باپ نے ان دلائل کو سمجھنے کو کوشش کی لیکن اس کا ذہن تھک گیا اور وہ سونے لیٹ گیا۔ اس نے بچوں سے کہا کہ جب انھیں کھانے کو کچھ مل جائے تو اسے اٹھادیں۔ لیکن کسی نے اسے زحمت نہیں دی۔
وہ چھ سال بعد ایک بار پھر سائرن اور جنگی ترانوں سے جاگا۔ اس نے غور کیا کہ اس کا ایک اور بچہ موجود نہیں۔ اسے معلوم ہوا کہ وہ بچہ اس جنگ میں شہید ہوگیا جو ان کی ریاست نے کسی دوردراز دشمن ملک سے چھیڑی تھی۔ باقی حالات ویسے ہی تھے جیسے پہلے تھے۔ ماں دنیا دریافت کرنے کے سفر کی وجہ سے غیر حاضر تھی اور بچے بدستور بھوکے تھے۔ دشمن ان کے ملک کی سرحد تک پہنچ چکے تھے اور ان سے لڑنا ضروری ہوگیا تھا۔ بچے خاموش تھے۔ باپ نے ایک لفظ کہے سنے بغیر صورتحال بھانپ لی۔ وہ پھر سونے چلا گیا۔ باپ کے اعصابی نظام نے بظاہر اتنے ہی سال کے لیے اسے سلایا۔
اس بار وہ چوکنا ہوا تو ایک اور بچہ غائب تھا اور ملک آخری جنگ لڑرہا تھا۔ انھیں معلوم ہوا کہ ماں واپس آرہی ہے۔ بے شک وہ اب بھی بھوکے تھے لیکن خوراک، امید اور ایک نئی زندگی ان کی جانب آرہی تھی۔ انھیں بس ایک اور سال کے لیے صبر کرنا تھا۔
باپ مزید تین سال سونے کے لیے چلا گیا۔ اس بار بھی اس کی آنکھ شور سے کھلی۔ اس نے دیکھا کہ اس کے جو بچے باقی رہ گئے تھے، وہ ایک دوسرے کو بھنبھوڑ رہے تھے۔ جب انھیں احساس ہوا کہ باپ جاگ گیا ہے تو ان کے خون آلود منہ کھلے رہ گئے۔ وہ دہشت زدہ ہوکر بھاگا اور شہر کی مرکزی شاہراہ پر پہنچا۔ یہ وہی سڑک تھی جہاں فوجی پریڈ ہوتی تھی اور جلوس نکلتے تھے۔
اس کی نظر اپنی بیوی پر پڑی جو وہاں موجود تھی لیکن اس کے بدن پر کچھ نہ تھا۔ کئی اجنبی اس کے بدن کے مختلف حصوں کو چھو رہے تھے۔ وہ ایسے ہنس رہی تھی کہ اس نے پہلے کبھی اپنی بیوی کو اس طرح ہنستے نہیں دیکھا تھا۔ لیکن پھر کچھ لوگ اسے کھانے کے لیے اس پر ٹوٹ پڑے۔ اس نے بیوی کو پکارا کہ اسے بچائے۔
بیوی نے جواباً چلاکر کہا کہ ہر شخص دوسرے کو کھا رہا ہے اور تمھیں کھانے کا سب سے زیادہ حق مجھے ہے۔
وہ واحد شخص تھا جس کی تمام ہڈیاں اور گوشت باقی تھا۔ سڑک پر موجود لوگ ایک دوسرے کو ہڑپ کررہے تھے اور کچھ غریب لوگ اپنے آپ کو کھارہے تھے۔
گھر کا سربراہ یہ سب دیکھ کر لرز اٹھا۔ اس نے چاروں طرف نظر دوڑائی کہ کوئی ایسی جگہ ملے جہاں وہ سو سکے۔ لیکن چاروں طرف سے بھوکے ہاتھ آئے اور اسے نوچنے لگے۔ اس کے پاس ان ہاتھوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ وہ ان ہاتھوں کے اوپر سوگیا۔ بھوکے ہاتھوں نے اسے بلند کیا اور اسے لے کر چلے، جیسے مرکزی شاہراہ پر عظیم جلوس جنازہ رواں دواں ہو۔
۔۔۔
مصری ادیب یوسف القعید کا یہ علامتی افسانہ ناکام ریاستوں کے مستقبل کی جھلک ہے۔ میں نے اسے ہنگر فینٹیشیا کے عنوان سے دا اینکر بک آف ماڈرن عربک فکشن نام کی انتھولوجی میں پڑھا۔
اردو ترجمہ: مبشر علی زیدی
All reactions:
633
یہ بھی پڑھیں:
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ