نومبر 5, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کتاب میلے، حقائق اور شکایات۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جس وقت یہ سطور لکھ رہا ہوں لاہور کے ایکسپو سنٹر میں لگنے والا پانچ روزہ کتاب میلہ ختم ہوچکا۔ ابتدائی دو دن ٹھنڈے ٹھار تھے، لوگ کم، حالانکہ پچھلے چند برسوں سے یہ لاہور کا سب سے پررونق پروگرام سمجھا جاتا ہے۔ کتاب دوست سال بھر فاصلوں کی وجہ سے نہ بھی مل پائیں تو ایکسپو سنٹر کے کتاب میلے میں کسی میلے کے بچھڑے بھائیوں کی طرح مل ہی جاتے ہیں۔ مضافات سے بھی علم و کتاب دوست آتے ہیں۔
اس بار لوگ کم تھے۔ ابتدائی دو دنوں میں تو بہت کم اگلے تین دن جمعہ سے اتوار تک قدرے رونق رہی لیکن پچھلے برسوں جیسی نہیں تھی ۔ جن دوستوں سے باضابطہ پروگرام بناکر کتاب میلے میں شرکت کی جاسکتی تھی ماضی میں ہوتی بھی رہی ان میں سے کچھ دوست اب نجی اور روزگار کی مصروفیات کے اسیر ہیں مثلاً سابق فقیر لاہوری ملک قمر عباس اعوان، لاڈلے دانشور نے نہ صرف زیارت کرائی بلکہ ایکسپو سنٹر تک لے بھی گیا۔ خود سے نہ جاسکنے میں مجبوری حائل ہے اور یہ آپ جانتے ہی ہیں۔
اتوار کی دوپہر ہمارے دوست رانا سعید احمد برادرم رانا شرافت علی ناصر کو ہمراہ لئے پہنچے ان کی ہمراہی میں پھر دوبارہ کتاب میلے کی رونق دیکھ لی مزید رونق لیاقت علی ایڈووکیٹ سے جمی محفل نے لگادی ۔
اس روز اور اس سے قبل جمعہ والے دن بہت سارے دوست احباب سے ملاقاتیں ہوگئیں۔ احمد نصراللہ سہیل اپنے ساتھیوں کے ہمراہ یو ایم ٹی کا سٹال سنبھالے روایتی مسکراہٹ سے ملے۔
اس بار بہت سارے اشاعتی اداروں نے ایکسپو سنٹر کتاب میلے میں اپنا سٹال لگانے سے گریز کیا۔ وجہ 70ہزار روپے فی سٹال کرایہ بتائی جارہی ہے۔ کیا یہی ایک وجہ ہے؟ میرے خیال میں کچھ اور وجوہات بھی ہیں
ابھی فروری میں فیض احمد فیض صاحب کے حوالے سے ایک عوامی اور ایک اشرافیائی میلہ کا انعقاد ہوا ۔ فیض عوامی میلہ الحمراء اوپن ایئر میں، یہ ایک دن کا پروگرام تھا۔ اشرافیہ کا فیض میلہ الحمراء میں ایک سے زیادہ دن جاری رہا یہ وہی میلہ ہے جس میں بھارتی ادیب و شاعر اور دانشور جاوید اختر کی تقریر کے بعض مندرجات کو لے کر سوشل میڈیا پر پانی پت کی جنگوں جیسا ’’رن‘‘ پڑا ہوا ہے۔
فروری میں ہی لاہور ہائیکورٹ بار کے زیراہتمام کتابوں کی نمائش لگی تھی۔ ایکسپو سنٹر کتاب میلے سے قبل تین مقامات پر لگنے والے کتابوں کے سٹال یقیناً پرورنق رہے لوگوں نے کتابیں بھی خریدیں۔ دوسری وجہ مہنگائی بھی ہے۔
بعض لوگ فروری میں لاہور کے ڈی ایچ اے میں ایک کافی شاپ کے افتتاح کو لے کر کتاب میلے (ایکسپو سنٹر والے) کی بے رونقی اور کتابوں سے عدم دلچسپی پر پھبتیاں کس رہے ہیں۔ خالص اشرافیہ پڑھتی کتنا ہے۔ وہ تو ظاہر پہ توجہ دیتی ہے یہ سب کو پتہ ہے البتہ باطنی تعلیم ان کے خیال میں وقت کا ضیاع ہے کتاب تو باطنی تعلیم میں معاون بنتی ہے۔
سو پہلی بات یہ ہے کہ ڈی ایچ اے اور لوئر مڈل کلاس کے علاقوں کا موازنہ بنتا ہی نہیں۔ یاد آیا بچپن میں سنا کرتے تھے۔
” ایک غریب کسان مسجد پہنچا نماز کے بعد دست دعا بلند کئے اور بولا، اے میرے کریم مالک جلدی سے برسات کر تاکہ گندم اچھی ہو۔ گندم اچھی ہوگی تو کچھ نفع ہوگا نفع ہوا تو مجھ پر کرم ہوگا اور میں بیٹی کی شادی کرسکوں گا۔ دیکھ مالک بارش میں دیر ہوئی تو گندم کی فصل متاثر ہوگی۔
اس طرح میری بیٹی کی شادی بھی تاخیر کا شکار ہوسکتی ہے۔ مولوی صاحب غریب کسان کی اللہ سائیں سے لاڈ بھری باتیں کافی دیر سنتے رہے پھر بولے، اللہ سے جنت اور انعامات مانگتے ہیں آخرت کی خیر مانگتے ہیں۔ کسان بولا، مولوی صاحب، جس کے پاس جو نہیں ہوتا وہ وہی اللہ سے مانگے گا میں بھی اپنی ضرورت کی چیز ہی مانگ رہا ہوں”۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ڈی ایچ اے والوں کو غیرملکی کافی شاپ کی برانچ کی ضرورت تھی۔ لوئر مڈل اور زبردستی کی مڈل کلاس کو کتابوں کے میلوں کی۔ ڈی ایچ اے والوں کے پاس اللہ اور ریاست کا دیا سب کچھ ہے۔ چٹ کپڑیئے یعنی زبردستی کی مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس نے تو مشقت کرنا ہوتی ہے۔بھرم قرضوں سے رکھنا ہوتا ہے تنخواہ ملتے ہی تین چوتھائی رقم قرضوں، یوٹیلٹی بلز اور دیگر ضروری مدوں پر اٹھ جاتی ہے۔ باقی کی چوتھائی رقم سے پورا مہینہ کھینچنا ہوتا ہے۔
اب چار اور کے حالات کو شعوری طور پر دیکھیں سمجھیں میلہ بندوں سے بھرلینا کمال نہیں دیکھنا یہ ہوگا کہ کتاب میلے میں کتابیں فروخت ہوئیں کہ نہیں۔ ایک وجہ اور بھی بنی یہ فوری اور ہنگامی وجہ تھی۔ ایکسپو سنٹر جوہر ٹائون کی جس سڑک پر ہے اس پر سڑک کی تعمیر نو کے ذمہ دار محکمہ نے عین وقت پر تعمیر نو کا کام شروع کروادیا اصولی طورپر تو ایکسپو سنٹر کی انتظامیہ اور متعلقہ محکمہ میں رابطہ دسمبر جنوری میں کرلیا جانا چاہیے تھا کیونکہ سڑک سال بھر سے خستہ حالی کا شکار تھی۔
سنا ہے کتاب میلے کے پہلے دن جب بیرونی سڑک کو ادھڑے دیکھا تو نہ صرف میلے میں سٹال لگانے والے اشاعتی اداروں کے ذمہ داران چیخ اٹھے بلکہ ایکسپو سنٹر کی انتظامیہ نے جب ایل ڈی اے سے رابطہ کیا تو جواب ملا ’’ہمیں معلوم نہیں تھا کہ یکم سے پانچ مارچ تک ایکسپو سنٹر میں کوئی کتاب میلہ لگ رہا ہے "
یعنی ایل ڈی اے کے حکام میں کتاب دوست تو کوئی ہے نہیں لگتا ہے کوئی روزانہ کا اخبار بھی نہیں پڑھتا۔
بہرحال یہ ایک نیم دلانہ وجہ ضرور ہے پھر بھی اس کی وجہ سے ٹریفک کی روانی سڑک کی تعمیر سے متاثر رہی اس لئے لوگ کچھ کم آئے۔
اصل اور بنیادی وجہ مہنگائی ہی ہے اس جان لیوا مہنگائی کی وجہ سے لوگوں کی قوت خرید دم توڑ چکی ہے۔ چند بک سٹالز پر پچاس فیصد رعایت دی گئی دو تین بڑے ادارے 33اور 40 فیصد رعایت دے رہے تھے۔ اس پر ستم کتابوں کی قیمت ہے۔ مثلاً رف کاغذ پر 224 صفحات کی کتاب 560 روپے کی ہے۔ اچھے کاغذ پر 296 صفحخات کی کتاب 1400 روپے کی۔
پھر بھی بعض سٹالوں پر رونق رہی خریدار بھی تھے اورکچھ پر مصنف بھی موجود تھے کتاب پر دستخط کرنے کے لئے۔ مذہبی اداروں کے سٹال حسب سابق زیادہ تھے۔
فقیر راحموں جیسے لوگ مذہبی کتابوں کے سٹالوں پر چیں بچیں ہوتے ہیں۔ عجیب لوگ ہیں بھئی جو بکتا ہے وہی دستیاب ہوتا ہے۔ پھر مذہبی اداروں کے پاس تو صدقہ زکوٰۃ اور دوسری مدوں کی عطیات کے فنڈز بھی ہوتے ہیں۔ وہ اگر کتاب میلوں میں نصف قیمت پر یا مفتا مفت بھی کتابیں دیں تو انہیں فرق نہیں پڑتا ان کے متاثرین سال بھر انہیں امداد و عطیات دیتے ہیں۔
مہنگائی سے صرف کتابوں کی نمائش میں کتب کی فروخت ہی متاثر نہیں ہوئی، عام بازار بھی ’’بھائیں بھائیں‘‘ کررہے ہیں۔ مہنگائی نے پچاس سال کا ریکارڈ توڑا ہے۔ کتابیں پڑھنے والوں کی اکثریت تنخواہ دار ملازمین کی ہے یا ان کی آل اولاد کی (یعنی طلباتء و طالبات کی)۔ ادھر ہر چیز کو آگ لگی ہوئی ہے۔
کاغذ، طباعت کے جملہ لوازمات، کمپوزنگ سے جلد سازی تک ہر چیز کے نرخ بڑھ گئے ہیں۔ اشاعتی اداروں کے مالکان کی شکایات بھی دوسرے لوگوں جیسی ہیں پھر بھی انہیں کوشش کرنی چاہیے کہ کتابوں کی قیمت مناسب رکھیں۔
مثلاً 296 صفحات کی کتاب 1400روپے میں اور سوا تین سو صفحات کی کتاب 900روپے میں۔ اصولی طور پر تو کتاب میلے میں یہ کتب 7سو اور ساڑھے چار سو روپے میں ملنا چاہئیں تھیں لیکن یہاں بھی اگر 20 اور 33فیصد رعایت دی جائے گی تو پھر فائدہ۔
یہ عرض کرنے میں بھی امر مانع کوئی نہیں کہ کتاب میلوں کے لئے حکومت کے ان محکموں جن کے پاس ایکسپو سنٹر جیسے مقامات ہیں کو جگہ مفت فراہم کرنی چاہیے یا پھر کم از کم صرف بجلی وغیرہ کے چارجز لیں باقی اخراجات میں حکومت سبسڈی دے۔ کتاب میلہ جس جگہ لگ رہا ہوں تعمیروترقی کے شہری ادارے پیشگی اس سے باخبر ہوں تاکہ عین موقع پر توڑپھوڑ شروع کر کے لوگوں کی آمدورفت میں مشکلات نہ پیدا کریں۔
پڑوسی ملک بھارت میں کتابوں کی نمائش کے حوالے سے متعلقہ شہری و صوبائی محکمے اور خصوصاً وزارت تعلیم جو تعاون کرتی ہے اس کا ذکر دانستہ نہیں کررہا کیونکہ بھارت کا حوالے دینے سے یہاں کچھ لوگوں کی مسلمانی اور حب الوطنی بھرشٹ ہوتی ہے۔
ہم مسلمان (فقیر راحموں کہہ رہا ہے کہ اسے شمار نہ کیا جائے) یہ دعویٰ کرتے آئے ہیں کہ اسلام ایک علم دوست مذہب ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ہاں ہی حصول علم کی راہ میں روڑے اٹکائے جاتے ہیں اور تعلیم کاروبار بن چکی۔
آخری بات یہ ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ تدریسی و علمی کتابوں کے لئے کاغذ کی فراہمی ڈیوٹی فری کرے۔ اشاعت میں معاون بننے والی اشیاء پر ٹیکس کم سے کم کرے۔
کتاب میلوں کے انعقاد میں صوبائی و شہری انتظامیہ اور محکمہ تعلیم معاونت کریں۔ خود اشاعتی ادارے بھی پڑھنے والوں پر مہربانی کریں یا پھر لائبریری اور عام ایڈیشن کے لئے الگ الگ کاغذ استعمال کریں۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author