مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اہل سنت اور اہل تشیع دونوں کے ہاں مختلف روایات ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی نے اپنے ہاتھ سے قرآن لکھا تھا۔ سنی کہتے ہیں کہ رسول اللہ کے دنیا سے پردہ کرنے کے بعد حضرت علی نے حضرت ابوبکر کی بیعت میں تاخیر کی۔ اس کی وجہ انھوں نے یہ بیان کی کہ وہ قرآن جمع کررہے ہیں۔ انھوں نے قسم کھائی ہے کہ جب تک قرآن جمع نہیں کرلیں گے تب تک گھر سے نہیں نکلیں گے۔ چنانچہ جب یہ کام مکمل ہوگیا تو انھوں نے بیعت کرلی۔ بعض سنی روایات ہیں کہ انھوں نے بلائے جانے پر بیعت کرلی تھی لیکن بتایا کہ وہ کس کام میں مصروف ہیں۔
اہل تشیع کے مطابق ان کے امام کسی کی بیعت نہیں کرتے۔ ان کے ہاں روایت یہ ہے کہ قرآن جمع کیا جارہا تھا تو حضرت علی اپنا لکھا ہوا یا مرتب کیا ہوا قرآن لے کر آئے جو نزولی ترتیب سے تھا اور اس میں آیات کی شان نزول اور تفسیر بھی تھی۔ خلیفہ وقت نے اسے قبول نہیں کیا تو حضرت علی یہ کہہ کر لے گئے کہ اب اسے میرا وارث لے کر آئے گا۔ وارث سے اہل تشیع کی مراد امام مہدی ہیں۔
یہ میں نے پس منظر بیان کردیا۔ اس سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ حضرت علی کے ہاتھ سے لکھے یا ان کے جمع کیے ہوئے قرآن کی کس قدر اہمیت ہے۔
اس سے آگے کی صورت یہ ہے کہ قرآن کے کم از کم نو مخطوطے دنیا میں ایسے ہیں جو حضرت علی سے منسوب ہیں۔
ایک قرآن صنعا، یمن کی مسجد الشہیدین میں ہے۔
ایک قرآن قاہرہ، مصر کے مشہد الحسینی میں ہے۔
ایک قرآن استنبول، ترکی کے میوزیم آف ٹرکش اینڈ اسلامک آرٹ میں ہے۔
دو قرآن استنبول کے توپ کاپی عجائب گھر میں ہیں۔
ایک قرآن مشہد، ایران کے روضہ امام رضا میں ہے۔
ایک قرآن نجف اشرف، عراق کے مکتبہ امیر المومنین میں ہے۔
ایک قرآن نجف اشرف کے روضہ حیدریہ میں ہے۔
ایک قرآن بغداد، عراق کے قومی عجائب گھر المتحف العراقی میں ہے۔
یہ تمام قرآن دوسری صدی ہجری کے ہیں اس لیے یہ ممکن نہیں کہ انھیں حضرت علی نے لکھا ہو یا اپنی زندگی میں دیکھا بھی ہو۔ لیکن بہرحال یہ تمام قرآن کے قدیم ترین نسخوں میں شامل ہیں اور متن پر تحقیق میں ان کی بہت اہمیت ہے۔
شاید یہ بات راسخ العقیدہ مسلمان مشکل سے ہضم کرسکیں کہ قرآن کے پرانے نسخوں میں الفاظ کا کچھ نہ کچھ اختلاف ملتا ہے۔ چھاپہ خانہ ایجاد ہونے کے بعد سے ہر گھر میں ایک جیسا قرآن پہنچنے لگا ہے۔ جب کاتب قرآن کی کتابت کرتے تھے تو کہیں کہیں حرف اور لفظ بدل جاتے تھے۔
آپ اپنے گھر میں موجود قرآن کھول کر دیکھیں، آپ کو اس میں بھی بعض الفاظ ایک جگہ کچھ لکھے ہوئے نظر آئیں گے اور دوسری جگہ کچھ اور۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول کے زمانے میں کاتبین نے جو غلطیاں کردیں، آج تک انھیں ویسے ہی لکھا جارہا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ خدشہ ہو کہ غلطی کو درست کرنے سے رائج نسخوں میں اختلاف نہ ہوجائے۔
اختلاف تو ہے۔ آپ جانتے ہوں گے کہ ایشیا میں حفص اور افریقا میں ورش قرآن پڑھا جاتا ہے۔ علما کہتے ہیں کہ یہ قرات کا فرق ہے لیکن بہرحال دونوں میں کئی الفاظ مختلف طرح سے لکھے جاتے ہیں۔ سعودی عرب میں شاہ فہد پرنٹنگ پریس دونوں طرح کے نسخے چھاپتا ہے۔
یہاں اک جملہ معترضہ ہے جس پر میرے شیعہ دوست بہت ناراض ہوتے ہیں۔ وہ یہ کہ قرآن میں املا یا کتابت کی غلطیوں سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول امی تھے، یعنی لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے۔ اگر پڑھنا جانتے تو قرآن میں کتابت کی غلطیاں نہ رہ جاتیں۔
میں یہاں قرآن کے مختلف قدیم مخطوطوں میں موجود الفاظ میں اختلاف کے عکس پیش کررہا ہوں جو ترکی کے عالم ڈاکٹر طیار آلتی قولاچ کے تحقیقی مقالے سے لیے گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ