مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امریکا اور یورپ کی لائبریوں میں قرآن کے بے شمار پرانے نسخے موجود ہیں۔ ہمارے ہاں جب یہ بات کی جاتی ہے کہ مغربی ممالک قرآن پر تحقیق کرکے ترقی کرگئے تو اس میں آدھا سچ ہوتا ہے۔ یعنی یہ درست ہے کہ مغربی محققین نے قرآن کے قدیم نسخوں کو سنبھالا اور ان پر تحقیق کی، بلکہ اب بھی کررہے ہیں۔ ہمیں ان کا شکرگزار ہونا چاہیے کیونکہ یہ کام مسلمان نہیں کرسکے۔ لیکن یہ خیال مجھے مضحکہ خیز لگتا ہے کہ انھوں نے قرآن کے متن سے اپنی ترقی کو ممکن بنایا۔ اہل تشیع اس خیال میں قرآن کے ساتھ نہج البلاغہ کو بھی شامل کرلیتے ہیں۔ معاویہ کے نام حضرت علی کے خطوط یا عورت کی مذمت میں اقوال سے مغربی دنیا کون سی ترقی کی راہیں تلاش کرسکتی ہے۔
قرآن کے قدیم نسخوں پر تحقیق صدیوں سے جاری ہے لیکن بیسویں اور اکیسویں میں ایک نیا موڑ آیا جب ان کے زمانے کا بہتر اندازہ لگانا ممکن ہوگیا ہے۔ اس سائنسی طریقے کا نام ریڈیوکاربن ڈیٹنگ ہے۔ میں اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا کہ یہ طریقہ شکاگو یونیورسٹی میں ستر پچھتر سال پہلے شروع ہوا۔ ان دنوں ہمارے آبا و اجداد اسلام کے نام پر نیا وطن بنانے میں مصروف تھے۔
ریڈیوکاربن ڈیٹنگ کا آغاز ہونے سے پہلے بھی یہ بات ہمیں مغربی محققین ہی نے بتائی کہ دنیا کے قدیم نسخوں کے زمانوں کی پہچان کیسے کریں۔ رسول کے زمانے سے پہلی صدی ہجری کے اختتام تک لکھے گئے قرآن حجازی خط میں تھے۔ اس کے بعد کوفی خط میں قرآن لکھے جانے لگے۔ بعد میں نسخ کا رواج ہوگیا۔
مجھے حجازی خط میں لکھے گئے قرآن کے مخطوطوں میں دلچسپی ہے اور میں کافی عرصے سے ان کے اوراق کے عکس تلاش کررہا ہوں۔ ان کی خاص بات یہ ہے کہ ان میں نقطے اور اعراب نہیں ہوتے تھے۔ میں اب تک 9 حجازی مخطوطوں کا سراغ لگاچکا ہوں اور ان کے 90 فیصد صفحات کے عکس میرے پاس ہیں۔ ان سب کی ریڈیوکاربن ڈیٹنگ ابھی نہیں ہوئی لیکن ان کا حجازی خط انھیں باقی نسخوں کے مقابلے میں قدیم ہونے کا یقین دلاتا ہے۔
آپ نے سنا یا پڑھا ہوگا کہ دنیا کا قدیم ترین قرآن برمنگھم یونیورسٹی میں ہے۔ دراصل یہ کسی جانور، غالبا دنبے کی کھال کے دو ٹکڑے ہیں جن کے آگے پیچھے قرآن لکھا گیا ہے۔ یعنی یہ چار صفحات ہوئے۔ 2015 میں ریڈیوکاربن ڈیٹنگ سے معلوم ہوا کہ یہ نسخہ 568 اور 645 صدی عیسوی کے درمیان کا ہے۔ امکان ہے کہ یہ رسول اللہ کے زمانے میں لکھا گیا۔
اس سے آگے کی بات میڈیا میں نہیں بتائی جاتی۔ میں بتادیتا ہوں۔ اس نسخے کے مزید 32 صفحات پیرس میں قائم فرانس کی قومی لائبریری میں موجود ہیں۔
برمنگھم کے قرآن کے ساتھ پیرس کے نسخے کا ذکر میڈیا میں کیوں نہیں آتا؟ اس لیے کہ اس کی ریڈیوکاربن ڈیٹنگ نہیں ہوئی۔ لیکن یہ بات محققین مانتے ہیں کہ یہ ایک ہی نسخے کے الگ الگ صفحات ہیں۔ دونوں لائبریریوں کی ویب سائٹس پر بھی اس بات کا ذکر ہے۔
برمنگھم کے نسخے میں سورہ کہف کی 17 تا 31
سورہ مریم کی 91 تا 98
اور سورہ طہ کی 1 تا 40 آیات ہیں۔ یہ تینوں مکی سورتیں ہیں۔
پیرس کے نسخے میں سورہ یونس کی 35 تا 109
سورہ ہود کی 1 تا 110
سورہ طہ کی 99 تا 135
سورہ انبیا 1 تا 112 یعنی مکمل
سورہ حج کی تین آیات 59 تا 61 ورق پھٹا ہوا ہونے کی وجہ سے موجود نہیں، باقی مکمل ہے
اور سورہ المومنون کی 1 تا 27 آیات موجود ہیں۔
سورہ حج اور المومنون مدنی جبکہ ان سے پہلے والی مکی سورتیں ہیں۔ اگر یہ قرآن رسول اللہ یا ابتدائی خلفا کے دور میں بھی لکھا گیا تو یہ بات بے حد اہم اور معنی خیز ہے کہ اس کی ترتیب موجود دور والی ہی ہے۔
میں نے پی ڈی ایف کی ایک فائل میں برمنگھم اور پیرس کے نسخوں کے تمام 36 صفحات کے عکس جمع کرکے اسے کتب خانے والے گروپ میں شئیر کردیا ہے۔ حجازی خط کے باقی قرآن بھی جلد پیش کروں گا۔
یہ بھی پڑھیں:
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ