اپریل 20, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کشمیر کا سپاہی…۔۔۔||رؤف کلاسرا

مجھ سے کچھ کھایا پیا نہ گیا۔ کیا فرق پڑتا میں پولیس کے کسی افسر کو کہہ دیتا۔انٹرویوایک فارملٹی ہوتا ہے۔اس نوجوان کے چہرے پھیلی اداسی اور ناامیدی دیکھ کر دل ٹوٹ سا گیا۔

رؤف کلاسرا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان میں نیا نیا کیفے کلچر معتارف ہوا ہے۔
پہلے چائے والے کھوکھے ہوتے تھے۔ پھر پتہ چلا ان کا نام ڈھابہ ہے۔ خیر پاکستان میں اب یہ نام عام ہے۔اب نیا کلچر کیفے کا آیا ہے۔ یہ عالمی برانڈز ہیں جنہوں نے کلچر ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔کہاں ہم کھوکھے پر چائے پی کر سمجھتے تھے جیسے کسی فائیو اسٹار ہوٹل سے طعام کر کے نکلے ہوں۔ ہمارے گائوں کے قریب واقع اڈہ حافظ آباد میں چائے کے دو تین کھوکھے تھے جہاں صبح سے شام تک گائوں کے لوگ باہر چارپائیوں پراینڈھتے رہتے، پورے علاقے کی گپیں، میلے ٹھیلے ڈسکس ہوتے، دودھ پتی کے دور چلتے، چائے کو خوب لکڑیوں پر پکایا جاتا اور رنگ نکلتا۔ کوئی زیادہ امیر ہوتا تو چائے کے ساتھ کیک رس بھی منگوا لیتا۔کھوکھے پر اونچی آواز میں عطااللہ عیسی خیلوی، منصور ملنگی یا بھارتی گانے چل رہے ہوتے۔ آج بھی وہ کھوکھے وہاں موجود ہیں اگرچہ اڈے کی شکل بدل گئی ہے۔
اب شہروں میں کیفے کلچر نے نئی تفریح مہیا کر دی ہے۔اب گھر پر مہمانوں یاردوستوں کو چائے پانی پلانے بجائے کیفے پر ہی مل لیا جاتا ہے۔ وہاں آپ کافی،چائے، ملک شیک، برگر یا پزے جو چاہیں کھائیں۔وائی فائی چل رہا ہے، کسی کونے کھدرے میں آرام سے مزے کریں۔
میں بھی دوستوں ساتھ اکثر کیفے پر ہی پایا جاتا ہوں۔پرانی عادت ہے میں ایک ہی جگہ اٹھتا بیٹھتا ہوں۔ لہذا بہت جلد وہاں کام کرنے والے ورکرز سے جان پہچان بن جاتی ہے۔ بلکہ اگر شہر میں کوئی نیا کیفے یا ریسٹورنٹ کھلتا تو ہم دوست روزانہ وہیں پائے جاتے بلکہ اچھا خاصا بزنس انہیں روزانہ دیتے تھے۔ ہماری کوشش ہوتی تھی کہ ان کا کاروبار چلے، نوجوان بچوں کو نوکریاں ملی ہوئی ہیں۔
ارشد شریف اور میں اکثر بھاری بھرکم بل دیتےاور ساتھ میں تگڑی ٹپ۔ارشد شریف کا دل بڑا تھا۔دوستوں کو کھلا پلا اور ان پر خرچ کر کے خوش رہتا۔ اکثر اس کا بٹوہ یا میرا بٹوہ۔ اس کی کوشش ہوتی وہ پہلے بٹوہ نکالے۔ حیران کم طور پر ہماری کوششوں بعد بھی اکثر کیفے یا ریسٹوران کاروبار بند کر جاتے۔ ہم کسی اور پر جا بیٹھتے۔ وہ بے چارے ہمارے لیے رات کو کوئی لڑکا چھوڑ جاتے جو ہمیں دو تین بجے تک چائے پلاتا رہتا۔ ہم پانچ چھ دوستوں کا گروپ روز اکھٹے ہوتا۔
میری بیوی نے ایک دن کہا ارشد بھائی اور تم سب دوست اپنا کیفے کیوں نہیں کھول لیتے جتنا بزنس تم دوسروں کو دیتے ہو۔ میں نے کہا پھر وہ فیلنگ نہیں رہے گی کہ ہم دوست سارا دن کام بعد آوٹنگ کرتے ہیں اور رات کو اکھٹے کھانا کھاتے ہیں۔
خیر ایف سکس سپر مارکیٹ میں ایک نیا کیفے کھلا تو وہیں بیٹھنا شروع کر دیا۔ان جدید کیفے کی خوبی ہے کہ یہ اپنے ورکرز کو اچھی تنخواہ اور سہولتیں دیتے ہیں۔ آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی۔ لہذا اب یہاں پڑھے لکھے نوجوان لڑکے آپ کو کام کرتے نظر آتے ہیں۔ان لڑکوں سے عزت سے بات کرنی شروع کی تو وہ بھی دھیرے دھیرے عزت کرنا شروع ہوگئے۔
کیفے کے نوجوان مالک سے بھی دعا سلام ہوگئی جس نے رائلٹی کارڈ بنا دیا کہ اس کارڈ پر جتنی آپ کافی ادائیگی کر کے پییں گے تو چھ کافی بعد ایک کافی مفت ملے گی۔ ایک کافی مفت پینے کے چکر میں چھ کافی پینی پڑتی۔ دو تین دفعہ اتفاقا بٹوے میں پیسے نہ تھے تو رائلٹی کارڈ کام آگیا اور مفت ایک کپ لے لیا۔
نوجوان لڑکے پہلے اس لیے بھی کام نہیں کرتے تھے کہ ہوٹل پر کام کرنے والے ہر ایک کو “اوئے چھوٹے” کا نک نیم ہم سب نے دیا ہوا ہے۔ اب یہ لڑکے کالج یا یونیورسٹی پڑھتے اور کام یہاں کرتے ہیں۔ اپنی فیسیں اور گھر بھی پیسے بھیجتے ہیں۔
یہ سب پڑھے لکھے خوبصورت نوجوان ہیں۔ایک دن اپنے پوٹھوہاری دوست راجہ لیاقت ساتھ اس کیفے پر موجود تھا تو ایک لڑکا کہنے لگا مجھے آپ کی کتابیں پڑھنے کا شوق ہے۔ وہ اکثر مجھ سے سیاست پر باتیں کرتا تھا۔ راجہ لیاقت نے کہا بیٹا میں تمہیں دے دوں گا۔اگلے دن راجہ لیاقت اسے کتابیں خرید کر دے آیا۔دو تین دن بعد گیا تو دیکھا وہ لڑکا کچھ اداس تھا۔
کہنے لگا جس دن سے آپ نے کتابیں دی ہیں دوسرے لڑکے مجھ سے بات نہیں کرتے۔میں نے کہا یہ کیا بات ہوئی۔ انہیں چائیے تو انہیں بھی دے دیتا ہوں۔
خیر وہاں ایک چھ فٹ سے بھی اونچا لمبا خوبصورت نوجوان بھی تھا۔ ہمیشہ عزت اور احترام سے پیش آنا۔ایک مہذب اور اچھا خاندانی نوجوان۔
پوچھا تو پتہ چلا اس کا تعلق کشمیر کے کسی گائوں سے تھا۔ بی ایس کیا ہوا تھا۔ اکثر حالات حاضرہ پر گفتگو کرتا اور لگتا اسے ایشوز سے دلچسپی ہے اور سمجھدار ہے۔ اکثر لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ ہم صحافی کوئی بھی کام کراسکتے ہیں۔ لہذا لوگ کچھ نہ کچھ کہتے رہتے ہیں کہ فلاں کو کہہ دیں۔ ایک دن کہنے لگا آپ ناراض نہ ہوں تو کام کرا دیں۔ ائرپورٹ پر اے ایس ایف کی جابز آئی ہیں۔ میں نے کہا یارکسی کو انٹرویو میں ہی کہا جاسکتا ہے۔ تحریری اور فزیکل میڈیکل ٹیسٹ تو پاس کرنا ہوتا ہے۔ وہ اعتماد سے بولا سر ٹیسٹ پاس کر لوں گا۔ خیر اس بے چارے نے ٹیسٹ دیے۔پاس کیے۔ انٹرویو سے پہلے ہی مزید کاروائی رک گئی۔
وہ اداس تھا۔
دو تین ماہ پہلے مجھے کہنے لگا سر اسلام آباد پولیس میں کانسٹیبل کی 1600 نوکریاں آئی ہیں۔
میں بولنے لگا تو جلدی سے بولا سر میں آپ کو صرف انٹرویو وقت زحمت دوں گا۔ اگر میں فیزکل ٹیسٹ،میڈیکل ٹیسٹ اور تحریری امتحان پاس کر گیا تو پھر۔۔
پھر اسلام آباد میں پچیس ہزار نوجوانوں میں سے اس نے ریس پاس کی، فزیکل ٹیسٹ پاس کیا۔ میں شام کو گیا تو خوشی سے بتایا۔ پھرتحریری ٹیسٹ تھا۔وہ پاس کیا۔ میڈیکل پاس کیا۔مجھے پھر خوشی سے بتایا. انٹرویو دینے سے ایک دن پہلے بتایا۔
میں نے نوجوان کو غور سے اوپر سے نیچے تک دیکھا اور سوچا اگر میں ڈی جی آئی پولیس انٹرویو لے رہا ہوں تو کیا ایسے چھ فٹ کے دراز قد سمارٹ، خوبصورت، سمجھدار نوجوان کو نہیں رکھوں گا جس نے سب کچھ پاس کر لیا ہے؟
اس نوجوان کو کسی سفارش کی ضرورت نہیں۔ یہ خود ہی ہو جائے گا۔
یہ سوچ کر اسے میں نے تسلی دی فکر نہ کرو ہو جائے گا۔
میرے سب اندازے غلط نکلے۔
چند دن بعد میں گیا تو اس کا منہ اترا ہوا تھا۔ کہنے لگا سر جی میرانام فائنل لسٹ میں نہیں آیا۔ دیکھیں میں نے سب کچھ کلئر کیا۔
اس نے مروتا مجھے شکایت بھی نہیں کی کہ سرجی آپ نے کام نہیں کیا۔ اس کا خیال تھا میں نے سفارش کی ہو گی لیکن پولیس افسر نے کام نہیں کیا ہوگا۔
مجھے اچانک اپنا آپ مجرم لگا۔ وہ بے چارہ میری امیدوں پر رہا کہ انٹرویو میں پاس کرا دوں گا لہذا اس نے ڈٹ کر محنت کی۔ جب کہ میرا یقین تھا وہ بچہ میرٹ پر خود بخود ہو جائے گا۔
میرا دوست خاور اظہر بھی میرے ساتھ تھا۔
مجھ سے کچھ کھایا پیا نہ گیا۔ کیا فرق پڑتا میں پولیس کے کسی افسر کو کہہ دیتا۔انٹرویوایک فارملٹی ہوتا ہے۔اس نوجوان کے چہرے پھیلی اداسی اور ناامیدی دیکھ کر دل ٹوٹ سا گیا۔
میں نے اس وقت اسلام آباد پولیس کے ایک بڑے افسر کو فون کیا کہ اگر اس پڑھے لکھے مہذب نوجوان جیسے لڑکے بھی پولیس کانسٹیبل بننے کے لائق نہیں تو کون ہوگا۔ وہ افسر صاحب بولے پہلے بتاتے۔ خیر میں دیکھتا ہوں۔ایک ماہ گزرنے کو ہے اس بڑے افسر نے بھی کچھ نہیں کیا۔
ایک دفعہ کسی جاننے والا کا کام تھا۔ اسے ایک جگہ انڑنشپ چائیے تھی۔ میں نے پورا زور لگایا،کچھ دوستوں نے بھی کوشش کی۔ کام نہیں ہوا۔ مجھے شدید مایوس دیکھ کر ایک دوست نے کہا دیکھو ہم سب نے کوشش کی لیکن اس کی قسمت میں نہ تھا۔ اب تم خدا نہ بنا کرو۔ کچھ کام خدا پر چھوڑ دو۔ تم کوشش ہی کرسکتے ہو۔
لیکن ایک ماہ گزرنےبعد بھی افسوس اور دکھ کم نہیں ہورہا کہ اپنے اس کشمیری نوجوان کے لیے میں نے کوشش بھی تو نہیں کی تھی کیونکہ مجھے یقین تھا بھلا انٹرویو کرنے والا پولیس افسران کا پینل اس پڑھےلکھے، سمارٹ اور چھ فٹ دراز قد نوجوان کو کیسے نظر انداز کرے گا جو سب پراسس پورا کرکے اب صرف دو منٹ کا رسما انٹرویو دینے آیا تھا؟

یہ بھی پڑھیے:

ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا

کپتان کا شکوہ ۔۔۔رؤف کلاسرا

آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا

پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا

ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا

رؤف کلاسرا کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: