دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اب جگر تھام کے بیٹھیں۔۔۔||مبشرعلی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں 2013 میں حج پر گیا تھا۔ شاید آپ کو حیرت ہو کہ میں اس سے پہلے پاکستانی فری تھنکرز کا رکن بن چکا تھا۔ جیونیوز کے ایک اینکر نے مجھے اس فیس بک گروپ کے بارے میں بتایا تھا۔کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ 2018 میں امریکا آنے کے بعد میرے خیالات میں تبدیلی آئی یا میں نے ان کا اظہار شروع کیا۔ جیونیوز کے کئی دوست میرے حج کرنے سے پہلے جانتے تھے کہ میں اگناسٹک ہوں۔ تبھی تو مجھے فری تھنکرز گروپ کے بارے میں بتایا گیا۔
اس گروپ کو علامہ ایاز نظامی کی وجہ سے زیادہ شہرت ملی۔ ان کے بارے میں سنا ہے کہ وہ بنوری ٹاون مدرسے کے فارغ التحصیل تھے اور وہیں پڑھاتے بھی رہے۔ پھر بقول شخصے دماغ الٹ گیا۔ یا پتا نہیں، سیدھا ہوگیا۔ بہرحال مجھے اس گروپ میں سوائے غلام رسول اور حاجی مست علی کے، کسی کی تحریر کبھی پسند نہیں آئی۔ یہ دونوں افراد تضحیک کرنے کے بجائے مدعا بیان کرتے تھے۔ اس گروپ کا برسوں سے رکن ہونے کے باوجود چند ماہ پہلے نئے پرانے ارکان نے مجھ پر زبانی حملے کیے اور بحث مباحثہ ہوا۔ وہ وہیں ٹائم لائن پر پڑا ہوگا۔ میں یہی سمجھانے کی کوشش کرتا رہا کہ آپ علم اور دلیل سے دوسروں کو قائل کرسکتے ہیں، تضحیک اور بدزبانی سے صرف دشمن بناتے ہیں۔ لیکن یہ بات کسی کی سمجھ میں نہیں آئی۔ ایک ایڈمن کامران لاشاری البتہ معقول آدمی ہیں۔
خالد تھتھال صاحب فری تھنکرز گروپ کے بانیوں میں شامل ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہی غلام رسول ہیں۔ اگر وہ ہیں، تب بھی اور نہیں ہیں، تو بھی میں ان کا پرستار ہوں۔ محرم میں ان سے ایک جھڑپ ہوئی تھی۔ اس کا مجھے بھی افسوس تھا اور انھیں بھی۔ لیکن ابتدا ان کی جانب سے ہوئی۔ میں نے انھیں ان فرینڈ کردیا۔ کچھ عرصے بعد انھیں احساس ہوگیا۔ جیسے ہی مجھے علم ہوا، میں نے دوبارہ فرینڈ ریکوئسٹ بھیج دی۔ انھوں نے معذرت والی پوسٹ کی تو میں نے زور دیا کہ اسے ڈیلیٹ کریں۔
میں نے اپنا کتابوں کا گروپ بنایا تو اس میں تھتھال صاحب کی کتاب پوسٹ کی۔ مناقشے کے باوجود وہ میں نے گروپ سے نہیں ہٹائی۔ ان کی مدح میں جو الفاظ کہے، انھیں بھی نہیں مٹایا۔ ہمارے ہاں عالم دین ہوتا ہے، جسے بس ایک مسلک کا علم ہوتا ہے۔ تھتھال صاحب عالم ادیان ہیں۔ دینیات کے عالم ہیں۔
فری تھنکرز گروپ میں ایک صاحب ہوا کرتے تھے سید امجد حسین۔ انھوں نے بہت کچھ لکھا اور اس لکھے ہوئے کو جمع کرکے پی ڈی ایف کتابوں کی صورت میں بھی شئیر کیا۔ ان کی ایک کتاب کا نام واقعہ کربلا چور مچائے شور ہے۔ میں کربلا کی تاریخ کے درجنوں ورژن پڑھ چکا ہوں۔ شیعہ خاندان سے تعلق کی وجہ سے بچپن سے مجالس بھی سن رہا ہوں۔ شیعہ علما سے کافی گفتگو رہی ہے۔ ایران عراق شام جاچکا ہوں۔ میں آپ کو بالکل درست بتاسکتا ہوں کہ شیعہ کیا مانتے ہیں اور کیا نہیں۔ کون سی کتاب کو مستند سمجھتے ہیں اور کون سی کو نہیں۔ ابو مخنف کی ایک کتاب مقتل الحسین مشہور ہے۔ وہ کتاب مفقود ہوچکی ہے۔ اس کی کچھ روایات طبری میں نقل ہوئی ہیں اور بس تھوڑا سا مال بچا ہے۔ ابو مخنف کے نام سے جو کتاب آج ملتی ہے، وہ جعلی ہے۔ امجد حسین نے اس کتاب کو اٹھایا اور جو سمجھ میں آیا، لکھ مارا۔ تحقیق کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ جب آپ کسی فریق کو ہدف بناتے ہیں تو اسی کی کتابوں سے حوالے دیتے ہیں۔ امجد حسین نہج البلاغہ کی اس شرح سے نکات نکال کر تنقید کرتے ہیں جو سنی عالم نے لکھی۔ یعنی شیعوں کے لیے حجت نہیں۔
یہ میں نے ایک کتاب کا ذکر کیا۔ امجد حسین نے اپنی مرضی سے موٹی موٹی کتابوں کے نام نقل کیے اور جو روایات پسند آئیں، اٹھاکر انٹ شنٹ اسلام کے خلاف لکھا۔ بہت کچھ لکھا۔ میں فری تھنکرز گروپ کا دس سال سے رکن ہوں۔ انتہائی ایمان داری سے عرض کرتا ہوں کہ پانچ ہزار ارکان میں سے پچیس بھی ایسے نہیں ہوں گے جو اصل سورس کی کتاب پڑھتے ہوں یا دلیل سے کام لیتے ہوں۔ اس گروپ میں سوائے مضحکہ اڑانے اور اسلام کے خلاف ہر جھوٹی سچی بات پر خوش ہونے کے کچھ نہیں کیا جاتا۔ چنانچہ سید امجد حسین ہیرو بن گئے۔ انھوں نے اپنا ایک الگ فیس بک پیج بنایا جو اب بھی موجود ہے۔
امجد حسین کی کمزور تحقیق اور غلط حوالوں سے زیادہ بڑا مسئلہ ان کی گھٹیا زبان تھی۔ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اگر کسی شخص کے پاس علم ہے تو وہ خراب زبان کیوں استعمال کرے گا۔ خالد تھتھال ایک مثال ہیں۔ کامران لاشاری کی مثال بھی دی جاسکتی ہے۔
چند سال پہلے فری تھنکرز گروپ میں یہ افسوس ناک اطلاع دی گئی کہ سید امجد حسین کی بینائی جارہی ہے اور ان کے علاج کے لیے پیسہ چاہیے۔ کافی رقم جمع ہوئی۔ تھتھال صاحب نے میرے ایک کمنٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے بتایا کہ انھوں نے خود بھی امجد حسین کو پانچ سو پاونڈ بھیجے اور کئی دوستوں سے پانچ پانچ سو پاونڈ دلوائے۔ ڈھائی تین ہزار پاونڈ اچھی خاصی رقم بن جاتی ہے۔
اب جگر تھام کے بیٹھیں۔ یہاں کہانی میں ٹوئسٹ آرہا ہے۔
سید امجد حسین کا تعلق ہندوستان کے شہر جمشید پور سے ہے۔ اب کئی سال سے بمبئی میں رہتے ہیں۔ سرکاری کاغذات میں اصل نام سید امجد حسین ہی ہے۔ لیکن اردو کے ادبی حلقوں میں وہ اشعر نجمی کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔
اگر کوئی فری تھنکرز گروپ میں امجد حسین اور اشعر نجمی کی پروفائل دونوں کا فرانزک کرائے تو انکشف ہوگا کہ دونوں حضرات ایک وقت میں آنکھوں کی تکلیف کا شکار ہوئے۔ دونوں مقامات پر چندے کی اپیلیں ہوئیں۔ امجد حسین ڈھائی تین ہزار پاونڈ لے کر انتقال کرگئے۔ اشعر نجمی موتیے کے معمولی آپریشن کے بعد صحت یاب ہوکر تین ناول لکھ چکے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے ناولوں اور جریدے اثبات میں چوری کا مال پکڑا جاچکا ہے۔ آنکھوں کی تکلیف والے ادیب کو تھوڑے بہت سرقے کی اجازت تو ہونی چاہیے۔
نجمی صاحب جب میرا ذکر کرتے ہیں، امریکا کا ٹیکسی ڈرائیور کہہ کر مذاق اڑاتے ہیں۔ ہندوستان پاکستان میں کسی کو معلوم نہیں تھا کہ میں کیا مزدوری کرتا ہوں۔ میں نے خود یہ بات فیس بک پر لکھی۔ اس میں شرم کی کیا بات ہے۔ محنت کرتا ہوں۔ دوسری بات وہ لکھتے ہیں کہ ٹیکسی ڈرائیور کے اعضائے مخصوصہ سے تسبیح کی طرح خون نکلتا ہے۔ تسبیح کے ذکر پر آپ کو امجد حسین یاد آیا؟ کربلا سے نفرت اسی طرح نکلتی ہے۔
ڈاکٹر گریم میرے دوست ہیں۔ یہاں ورجینیا میں سائیکیٹرسٹ یعنی ماہر نفسیات ہیں۔ میں نے انھیں بتایا کہ ایک صاحب ہر بات میں جنسی اعضا سے خون آنے کی بات کرتے ہیں۔ کوئی بھی ذکر ہو، یہی بات ان کے منہ سے نکل جاتی ہے۔ کیا کوئی نفسیاتی مسئلہ ہوسکتا ہے؟ ڈاکٹر گریم نے کہا، یہ فقط نفسیاتی معاملہ نہیں ہوگا۔ ان صاحب کے ساتھ ضرور کسی نے بچپن میں ٹافی دلانے کے بہانے عین غین کیا ہے۔ انھیں بہت تکلیف ہوئی ہوگی اور خون نکلا ہوگا۔ وہ اس کیفیت سے نکل نہیں پائے۔ ایسی آدمی کی حالت قابل رحم ہوتی ہے۔ اس کا علاج سائیکیٹرسٹ نہیں، سائیکلولوجسٹ سے کروانا پڑے گا۔
میں نے خالد تھتھال صاحب سے رابطہ کیا تاکہ انھیں مشورہ دوں کہ اپنے دوست کو کسی اچھے ڈاکٹر سے ملنے اور علاج کروانے پر راضی کریں۔ لیکن انھوں نے یہ بتاکر مجھے حیران کردیا کہ ان سے ہزاروں پاونڈ اینٹھنے والے شخص نے انھیں، یعنی اپنے محسن کو ان فرینڈ کردیا ہے۔
ابو مخنف کا قول ہے، جو مشکل وقت میں کام آئے ہوئے دوست کا نہیں، وہ اپنے باپ کا نہیں۔
یہ بھی پڑھیں:

مبشرعلی زیدی کے مزید کالم پڑھیں

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

About The Author