مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وجاہت بھائی سے چند مختصر ملاقاتوں میں مجھے ان کی کئی خامیاں معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ وہ اپنی عمر سے بیس سال بڑے معلوم ہوتے ہیں۔ یہ کمال مجھے بھی حاصل ہے لیکن اس کی وجہ میرے بال ہیں جو میٹرک ہی سے رنگ بدلنا شروع ہوگئے تھے۔ لیکن وجاہت بھائی کے ساتھ ایسا قدرت نے نہیں کیا۔ انھوں نے کافی محنت اور کوششوں سے خود کو بزرگ بنایا ہوا ہے۔ دوسری عارضہ جو انھیں لاحق ہے وہ بے خوابی کا ہے۔ ملک کا درد ہم سب کو ہے لیکن وجاہت بھائی اس پریشانی میں سو نہیں پاتے۔ تیسرا عیب انھیں خوش اخلاقی والا ہے۔ ویسے اس کا درجہ پہلا ہونا چاہیے۔ یہ ایسی مٹی کے بنے ہیں کہ انھیں کبھی غصہ نہیں آتا۔ رائے کے شدید تر اختلاف پر بھی نہیں۔ اپنی تحریر اور خیالات پر کڑی تنقید پر بھی نہیں۔ خود کو مسترد کیے جانے پر بھی نہیں۔ اس طرح کے دوسرے آدمی میں نے سہیل وڑائچ دیکھے ہیں۔ وجاہت بھائی کے چوتھے مسئلے میں بھی سہیل صاحب شریک ہیں۔ یعنی دونوں وسیع المطالعہ ہیں۔
وجاہت مسعود، سہیل وڑائچ، ڈاکٹر آصف فرخی مرحوم، اجمل کمال، حمید شاہد، مستنصر حسین تارڑ، زاہد ڈار مرحوم، روف کلاسرا، یاسر پیرزادہ اور سید کاشف رضا، ان دس بندوں نے جتنی کتابیں پڑھ رکھی ہیں، اتنی باقی چوبیس کروڑ ننانوے لاکھ ننانوے ہزار نو سو پچاسی افراد نے نہیں پڑھی ہوں گی۔ میں نے پانچ افراد کی گنجائش چھوڑ دی ہے تاکہ جن دوستوں کو اپنا نام نہ دیکھ کر مایوسی ہو، وہ خالی جگہ میں خود کو فرض کرسکیں۔
وجاہت بھائی میں چوتھا نقص یہ ہے کہ وہ بری اردو نہیں لکھ سکتے۔ اخباری کالم اور ویب سائٹی تحریر بھی ایسے لکھتے ہیں جیسے حلقہ ارباب ذوق میں ادبی تنقید کے لیے پیش کرنا ہو۔ ان کے قلم سے نکلنے والے الفاظ قرطاس پر ظہور کے بعد جھک جھک کر انھیں سلام کرتے ہیں۔
پانچویں کمزوری ان کی یہ ہے کہ جونئیر اور کم عمر لکھنے والوں کی اس قدر جھوٹی تعریف کرتے ہیں کہ وہ خود کو ساتویں آسمان پر محسوس کرتے ہیں۔ میں خود بڑی مشکل سے ٹکریں ٹھوکریں کھاکر واپس نیچے آیا ہوں۔
وجاہت بھائی نے جب ویب سائٹ ہم سب شروع کی تو اس پر نوجوان لکھنے والوں نے یلغار کردی۔ نئی نئی تحریریں دیکھ کر انھیں احساس ہوا ہوگا کہ یہ لونڈھار مطالعے کے بغیر قلم چلارہی ہے۔ چنانچہ انھوں نے 2016 میں ایک مضمون لکھا جس کا عنوان تھا، نوجوان لکھنے والوں کو کیا پڑھنا چاہیے۔ یہ مضمون بعد میں ایک دو بار ری پروڈیوس بھی کیا گیا۔ اس میں 81 نان فکشن کتابوں کی فہرست تھی جن میں متعدد کلاسکس شامل ہیں اور بعض کتابیں غیر معروف ہیں۔
میں کافی عرصے سے کوشش کررہا تھا کہ اس فہرست کی تمام کتابوں کو تلاش اور جمع کرلوں لیکن ناکام رہا۔ شاید وجاہت بھائی نے سب نام یادداشت کے سہارے لکھے ہیں کیونکہ فہرست میں کئی نام غلط یا ادھورے تھے۔ مثلا عاشق حسین بٹالوی کی کتاب کا نام چند یادیں چند تاثرات ہے جو وجاہت بھائی نے یادیں اور تاثرات لکھا۔ امجد حسین کی کتاب کا عنوان میرا گریبان ہے لیکن وجاہت بھائی نے اپنا گریبان درج کیا۔ ملا واحدی کی کتاب کا نام میرے زمانے کی دلی ہے لیکن وجاہت بھائی نے اسے دلی جو ایک شہر تھا بتایا، جو شاہد احمد دہلوی کی کتاب کا عنوان ہے۔
میں نے گوگل ڈرائیو کے فولڈر میں 57 کتابیں جمع کرکے لنک کتب خانے والے گروپ میں شئیر کردیا ہے۔ ان میں سے ایک کتاب کی دو اور ایک کتاب کی چار جلدیں ہیں اس لیے فائلوں کی تعداد آپ کو 61 ملے گی۔ ان میں 24 کتابیں کم ہیں جن میں سے چند میرے پاس نہیں اور باقی کی پی ڈی ایف ابھی نہیں بناسکا۔ جب بناسکوں گا تو اسی فولڈر میں شامل کرلوں گا۔
۔
یہ بھی پڑھیں:
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ