مئی 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کسی بلوچ کے مرنے پر بولا جا سکتا ہے؟|| راناابرارخالد

رانا ابرار سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے سینئیر صحافی ہیں ، وہ گزشتہ کئی برس سے وفاقی دارالحکومت اسلام آبادمیں مقیم ہیں اور مختلف اشاعتی اداروں سے وابستہ رہے ہیں، اکانومی کی بیٹ کور کرتے ہیں، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

رانا ابرار خالد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

”رب کی قسم ہے، قرآن بادشاہ گواہ ہے، سردار عبدالرحمان نے ہمیں قید کر رکھا ہے، میرے بیٹوں کو بھی قید کر رکھا ہے۔ ہمیں آزاد کرو، ہمیں آزاد کرو“ ۔ یہ الفاظ اس بدقسمت ماں کے ہیں جو اپنے دو نوجوان بیٹوں سمیت ریاست کے سٹریٹیجک مفادات کی بھینٹ چڑھ گئی۔ کیونکہ انہیں قید میں قتل کرنے والا ریاست کا ایک سٹریٹیجک اثاثہ ہے۔

دیکھا جائے تو گراں ناز بی بی بھی آزادی مانگ رہی تھی، دیگر علٰیحدگی پسند بلوچوں کی طرح نہ سہی لیکن مانگ تو آزادی رہی تھی، وہ بھی قرآن مجید ہاتھوں میں اٹھا کے۔ یہ الگ بات کہ وہ پاکستان سے نہیں بلکہ ایک سرکاری سردار سے آزادی مانگ رہی تھی۔ گراں ناز بی بی کی وڈیو آٹھ فروری 2023 کو منظرعام پر آئی تھی، وہ دہائی دے رہی ہیں کہ سردار عبدالرحمان کھیتران نے اس کو سات بچوں سمیت قید کر رکھا ہے لیکن نہ تو قومی میڈیا پر یہ خبر چل پائی اور نہ ہی انسانی حقوق کے علمبرداروں تک اس کی بات پہنچ سکی۔

شاید اس لیے کہ وہ بلوچ تھی اور وہ بھی مری بلوچ۔ جو برطانوی عہد سے غدار اور باغی کہلاتے آرہے ہیں، وہ ریاست کے لئے کل بھی ناقابل اعتبار تھے، شاید آج بھی ریاست کی نظروں میں ناقابل اعتبار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صرف ریاست پاکستان ہی نہیں بلکہ میڈیا پرسن اور انٹیلیجنسیا بھی بلوچوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو سنجیدہ مسئلہ نہیں سمجھتی۔

جعفر آباد، بلوچستان سے تعلق رکھنے والے دوست اور سینئر صحافی جاوید دھرپالی نے بتایا ہے کہ خان محمد مری کا اصل نام محمد اسمٰعیل ہے جو 2012 / 13 میں خاندانی دشمنی کی وجہ سے مع اہل و عیال بلوچستان کے ضلع کولہو سے سردار عبدالرحمان کھیتران کے پاس بارکھان آیا تھا اور پناہ لی، یہاں اس نے اپنا نام خان محمد بتایا اور اسی نام سے مشہور ہو گیا۔ مبینہ طور پر سردار عبدالرحمان کھیتران، خان محمد مری کے ہاتھوں لوگوں کو اغوا اور قتل کرواتا تھا، جبکہ 2013 میں نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر عبدالمالک وزیراعلیٰ بلوچستان بنے تو سردار عبدالرحمان کھیتران صوبائی اسمبلی کا الیکشن جیت کر اپوزیشن میں تھے، ضلع بارکھان میں چیک پوسٹ پر ان کی پولیس اہلکاروں سے تلخ کلامی ہو گئی اور سردار عبدالرحمان کھیتران نے پولیس اہلکاروں پر تشدد کرنے بعد اپنی گاڑی میں ڈال کر ڈیرے پر لے گئے اور حبس بے جا میں رکھا۔ جس پر ایس پی بارکھان نے پولیس فورس کے ہمراہ سردار عبدالرحمان کھیتران کے ڈیرے پر ریڈ کیا تو پولیس اہلکاروں کے علاوہ وہاں سے دو مغوی بھی برآمد ہوئے، ایک کا نام رحمٰن کھیتران اور اس کا تعلق رکنی سے تھا جبکہ دوسرے مغوی کا تعلق ڈیرہ غازیخان سے تھا۔

اس سے پہلے کے مغویان عدالت میں بیان دیتے، سردار عبدالرحمان کھیتران نے خان محمد مری کو بھجوا کر دونوں (مغویوں ) کو قتل کروا دیا۔ نتیجتاً بارکھان پولیس نے قتل کے الزام میں خان محمد مری کو نہ صرف یہ کہ گرفتار کر لیا بلکہ مقدمے کی تفتیش کرائم برانچ کوئٹہ شفٹ ہو گئی۔ ذرائع سے حاصل شدہ معلومات کے مطابق خان محمد مری نے کرائم برانچ کوئٹہ میں سردار عبدالرحمان کھیتران کے کچھ رازوں سے پردہ اٹھایا تھا جبکہ کچھ عرصے بعد وہ رہا ہو کر کراچی چلا گیا، ادھر سردار عبدالرحمان یہی سمجھ رہے تھے کہ خان محمد مری ان کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن گیا ہے۔

اس دوران سردار عبدالرحمان کھیتران نے متعدد مرتبہ پیغام بھجوا کر خان محمد مری کو اپنے پاس بلانا چاہا مگر وہ بارکھان آنے کے لئے راضی نہ ہوا، جس پر سردار عبدالرحمان نے خان محمد مری کی بیوی گراں ناز بی بی، دو بیٹیوں اور پانچ بیٹوں کو اپنے پاس پابند کر لیا۔ اس دوران خان محمد مری نے سوشل میڈیا پر پیغامات اپ لوڈ کیے کہ سردار عبدالرحمان کھیتران نے اس کے بیوی بچوں کو قید کر رکھا ہے۔ جبکہ گزشتہ دنوں خان محمد کی بیوی گراں ناز بی بی (مقتولہ) کا ویڈیو پیغام سردار عبدالرحمان کھیتران کے بڑے بیٹے انعام نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیا تھا۔ نیر انعام نے اپنے ٹویٹر ہینڈل پر کچھ تصاویر بھی شیئر کی ہیں، جن میں صاف دکھائی دے رہا ہے کہ خان محمد مری کی بیوی اور بچے سردار عبدالرحمان کھیتران کے ڈیرے پر موجود ہیں اور نوکر بنے ہوئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق خان محمد مری کی ایک بیٹی بالغ ہے اور وہ بھی سردار عبدالرحمن کھیتران کی تحویل میں ہے۔

نیشنل پارٹی کے بارکھان سے صوبائی اسمبلی کے امیدوار میر کریم کھیتران نے بھی ٹیلیفونک گفتگو کے دوران اس بات کی تصدیق کی ہے کہ خان محمد مری کی جواں سال بیٹی سردار عبدالرحمان کھیتران کی کسٹڈی میں ہے اور انہوں نے اس کے ساتھ جنسی تشدد کا بھی خدشہ ظاہر کیا۔ انہوں نے کہا ہے کہ اس میں شبہ نہیں کہ خان محمد مری ایک جرائم پیشہ شخص ہے اور وہ سردار عبدالرحمان کے لئے اغوا و قتل جیسے گھناؤنے جرائم کرتا رہا ہے۔ تاہم میر کریم کھیتران نے دعویٰ کیا کہ سردار عبدالرحمان کھیتران نے خان محمد مری کو جب انہیں قتل کرنے کا حکم دیا تو اس نے انکار کر دیا تھا، جس پر سردار عبدالرحمان نے اس کے بیوی بچوں کو قید کر لیا تھا۔ میں نے اس حوالے سے سردار عبدالرحمان کا موقف جاننے کی کافی کوشش کی لیکن ان سے بات نہیں ہو پائی۔

اس میں شبہ نہیں کہ سردار عبدالرحمان کھیتران ہماری سٹیبلشمنٹ کا قیمتی اثاثہ ہیں، لہٰذا چیک پوسٹ پر وہ نہ صرف پولیس اہلکاروں کو مارپیٹ کر سکتے ہیں بلکہ اسلحہ سمیت اغوا کر کے انہیں اپنے ڈیرے پر حبس بے جا میں رکھ سکتے ہیں، ان کے ڈیرے سے پولیس مغویوں کو برآمد کرتی ہے، وہ اپنے خاص آدمیوں کے ذریعے برآمد ہونے والے مغویوں کو بعد میں قتل کروا دیتے ہیں مگر قانون ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ نیب کو سردار عبدالرحمان کی اربوں روپے کی کرپشن کے ثبوت ملتے ہیں مگر ان کو سزا نہیں ہوتی بلکہ ایک مرتبہ پھر وزیر بن جاتے ہیں۔ بلوچستان میں ایسے کئی سرکاری سردار موجود ہیں جن کو ووٹ ملے نہ ملے مگر الیکشن جیت جاتے ہیں، عدالتیں بھی ان کے لئے سٹے آرڈر جاری کرنے میں ہچکچاہٹ نہیں رکھتیں بلکہ وہ سٹے آرڈر پر ہی چار سال تک ایم این اے یا ایم پی اے رہتے ہیں۔ کیونکہ وہ سٹیبلشمنٹ کے سٹریٹیجک اثاثے ہیں۔

بلاشبہ سٹریٹیجک اثاثے ہر ملک کی سٹیبلشمنٹ کے لئے بیش قیمت ہوتے ہیں، کیونکہ وہ جب اپنے لوگوں کی رائے کے برعکس آپ کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں تو ریاست کا بھی فرض بنتا ہے کہ ان کے ناز اٹھائے اور نخرے برداشت کرے۔ کیا ہوا اگر کسی کی جوان بیٹی کو بستر کی زینت بنا لیا یا پھر کسی کے بیوی بچوں کو قید کر کے ڈیرہ داری کے کاموں پہ لگا دیا۔ ملکی مفاد کے لئے سب چلتاہے۔

مگر بنیادی سوال یہ ہے کہ کب تک چلے گا یہ سب، سٹریٹیجک اثاثوں کے ناز اٹھانے والی بات درست سہی مگر ہماری سٹیبلشمنٹ کو آزادی کے سوال کو ہلکا نہیں لینا چاہیے۔ کیونکہ ان محکوموں و مظلوموں کو جب کسی سردار کی قید سے آزادی نہیں ملے گی تو خدشہ ہے یہ لوگ ریاست سے آزادی مانگنا نہ شروع کر دیں۔ بلکہ ایسے ہی بہت سارے لوگ ہیں جن کے بچے پہاڑوں پر چڑھے ہوئے ہیں اور ایک آزاد ملک مانگ رہے ہیں۔ ان میں اکثریت کی ایک جیسی کہانی ہے، لہذا دست بستہ عرض ہے کہ جب کوئی بلوچ ماں قرآن مجید ہاتھوں اٹھا کر دہائی دے کہ ہمیں آزاد کرو، تو انہیں سردار سے آزادی دلوا دو جناب۔

%d bloggers like this: