نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اڑتالیس سیڑھیاں۔۔۔||مبشرعلی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب یہ بات سب جان چکے ہیں کہ ہندوستان کے ادبی ڈاکو اشعر نجمی نے ہماری بہن لینہ حاشر کا مضمون چوری کرکے اپنے ناول میں شامل کیا۔ بڑے میاں نے اپنے رسالے اثبات کے لیے تین سال پہلے مجھ سے ایک ایرانی افسانہ ترجمہ کروایا تھا لیکن چھاپا نہیں۔ وہ میں یہاں پیش کررہا ہوں کہ کہیں سرقہ باز بڈھا اسے بھی کسی آئندہ ناول یا رسالے کے اگلے شمارے میں اپنے نام سے نہ چھاپ دے۔
۔۔۔
اڑتالیس سیڑھیاں
پاکسیما مجوّزی
ترجمہ مبشر علی زیدی
میں گھر پہنچی اور اچھی ماں کی طرح کھانا تیار کیا، میز پر سجایا، سب کو کھلایا، برتن دھوئے، بچوں کو سونے کے لیے بستر پر لٹایا اور جاکر صوفے پر اس شخص کے ساتھ بیٹھ گئی جو میرے گھر میں رہتا ہے۔ میں نے اسے دیکھا۔ سرمئی بالوں اور تھکے تھکے چہرے والا وہ شخص میرے بچوں کا باپ ہے۔ میں اسے کبھی نہیں جان سکی۔ کبھی سمجھ نہیں سکی کہ وہ کون ہے۔ میں نے اس کے بے جان ہاتھوں کو دیکھا جن پر زخم تھے۔ اس کے ہونٹوں کو دیکھا جو تمباکو نوشی کی وجہ سے گہرے ہوچکے تھے۔ اس کی بوجھل آنکھوں کو دیکھا جو مسلسل ٹی وی اسکرین پر جمی ہوئی تھیں۔
میں آج کا دن بھول جانا چاہتی ہوں۔ اس کا ہر لمحہ۔ میں نے اپنی آنکھیں بند کرلیں۔ سر پیچھے دیوار سے لگا لیا۔ مجھے علم ہے کہ وہ مجھے نہیں دیکھ رہا۔ میں جانتی ہوں کہ اسے کوئی پرواہ نہیں کہ میں کیا سوچ رہی ہوں۔ ہم دونوں اس لاتعلقی کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ میرے پاس اس سے کہنے کو کچھ نہیں۔ ہماری معمول کی گفتگو محض سلام اور الوداع تک محدود ہوچکی ہے، سوائے ان چند راتوں کے کہ جب میں کانوں میں اس کی سرگوشی سنتی ہوں اور وہ بھی نامانوس لگتی ہے۔
ایک بھی لفظ کہے بغیر میں اٹھی اور اس کے پاس سے گزرتے ہوئے خواب گاہ میں چلی گئی۔ بستر پر لیٹ کر میں نے آنکھیں بند کرلیں۔ میں آج کا دن بھول جانا چاہتی ہوں، لیکن نہیں بھول سکتی۔ ایک لمحہ بھی نہیں۔
برفباری ہورہی تھی اور فضا میں دھند تھی۔ ہفتے کے اور دنوں کی طرح میں دفتر پہنچی لیکن مجھ میں کام کرنے کی توانائی نہیں تھی۔ میرے ہاتھ دُکھ رہے تھے۔ مجھے آرام کی ضرورت تھی۔ میرے پاس اس میز اور دفتر کے لیے حوصلہ باقی نہیں تھا۔ میں نے بہانہ بناکر چھٹی لی اور گھر کی راہ لی۔ لیکن گھر جانے کے بجائے دور ایک کیفے میں پہنچ گئی۔ مجھے اس کا نام تک معلوم نہیں۔ قدیم طرز کا وہ کیفے خالی پڑا تھا۔ وہاں قہوہ پیش کرنے والی بوڑھی عورت کے سوا کوئی نہیں تھا۔ میں کھڑکی کے قریب والی میز پر جاکر بیٹھ گئی۔ مجھے سردی لگ رہی تھی۔ میں کانپ رہی تھی۔ میں نے ہاتھ رگڑے اور قہوہ طلب کیا۔ اس کا انتظار کرتے ہوئے سوچنے لگی کہ میرے بچے کیسی تیزی سے بڑے ہورہے ہیں۔
قہوے کی خوشبو کیفے میں پھیلنے لگی۔ میں نے اپنے ہاتھوں کو پھر رگڑا، جن کے جوڑ متورم ہوگئے ہیں۔ میں اب اپنی شادی کی انگوٹھی نہیں اتار سکتی۔ میری عمر ڈھل رہی ہے۔ میں ویسی نہیں رہی جیسی ہوا کرتی تھی۔ میں نے قہوہ کی پیالی اور پرچ کے کھنکنے کی آواز سنی۔ میں نے باہر دیکھا۔ برف کے گالے تیزی سے زمین پر اتر رہے تھے۔ وہ خوش لگ رہے تھے کہ زمین سفید ہوتی جارہی ہے۔ لیکن مجھے سردی لگ رہی تھی۔ میں نے گرم کپڑے نہیں پہنے ہوئے تھے۔ میں نے ایک پرانا سوئیٹر پہنا ہوا تھا جو برفباری میں جلدی گیلا ہوجاتا ہے۔ بوڑھی عورت نے میرا رخ کیا۔ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ نہیں تھی اور الجھے ہوئے سفید بال اس کے گلابی اسکارف سے باہر جھانک رہے تھے۔ اس نے قہوے کی پیالی میرے سامنے رکھی اور واپس اپنے کاؤنٹر کے پیچھے جاکر بیٹھ گئی۔ پیالی سے اٹھتی بھاپ نے مجھے گرماہٹ بخشی۔ یہ ایک خوشگوار احساس تھا کہ۔۔۔
کیفے کا دروازہ کھلا اور ایک شخص داخل ہوا۔ کاؤنٹر کے پیچھے بیٹھی بوڑھی عورت نے مانوس مسکراہٹ کے ساتھ استقبال کیا اور آرمینی زبان میں خیر مقدمی کلمہ کہا، "بارو۔” اس شخص نے سر ہلایا۔ وہ میرے قریب سے گزرا اور کئی میزیں چھوڑ کر ایک پر رک گیا۔ میں مدھم روشنی میں اس کا چہرہ نہیں دیکھ سکتی تھی۔ اس نے اپنا کوٹ اتارا، برف جھاڑی اور اسے ایک کرسی پر ڈال دیا۔ پھر وہ بیٹھ گیا۔ بوڑھی عورت اس کا آرڈر لیے بغیر کام میں لگ گئی۔ قہوے کی خوشبو کیفے میں پھیلنے لگی۔
میرے ہاتھ دکھ رہے تھے۔ میں نے انھیں رگڑا۔ اس شخص نے ایک سگریٹ سلگائی۔ اس کی بو بے حد مانوس تھی۔ میں نے قہوے کا ایک گھونٹ لیا، گلی پر ایک نظر ڈالی اور پھر اس شخص کی طرف دیکھا جو دھوئیں کے پیچھے اوجھل تھا۔ میں نے اپنا ماتھا میز پر ٹکا لیا۔ میں سب کچھ ختم کرنا چاہتی تھی، ہاتھوں کی دکھن، جسم کی تھکن اور تنہائی۔ لیکن کچھ ختم ہونے والا نہیں تھا۔
میں نے اپنا سر اٹھایا۔ اس شخص نے اپنا قہوہ ختم کرلیا تھا۔ اس نے مجھے دیکھا۔ میں نے اس کا چہرہ نہیں دیکھا، صرف اس کی آنکھوں میں چمک دکھائی دی۔ اس نے چند نوٹ میز پر رکھے، ساتھ والی کرسی سے اپنا کوٹ اٹھایا اور پہن لیا۔ وہ سست روی سے میرے قریب سے گزرا۔ اس نے کیفے کا دروازہ کھولا اور برف سے ڈھکی سڑک پر قدم رکھا۔ پھر وہ رک گیا۔ وہ واپس مڑا اور میری طرف دیکھا۔
کیا مجھے کھڑے ہونا چاہیے؟ میں کھڑی ہوگئی اور میز پر چند نوٹ رکھ دیے۔ مجھے بوڑھی عورت کی متجسس نگاہ کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ میں نے کیفے کا دروازہ کھولا اور برف سے بھری سڑک میں اس شخص کی طرف چلی۔ وہ مجھ سے چند قدم آگے آگے چلا۔ میں اس کا تعاقب کرتی رہی۔ شارع خالی تھی جس میں چار ذیلی گلیاں نکلتی تھیں۔ وہ دوسری میں مڑ گیا۔ یہ ایک تنگ اور تاریک گلی تھی۔ وہ اس کی آخری عمارت تک گیا۔ اپنی جیب سے چابی نکالی۔ پرانا دروازہ کراہتے ہوئے وا ہوا۔ وہ ایک طرف ہوگیا۔ میں پہلے داخل ہوئی۔ اس نے کہا، "سب سے اوپر والی منزل۔”
کیسی اجنبی آواز تھی، یا شاید کیسی مانوس تھی۔ ہم اڑتالیس سیڑھیاں چڑھے۔ پھیکے روغن والا دروازہ میرے سامنے تھا جس کا رنگ کبھی نیلا ہوتا ہوگا۔ اور پھر۔۔۔ اس نے دروازہ کھولا۔ کمرے میں واحد روشنی ہیٹر کے نیلے شعلے پیدا کررہے تھے۔ اس نے ایک لیمپ روشن کیا۔ میری پہلی نظر کتابوں پر پڑی۔ فرش پر، میز پر، حتیٰ کہ کرسیوں پر بھی کتابیں دھری تھیں۔ ایک بھری ہوئی ایش ٹرے تھی۔ فرش پر روشنائی کے دھبوں والے کاغذ بکھرے ہوئے تھے۔
میں نے اس کی طرف دیکھا۔ اس نے کچھ نہیں کہا۔ اس کی آنکھیں سیاہ کنچوں کی طرح گھومیں۔ اس گھر میں بس ایک ہی اور کمرا تھا۔ اس نے وہاں کا رخ کیا۔ میں اس کے پیچھے چلی۔ سوائے ایک بستر اور سرخ لیمپ کے، وہ کمرا کتابوں، رسالوں، کاغذوں اور تصویروں سے بھرا ہوا تھا۔ میں نے اپنا بد رنگا سویئٹر اتار دیا۔ اس نے مجھے دیکھا۔ میں نے اسے دیکھا۔ کیا میں نے اسے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا؟ نہیں، وہ اجنبی نہیں تھا۔ ایسا لگا جیسے وہ میرا محبوب تھا جو برسوں کا فاصلہ طے کرکے آیا تھا۔
اس کے سیاہ بال تھے اور بشاش نوجوان چہرہ، بڑے ہاتھ نرم تھے، گلابی ہونٹ جوش سے لرز رہے تھے اور چمکتی ہوئی سحرانگیز آنکھیں میرے چہرے پر جمی ہوئی تھیں۔ مجھے احساس ہوا کہ میں جوان ہوں۔ شدید خواہش اور بے حساب توانائی کی لہر میرے جسم میں دوڑ گئی۔ میں چاہتی تھی کہ میرے اندر کی ساری برف پگھل جائے۔ میں چاہتی تھی کہ وہ مجھے اپنی بانہوں میں سمیٹ لے۔ اور اس نے ایسا ہی کیا۔ میرا درجہ حرارت بڑھنے لگا۔ میں نے کپکپانا بند کردیا۔
دس بج چکے تھے جب میں اس اپارٹمنٹ سے نکلی اور وہ اڑتالیس سیڑھیاں اتری۔ رات کی سیاہی اس ویران اور تنگ گلی سے میرے گھر تک آگے آگے چلی۔
میں گھر میں داخل ہوئی اور یہ ظاہر نہیں کیا کہ مجھے تاخیر ہوئی ہے۔ میں نے آنکھیں بند کرلیں اور کوشش کی۔۔۔ میں نے آج کا دن بھولنے کی کوشش کی۔

یہ بھی پڑھیں:

مبشرعلی زیدی کے مزید کالم پڑھیں

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

About The Author