دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

قرآن پاک کے تراجم ۔۔۔||مبشرعلی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قرآن کی آیات کا اولین ترجمہ سلمان فارسی نے کیا تھا۔ انھوں نے سورہ فاتحہ کو فارسی زبان میں منتقل کیا۔ خیال ہے کہ رسول اللہ کی زندگی میں یہ قرآنی متن کا واحد ترجمہ تھا۔ مشرقی زبانوں میں قرآن کا پہلا مکمل ترجمہ بھی فارسی میں کیا گیا۔ عباسی خلافت میں یہ واقعہ 961 سے 976 عیسوی کے درمیان کا ہے۔ 1143 میں رابرٹ آف کیٹن نے قرآن کا لاطینی زبان میں ترجمہ کیا۔ اس کا مخطوطہ چار سو سال بعد 1543 میں چھپا اور اگلی کئی صدیوں تک اسے ہی مغربی زبان میں قرآن کا پہلا مکمل ترجمہ سمجھا جاتا رہا۔
اب چند سال پہلے انکشاف ہوا ہے کہ لاطینی ہی نہیں، فارسی سے بھی سو سال پہلے یونانی زبان میں قرآن کا مکمل ترجمہ کیا جاچکا تھا۔ کس نے کیا تھا، یہ کوئی نہیں جانتا۔ اس ترجمے کا مخطوطہ کہاں گیا، یہ بھی معلوم نہیں۔ لیکن قسطنطنیہ کے عالم نکیتاس بازنطیئس نے 855 اور 870 کے درمیان قدیم یونانی زبان میں جو کتاب لکھی، اس میں قرآنی سورتوں کے ترجمے موجود ہیں۔ اس کتاب کو رفیوتاتیو یا رفیوٹیشن آف قرآن یعنی قرآن کی تردید کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ مخطوطہ تو موجود تھا اور محققین کی دلچسپی کا مرکز بھی رہا لیکن یہ دھیان کسی نے نہیں دیا کہ اس میں قرآن کی محض چند آیات کے ترجمے نہیں بلکہ درجنوں سورتیں ہیں۔ 1981 میں آسٹریا کے تاریخ داں ایرک ٹریپ نے ایک مضمون میں قرآن کے قدیم یونانی ترجمے کا سوال اٹھایا۔ سنہ 2000 میں جرمن اسکالر فورسٹیل نے نکیتاس کی کتاب کا جرمن زبان میں ترجمہ کیا اور اس خیال کو تقویت دی۔
نکیتاس کی اس کتاب کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ وجہ یہ کہ اس نے مسیحی دنیا میں قرآن اور رسول پاک کے بارے میں جو منفی تاثر پیدا کیا، وہ صدیوں تک برقرار رہا۔ مسیحی علمائے دینیات نے بعد کی کتابیں نکیتاس کے ترجمے اور خیالات کی روشنی میں لکھیں۔ کچھ وجہ یہ بھی بنی کہ صلیبی جنگیں شروع ہوگئیں۔ 1096 سے 1291 تک یعنی دو سو سال تک مسلمان اور مسیحی مذہب کے نام پر اور فلسطین پر قبضے کے لیے خون بہاتے رہے۔
یونیورسٹی آف سدرن ڈنمارک کے اسکالر کرسچن ہیگل نے 2010 میں ایک تحقیقی مقالہ لکھا، اور وہی پڑھ کر مجھے خیال آیا کہ نکیتاس کا اصل مخطوطہ تلاش کرنا چاہیے۔ ہیگل نے لکھا ہے کہ ماضی میں نکیتاس کی کتاب کو اہمیت ملنے کے باوجود قرآن کے اولین ترجمے کی موجودگی پر کیوں توجہ نہیں دی گئی۔ پہلی وجہ نکیتاس کا اسلام دشمنی کا رویہ تھا۔ لوگ یہ بھی سمجھے کہ سورتوں کا ترجمہ نکیتاس نے خود کیا ہے لیکن یہ غلط تاثر تھا۔ دوسری وجہ اس کتاب میں تنقیدی زبان کا استعمال تھا۔ تحقیق کرنے والوں کی توجہ قدیم یونانی میں مناظرے والی زبان پر رہی۔ تیسری وجہ یہ خیال تھا کہ قرآن کو درست طور پر عربی سے یونانی میں ترجمہ نہیں کیا گیا۔ ہیگل کے مطابق یہ خیال بھی قطعی غلط ہے کیونکہ یونانی ترجمہ اعلی معیار کا ہے اور نکیتاس کی تحریر کے برعکس مثبت انداز میں کیا گیا ہے۔ یہی اصل بات ہے جس کی وجہ سے اب ماہرین سمجھتے ہیں کہ یہ ترجمہ نکیتاس نے نہیں بلکہ کسی عالم نے غالبا اموی دور میں کیا تھا۔ اسے سامنے رکھ کر نکیتاس نے اپنی کتاب لکھی۔
میں نے کتب خانے والے گروپ میں نکیتاس کا مخطوطہ پیش کردیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ گروپ کے کسی رکن کو قدیم یونانی کی شدبد بھی نہیں ہوگی۔ مجھے بھی نہیں ہے۔ پھر یہ کتاب پیش کرنے کا کیا مقصد؟ میں سمجھتا ہوں کہ قرآن کے اولین مکمل ترجمے کا سراغ دینے والے اس مخطوطے کی تاریخی اہمیت ہے۔ نکیتاس کا اصل مخطوطہ ویٹی کن کے کتب خانے میں محفوظ ہے۔ اس مخطوطے تک رسائی تو دور کی بات، میرا خیال ہے کہ آج تک کسی مسلمان عالم کو اس پر تحقیق یا اس کے ترجمے کا خیال بھی نہیں آیا ہوگا۔ اس کی پی ڈی ایف بھی آپ کو کسی یورپی یا امریکی یونیورسٹی میں نہیں ملے گی۔ یہ پہلی بار میں ہی پیش کررہا ہوں۔ پاکستان میں ہوتا تو اسے پرنٹ کرکے تعارف کے ساتھ یونیورسٹیوں اور لائبریریوں کے قرآن اور اسلامی تاریخ سے متعلق شعبوں میں جمع کرواتا۔

یہ بھی پڑھیں:

مبشرعلی زیدی کے مزید کالم پڑھیں

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

About The Author