یاسر جواد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ بڑے پیمانے پر سگریٹ بنانے کا طریقہ ایجاد ہونے کے بعد 50 سال کے اندر اندر شمالی امریکہ و شمالی یورپ میں عورتوں کا سگریٹ نوشی کرنا معاشرتی لحاظ سے قابلِ قبول اور حتیٰ کہ پسندیدہ بن گیا۔ اس کی وجہ صرف اُس دور میں عورتوں کی سماجی و معاشی حیثیت میں ڈرامائی تبدیلیاں آنا ہی نہیں بلکہ یہ بھی تھی کہ تمباکو کی صنعت نے سگریٹ نوشی کو آزادی کی علامت، ’’آزادی کی مشعل‘‘ کے طور پر فروغ دیتے ہوئے نئے سماجی رویوں سے فائدہ اٹھایا۔ آج بھی دنیا بھر میں اِس پیغام کو فروغ دیا جا رہا ہے، بالخصوص ایسے ممالک میں جو کچھ ہی عرصہ پہلے تیز سماجی تبدیلی کے عمل سے گزرے ہیں یا گزر رہے ہیں۔
انیسویں صدی کے آخر میں سگریٹ کی بڑے پیمانے پر پیداوار نے تمباکو کے صَرف اور معاشرے میں تمباکو کے مقام پر گہرا اثر ڈالا۔ تمباکو نوشی کے روایتی طریقوں کے ساتھ موازنے میں سگریٹ صاف، استعمال میں آسان، جدید اور سستے تھے۔ تاہم، مردوں میں سگریٹ نوشی کی مقبولیت صدی کے اختتام پر ہوئی، مگر ساتھ ساتھ سگریٹ کی خاصی مخالفت بھی پائی جاتی تھی۔ سگریٹ نوشی کو ایک گندی عادت سمجھا گیا جو مردوں اور عورتوں دونوں کو خراب کر رہی تھی، اور عورتوں کے گروپوں نے یو ایس اور کینیڈا میں تمباکو مخالف تحریکوں میں اہم کردار ادا کیا۔ جواب میں تمباکو کمپنیوں نے اپنا پیغام پھیلانے کے لیے مارکیٹنگ کے جدید طریقے اختیار کیے۔ اگرچہ اشتہارات، پوسٹروں اور کارڈز وغیرہ میں اکثر پرکشش نوجوان عورتوں کو دکھایا گیا، لیکن ان کا کردار نسوانی گاہکوں کی بجائے مردوں کو لبھانے والا تھا۔ اِس بات کا بہت کم ثبوت موجود ہے کہ اُس دور میں تمباکو کمپنیوں نے عورتوں کو براہِ راست کسی حد تک ہدف بنایا یا سگریٹ نوشی کرنے والی عورت سے منسلک سماجی کلنک کو چیلنج کرنے کی کوئی کوشش کی۔
پہلی عالمی جنگ عورتوں کی آزادی اور عورتوں میں سگریٹ نوشی کے پھیلاؤ دونوں میں فیصلہ کن موقع ثابت ہوئی۔ جنگ کے دوران بہت سی عورتوں نے نہ صرف ’مردانہ‘ پیشے اختیار کر لیے بلکہ ٹراؤزر اور نیکریں پہننا، بال کٹوانا اور تمباکو نوشی کرنا بھی شروع کر دیا تھا۔ بعد میں سگریٹ نوشی کرنے والی عورتوں کے بارے میں رویے بدلنے لگے اور زیادہ سے زیادہ عورتوں نے سگریٹ کو نسوانی طرزِ عمل کے متعلق روایتی تصورات کو چیلنج کرنے کا ہتھیار بنانا شروع کر دیا۔ پاؤڈر رُومز اور ریسٹ رومز میں بہت سی عورتیں ساتھیوں کے ہمراہ سماجی لحاظ سے قابلِ قبول حدود کو پار کر جاتیں۔ جلد ہی سگریٹ نئے کرداروں اور نسوانی رویے کی توقعات کی علامت بن گیا۔ تاہم، سوال کیا جا سکتا ہے کہ اگر 1920ء اور 1930ء کی دہائی میں تمباکو کمپنیوں نے اس موقعے سے فائدہ اُٹھا کر آزادی، اختیار اور دیگر اہم نسوانی اقدار کو استعمال نہ کیا ہوتا تو کیا پھر بھی تمباکو نوشی عورتوں میں اتنی مقبول ہو پاتی یا نہیں۔ بالخصوص اُنھیں نسوانی تمباکو نوشی کے لیے نئے سماجی امیجز اور معنی وضع کرنا تھے تاکہ شہوت پرستی اور اخلاقی گراوٹ کے ساتھ اِس کا تعلق منقطع کیا جا سکے۔ سگریٹ نوشی کو قابلِ احترام، فیشن ایبل، سٹائلش اور نسوانی بنانے کی ضرورت تھی۔ مارکیٹ میں خریداروں کی تعداد دوگنی کرنا ہدف تھا۔ جیسا کہ امیریکن ٹوبیکو کے صدر مسٹر ہِل نے 1928ء میں کہا، ’’یہ اپنے صحن میں سونے کی نئی کان کھولنے جیسا ہو گا۔‘‘
یہ کتاب الفیصل پبلشرز، اردو بازار نے شائع کی (04237230777)
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر