مئی 10, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سرائیکی شاعر احمد خان طارق کی برسی۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احمد خان طارق کی برسی کے حوالے سے بات کرنے سے پہلے بتانا چاہتا ہوں کہ حکومت پاکستان نے معروف سرائیکی شاعر شاکر شجاع آبادی کو ستارہ امتیاز دینے کا اعلان کیا ہے۔ 23 مارچ 2023ء کو یوم پاکستان کے موقع پر منعقد ہونے والی قومی تقریب برائے تقسیم اعزازات میں گورنر میاں بلیغ الرحمن شاکر شجاع آبادی کو اس اعزاز سے نوازیں گے۔ شاکر شجاع آبادی بہت علیل ہیں اس کے باوجود ادب تخلیق کر رہے ہیں، وسیب میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں سہولتوں کا فقدان ہے۔ وسیب کے بہت سے شعراء کرام علیل ہیں وزیر اعلیٰ محسن نقوی اور سیکرٹری اطلاعات و ثقافت علی نواز ملک کی خصوصی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ سرائیکی شاعری میں امان اللہ ارشد اور عاشق بزدار بھی بہت بڑے نام ہیں اور وہ علیل ہیں ، اسی طرح دیگر شعراء واقف ملتانی ، یاسر اُچوی ، بلال بزمی، قمبر چشتی، عالیان انمول، ریاض ارم، اظہار ساجن، شاہد شارق بالی، نذیر احمد نذر، صادق سُمرا، عاشق صدقانی ، احمد سعید گل ، مظہر چانڈیہ ، ساجد علی پوری اور ناظم حسین ناظم بھی علالت اور عسرت کا شکار ہیں۔ وسیب کے آرٹسٹ، ہنر مند ، دستکار خصوصی توجہ کے طالب ہیں۔ عظیم سرائیکی شاعر احمد خان طارق کی برسی کے موقع پر عرض کرنا چاہتا ہوں کہ سرائیکی زبان کے لفظ شہد کی طرح میٹھے ہوتے ہیں، ان میں محبت اور درد مندی ہے، ان میں عاجزی انکساری ہے، لذت ہے ، یہ ہمارا دعویٰ ہے اگر کوئی اس دعوے کی دلیل مانگے تو پھر احمد خان طارق کی شاعری دلیل اور ثبوت کے طور پر پیش کی جا سکتی ہے۔احمد خان طارق کی برسی آج ان کے آبائی گائو ں شاہ صدر دین میں منائی جا رہی ہے ۔ آپ کی وفات 10 فروری 2017ء کو ہوئی ۔ شاہ صدر دین میں مرکزی تقریب کا اہتمام آپ کے صاحبزادگان اور شاگرد کرتے ہیں ۔ سائیں احمد خان طارق نہ بھولنے والی شخصیت کا نام ہے کہ یاد وہ نہیں رہتے جنہیں لوگ فراموش کر دیں،طارق کا بسیرا تو وسیب کے ہر درد مند کے دل میں ہے۔ احمد خان طارق کے فن، فکر اور شخصیت پر بات کرنے سے پہلے میں ان کے پس منظر کے بارے میں عرض کروں گا کہ سندھ کنارے بستی شاہ صدر دین میں 1924ء کو بخش خان کے گھر پیدا ہونے والے عظیم شاعر احمد خان طارق نے 1945ء میں شاعری شروع کی اور اپنا استاد نور محمد سائل کو بنایا۔ احمد خان طارق نے آخری وقت تک بہت مضبوط اور خوبصورت شاعری کی۔ عموماً نوجوان شاعر پرانی باتیں کرتے ہیں لیکن ہمارے اس درویش صفت اور قلندر مزاج شاعر نے حوصلے اور ہمت والی باتیں کی، وہ آخری وقت تک ہر وسیبی کو اپنے ہونے کا شعور د دیتے رہے۔ ان کی تصانیف میں گھروں در تانْی، طارق دے ڈٖوہڑے، متاں مال ولے، میکوں سی لگٖدے، ہتھ جوڑی جُٖل، بٖیٹ دی خوشبو، عمراں دا پورہیا، سسی، میں کیا آکھاں شامل ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ دنیا کے ہر شاعر تنگ نظری اور فرقہ پرستی کے خلاف بات کی ہے، صوفی شاعر بابا بلھے شاہ، سچل سرمست، اسی طرح احمد خان طارق نے بھی اس موضوع پر بات کی۔ میں نے جن بزرگ شاعروں کے نام لئے ہیں ان کے کلام میںجو بات ہے وہ سو فیصد سچ ہے ۔ مگر مذہبی تنگ نظری اور فرقہ واریت بارے احمد خان طارق نے جو بات کی ہے، مطلب بالکل وہی ہے، پر بات میں فکری گہرائی اور فنی گیرائی بہت زیادہ ہے اور اس میں کڑواہٹ رتی بھر نہیں،آپ فرماتے ہیں: اساں کلہیاں پڑھ پڑھ انج رہ گٖے جُٖل کہیں دے کول نماز پڑھوں ہتھ بٖدھ بھانویں ہتھ کھول پڑھوں اے پھول نہ پھول نماز پڑھوں جتھاں طارق دڑکے نہ ہوون اوہا مسجد گٖول نماز پڑھوں تاریخ میں وسیب کو سپت سندھو یعنی سات دریائوں کی سر زمین بھی کہا گیا ہے۔سندھ دریا کی ملکیت کے دعوئوں سے ہٹ کر میں اپنی بات ختم کرتا ہوں کہ دریائوں کا نام سرائیکی وسیب اور سرائیکی وسیب کا قدیم نام وادی سندھ ہے۔ سندھ کو وسیب سے وسیب کو سندھ سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ سندھ کنارے رہنے والے اور اس کا پانی پینے والے سندھ کی طرح بڑی سوچ اور بڑے فکر کے مالک ہوتے ہیں۔ احمد خان طارق نے اپنی شاعری کے ذریعے ہمیشہ مظلوم طبقے کی بات کی۔ انہوں نے ادب کو اشتہار نہ بنایا پر انہوں نے چڑیا کو مثال بنا کر وسیب کے کمزور اور مظلوم لوگوں کو بہت بڑا پیغام دیا، یہی پیغام در اصل اپنے وسیب اور اپنے لوگوں کیلئے ہے۔’’ چڑیاں اٹھو کوئی دھاں کرو ، چپ نہ کرو چپ نہ کرو ‘‘۔ کسی بھی خطے کی ادبی اور ثقافتی پہچان اس کی شاعری ہوتی ہے، روز اول سے لے کر آج تک ساری دنیا میں شاعری کو بہت اہم مقام حاصل ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ شاعری تہذیب بھی ہے، ثقافت بھی اور تاریخ بھی۔ اسی لحاظ سے شاعر کو مورخ اور شاعری کو تاریخ کہا جاتاہے۔ سرائیکی شاعری کی تاریخ ہزاروں سال قدیم ہے، دھرتی نے بڑے بڑے شاعر پیدا کئے ان میں ایک بڑا نام احمد خان طارق بھی ہے۔ احمد خان طارق کی شاعری وسیب کے لوگوں سے بات چیت، میل ملاپ کی سچی پہچان ہے۔ میں تو کہوں گا کہ صرف ان کی شاعری نہیں، وہ خود بھی سرائیکی کی طرح میٹھے تھے یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری کے ساتھ ساتھ ان کو ذاتی طور پر بھی لوگ بہت زیادہ چاہتے تھے۔اس کا ذکر بھی ضروری ہے کہ وہ بہت بڑے شاعر ہونے کے باوجود صدارتی ایوارڈ سے محروم رہے اور یہ بھی دیکھئے کہ جب وہ علیل تھے تو کور کمانڈر ملتان کی طرف سے میجراسد نے ہمارے ساتھ شاہ صدر دین جا کر پھولوں کا گلدستہ پیش کیا مگر حکومتی عمائدین کی طرف سے عیادت کیلئے کوئی نہ پہنچا حالانکہ سابق گورنر سردار ذوالفقار خان کھوسہ ان کی برادری کے سردار تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج وسیب میںتمندار سے زیادہ احمد خان طارق ہر شخص کے دل پر راج کر رہے ہیں۔ ٭٭٭٭

 

 

 

 

 

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: