مئی 14, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

قلم مزدوری کے جھمیلے اور ضرورتیں ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چند دوستوں کے ساتھ بعض قارئین بھی پوچھ رہے ہیں یہ ’’ہفتہ مطالعہ کتب بینی ‘‘ کب ختم ہوگا۔ اس معصومانہ سوال پر ہنسی آئی۔ کسی انسان کی زندگی میں وہ لمحہ خدا کرے نہ آئے جب وہ طالب علم نہ رہے۔
طالب علم ہونے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ آپ پڑھتے رہتے ہیں۔ پڑھنے میں بخیلی نہیں ہونی چاہیے یعنی جو کتاب دستیاب ہو یا جس لکھت تک رسائی ہو اسے پڑھنا چاہیے۔ اچھا کیا صرف پڑھتے رہنا ہی کافی ہے؟ کم از کم میرا جواب نفی میں ہے۔
عشروں قبل اساتذہ کرام نے سمجھادیا تھا جو پڑھ لو اس پر اہل علم سے رہنمائی چاہو اور ہم مزاجوں کے ساتھ اس پر مکالمہ کرو، اس کے دو فائدے ہوں گے ایک یہ کہ پڑھا ہوا موضوعات کے اعتبار سے یاد رہے گا دوسرا یہ کہ اہل علم کی رہنمائی اور ہم مزاجوں سے مکالمے کی بدولت سب جان لیا کے تکبر سے بچ رہو گے۔
سچ کہوں میں برسوں سے یہ عادت اپنائے ہوئے ہوں کہ جب کوئی کتاب پڑھ چکتا ہوں تو سب سے پہلے اپنے اساتذہ کرام اور مربیوں کے لئے دستِ دعا بلند کرتا ہوں۔ ان کے لئے دست دعا بلند کرنا واجب ہے کیونکہ ان کے طفیل ہی کتاب دوستی کی محبت جاگی اور بہت ساری فٗضولیات سے بچ رہے۔
میرے لئے مطالعہ جاری رکھنے کی بھی دو وجوہات ہیں اولاً یہ کہ قلم مزدوری کی دنیا میں بنیادی طور پر اداریہ نویس ہوں۔ اداریہ نویسی ہی روزی روٹی کاذریعہ ہے۔
پاکستان ایسے ملک میں جہاں میڈیا میں ادارتی بورڈ نہ ہونے کے برابر ہیں عموماً ایک شخص سال کے 365 دن (چھٹیوں کو منہا کرلیجئے) اداریہ لکھتا ہے۔ موضوع کا انتخاب پھر لکھنا ادارتی پالیسی میں توازن کو بہرصورت قائم رکھا، یہ سب اداریہ نویس کی ذمہ داری ہے ۔
ہم ان اخبارات کو انگلیوں پر گن سکتے ہیں جن میں آج بھی ادارتی بورڈ ہیں روزانہ کی بنیاد پر اس بورڈ کی روبرو یا مواصلاتی سہولت سے میٹنگ ہوتی ہے۔ یا پھر اخبار کا مالک ایڈیٹر صحافت کی دنیا بارے کاروبار سے ہٹ کر بھی جانتا ہے اور وہ صبح دس ساڑھے دس بجے کے قریب اداریہ نویس کو فون کرے اور اس دن لکھے جانے والے اداریہ پر تبادلہ خیال کرے اور رہنمائی دے۔
اکثریت بہرطور ایسے اداروں کی ہے جہاں اداریہ نویس کو سارے فرائض خود ہی سرانجام دینے ہوتے ہیں۔ نیوز آف ڈے کا فیصلہ، اس سے بندھی معلومات، لکھنا، پالیسی کا خیال رکھنا، کمپوز شدہ مسودہ کی پروف ریڈنگ، ظاہر ہے کہ اس کے لئے پڑھنا پڑتا ہے۔ اخبارات، جرائد، کتابیں اور معاصر اخبارات کے اداریے، مضامین اور کالم، ذاتی زندگی محدود ہوجاتی ہے۔
خاندان اور احباب شکوہ کرتے رہتے ہیں۔ ثانیاً یہ کہ میں اس لئے بھی پڑھتا ہوں کہ مجھے اور کوئی کام بھی نہیں آتا۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں سال 1985ء میں جب ایران کے تعلیمی اداروں میں داخلہ کا امتحانی ٹیسٹ پاس کیا تھا تو پڑھنے چلا ہی جاتا اب حجتہ الاسلام علامہ دوراں اور فلاں فلاں کے القاب کے لاحقوں سے اشتہار چھپتے ، بھاری نذرو نیاز ملتی۔ کچھ خوشحالی دیکھتے بھلے دین فروشی سے ہی ہوتی یہ خوشحالی۔
جب جب میں ایسا سوچتا ہوں تو فقیر راحموں کہتا ہے شاہ اگر تو حجتہ الاسلام علامہ فلاں فلاں ہوتا تو یقیناً اب تک شہید ہوکے ٹھکانے لگ چکا ہوتا۔ فقیر راحموں بھی اس بات سے واقف ہے کہ مجھے شہادت کا شوق ہمیشہ رہا لیکن پر ایک دن یہ احساس ہوا کہ ایک تو شہید فوت ہوجاتا ہے اور دوسرا صرف تمغہ شہادت سے پچھلوں کے پیٹ نہیں بھرتے۔
ایک دو بار تعویذ گنڈے لکھنے والا پیر بننے کی کوشش کی تھی مگر دکان بنا نہیں پایا وجہ یہ ہوئی کہ مجھے تعویزات کے نرخ معلوم نہیں تھے حالانکہ میرے جنم شہر میں ایک تعویزوں والی بی بی جی کی ریٹ لسٹ بھی فقیر راحموں نے کہیں سے منگواکر دی تھی۔
ساعت بھر کے لئے رکئے مجھے یاد آیا کہ برسوں قبل ایک دوست نے کہا تھا یار شاہ جی نیک اور کریم والدین کی اولاد ہو میرے لئے دعا کرو۔ اس کی نہیں بلکہ میری بدقسمتی کہہ لیجئے یہ معلوم تھا وہ دعا کیوں کروانا چاہتے ہیں اس لئے یہ کہہ کر جان چھڑالی کہ ہماری دعائوں میں اثر ہوتا تو خود ہمیں ہی لگ جاتیں ہم بھی ’’ارینج میرج‘‘ کی جگہ محبت کی شادی پھڑکالیتے۔
وہ دوست ناراض ہوگئے بولے بڑے بخیل ہو یار سید ہو اور دعا بھی نہیں کر سکتے ۔ میں ڈر کے مارے عرض نہ کرپایا کہ یار اگر دعائوں سے دن، حالات بدلتے اور رشتے بنتے تو خود میں مزدوری کیوں کرتا۔
ویسے بھی ہم کون سا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت ہیں کہ بہشت سے بٹیرے، مرغ مسلم اور انواع و اقسام کے کھانے اترتے اور فرشتے روزانہ شام کو اگلے دن کے ناشتے دوپہر و شام کے کھانے کے لئے پسندیدہ اشیاء کے ساتھ ہائی ٹی، کافی اور بیڈ ٹی کا ایڈوانس آرڈر لے جاتے۔
اچھا ویسے جیسے اور جہاں رہے اچھے ہی رہے محنت مزدوری کی پسندوناپسند پوری کی۔ بھری جوانی میں بہت سارے شوق پالے تھے اب صرف دو ہی رہ گئے ہیں ڈن ہل کے سگریٹ پینا اور کتابیں پڑھنا۔ کتابوں کی خریداری کے بجٹ میں کچھ کمی ہوگئی ہے اب کچھ کتابیں دوست بھجوادیتے ہیں ایک دو خرید لیتا ہوں۔
کاش پبلشروں سے اچھے تعلقات بناپاتا اور وہ مہربانیاں کرتے رہتے۔
ارے معاف کیجئے گا بات اس سوال سے شروع ہوئی تھی کہ ہفتہ کتب بینی کب ختم ہوگا؟ جواباً عرض ہے، عزیزو دوستوں اور پڑھنے والو یہ ہفتہ کتب بینی آخری سانس تک چلے گا۔ وہ مثال تو آپ نے سن ہی رکھی ہوگی ’’گھوڑا گھاس سے دوستی کرے گا تو کھائے گا کیا‘‘۔ ہم بھی اگر پڑھیں گے نہیں تو قلم مزدوری میں مشکل پیش آئے گی۔
ہمارے نیک نام اور سفید پوش والدین، مریدوں کا ہجوم محل ماڑیاں اور رقبے تو چھوڑ کر گئے نہیں کہ ان پر سانپ بن کر بیٹھے رہتے۔
کبھی کبھی کچھ بے تکلف دوست طعنہ مارتے ہیں، شاہ تم اپنی لائبریری پر سانپ بن کر بیٹھے ہو کتابیں پڑھنے کے لئے ہوتی ہیں اس فیض کو عام کرو عین ان سموں میرے اندر سے ایک ’’بنیا‘‘ انگڑائی لے کر بیدار ہوتا ہے۔ تب میں مکھن لگانے والے دوستوں کو صاف کہہ دیتا ہوں کتاب نہیں ملنی اور بات کریں۔
کچھ احباب ایک دو دوستوں کا ذکر کرتے ہیں جو میری لائبریری سے کتاب لے جاسکتے ہیں اب میں انہیں کیسے سمجھائوں کہ ان ایک دو لوگوں کو کتابیں پڑھاکر ’’خراب‘‘ کرنا ضروری تھا اب میں ان سے کتابیں لے کر پڑھ لیتا ہوں۔
فقیر راحموں آجکل کہہ رہا ہے شاہ کتابوں کا شوق مہنگا ہوگیا ہے جواباً اسے کہتا ہوں سگریٹ کا برانڈ بدل لو کیا ضروری ہے ڈن ہل ہی پیا جائے۔ کہتا ہے پکا پیٹھا ملتانی ہوں دوستی اور دشمنی کے ساتھ قبر تک لے کے جائوں گا۔
وہ تو شکر ہے کہ میرا مشورہ اور اس کاجواب بیگم صاحبہ نے نہیں سن لیا ورنہ اردو میں کلاس شروع ہوجانی تھی۔
خیر سچ یہ ہے کہ انسان کو پڑھتے رہنا چاہیے۔ کبھی کبھار یہ سننے کو بھی مل جاتا ہے شاہ کچھ زیادہ ہی پڑھ گیا ہے۔
ایک دوست ہے ہمارا پیر شیرازی وہ اکثر کہتا ہے تم ان کتابوں کو آگ لگادو۔ میں اس کا دکھ سمجھتا ہوں آجکل انصافی ہے۔ اپنے تازہ پیشوا کے ہر مخالف اور ناقد پر اس کا بس چلے تو زمین تنگ کردے بس شکر یہ اس کے بس میں سوائے طعنے مارنے کے کچھ نہیں۔
جس وقت یہ کالم لکھ رہا ہوں سوچ کی تمازت سامنے والی کھڑکی کو عبور کرکے لائبریری میں آرہی ہے۔ جاڑا ابھی ختم نہیں ہوا دھوپ لطف تو دیتی ہے لیکن مزدوری اس سے زیادہ لطف۔
دو دنوں سے محترمہ سلمیٰ اعوان کی تصنیف اور بھارتی سکالر راشد ساز کی خودنوشت پڑھ رہا ہوں۔ پڑھ لوں پھر دونوں کتابوں پر ڈھیروں باتیں کریں گے۔
کچھ کتابیں اور بھی ہیں پڑھنے کے لئے۔ سوچ رہا ہوں کسی دن ہمت کرکے بازار ہو آئوں، کتابیں خرید نہ پایا تو دیکھ ہی لوں گا۔ صحت کے مسائل آڑے آتے ہیں کہیں آنے جانے میں دوست لے جاتے ہیں تو ان کا شکر گزار ہوتا ہوں۔
نفسانفسی سے بھرے اس دور میں دوست ہوں تو غنیمت ہوتے ہیں۔ شکر ہے دوستوں کی نعمت سے مالامال ہوں۔ اپنے دوستوں کا شکریہ ادا کرنے کے لئے الفاظ نہیں ملتے۔
چلیں بہت باتیں ہوگئیں ایک مشورہ ہے وہ یہ کہ پڑھا کیجئے۔ بھلے ہر ماہ ایک کتاب ہی سہی۔ یہ درست ہے کہ اس جان لیوا مہنگائی کے دنوں میں روٹی ہی مشکل سے پوری ہوتی ہے پھر بھی کوشش کرکے پانچ سات سو روپے ماہانہ سے ایک آدھی کتاب لی جاسکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: