مئی 6, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پیدائشی ہندوستانی جارج آرویل اور اُس کا 1984ء||یاسر جواد

یاسر جواد معروف مصنف و مترجم ہیں ، انکی تحریریں مختلف ادبی مجلوں کے ساتھ ساتھ اشاعتی اداروں میں بھی پبلش ہوتی رہتی ہیں، یاسر جواد کی منتخب تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

یاسر جواد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آرویل کا باپ انڈین گورنمنٹ میں ملازم تھا، اور وہ 1903ء میں بنگال میں پیدا ہوا۔ اس کا نام ایرک آرتھر بلیئر رکھا گیا۔ اس نے ایٹن کے خصوصی پبلک سکول میں داخلہ لیا، مگر یونیورسٹی میں جانے کے لئے سکالر شپ حاصل نہ کر پایا اور برما میں ’’امپیریل انڈین پولیس‘‘ میں بھرتی ہوا، اور پھر سکول ماسٹر اور صحافی کے طور پر زندگی گزاری۔ ابتدائی زمانے میں اس نے خود کو ’’انارکسٹ‘‘ بیان کیا مگر 1930ء کی دہائی کے دوران سوشلزم کا زبردست حامی بن گیا۔ آرویل ہسپانوی سول جنگ میں فرانکوں کے خلاف لڑنے کے لیے سب کچھ چھوڑ کر سپین چلا گیا۔ اس لڑائی کے دوران (جب وہ زخمی بھی ہوا) اسے پہلی مرتبہ ان سٹالنی طریقوں کا علم ہوا جن پر اس نے ’’اینیمل فارم‘‘ میں طنز کی۔
آرویل پر بائیں اور دائیں بازو (سوویت روس مخالف طنزیہ ناول ’’اینیمل فارم‘‘ کی وجہ سے) دونوں نے حق جتایا۔ مگر اس کا عمومی رویہ بائیں بازو کی جانب رجحان ظاہر کرتا ہے۔ وہ امن پسند، سرمایہ داری کا مخالف، طبقاتی تقسیم پر شرمسار، اور مزدوروں کی سادہ اقدار میں شراکت کا تمنائی تھا۔ وہ زندگی بھر ایٹم بم کی شدید مخالفت کرتا رہا: ’’اگر ہم نے اسے مسترد نہ کیا تو یہ ہمیں تباہ کر دے گا۔‘‘
جارج آرویل پر یہ الزام عائد کیا جاتا رہا کہ وہ تپ دق میں مبتلا تھا اور ناول ’’1984ء‘‘ بیماری کے ایک ترش ردعمل کے طور پر لکھا۔ درحقیقت اُس نے 1943ء میں’’یورپ کا آخری آدمی‘‘ لکھنے کا منصوبہ بنایا تھا جس نے بعد ازاں ’’1984ء‘‘ کی شکل اختیار کی۔
یہ اینٹی یوٹوپیا ناول ہے جہاں ہر چیز خوف ناک ہے۔ آرویل 1950ء میں 50 برس کی عمر کو پہنچنے سے پہلے ہی مر گیا۔ اس کی تصنیف ذاتی مایوسی سے بالکل پاک ہے۔ یہ ایک تصوراتی ریاست کے ماتحت انفرادی زندگی کی ناگفتہ بہ حالت کی تصویر کشی کرتی ہے۔ مستقبل کی یہ ریاست سوویت یونین کی یاد دلاتی ہے۔ اس میں دکھایا گیا ہے کہ جذبات سے عاری سوشلزم کے تحت انفرادیت نہ صرف کم بلکہ تباہ ہو جاتی ہے۔
آرویل نے شدید مایوس کن بیماری کی حالت میں ناول مکمل کیا۔ لیکن یہ ایک موت زدہ آدمی کی جانب سے ایک انتقامی پیشین گوئی نہیں تھی۔ اس کی بجائے یہ طنز، مگر پرامید، ممکنہ حالات کی یاد دہانی تھا۔
’’1984ء‘‘ بہت اثر انگیز ثابت ہوا۔ اس میں شامل ’’بگ برادر‘‘ اور دیگر اصطلاحات زبان کا حصہ بن گئیں۔ یہ سٹالنسٹ ’’پاکیزگی‘‘ اور فریب پر طنز کرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے دور کی استبدادی ’’سیاسی درستگی‘‘ کی پیش بینی بھی کرتا ہے۔
ابتدا میں ’’1984ء‘‘ کی مخالفت تو ہونا ہی تھی۔ قابل سکاٹش نقاد ڈیوڈ ڈیچز نے اسے ’’شاندار انداز میں بے کار!‘‘ قرار دیا۔ ’’اینیمل فارم‘‘ نے اسے کچھ شہرت دلائی، مگر ’’انیس سو چوراسی‘‘ نے تو عالمی سطح پر مشہور کر دیا۔ خود آرویل نے تسلیم کیا تھا کہ یہ ایک اور (مغرب میں بہت کم مشہور) ضدِ یوٹوپیا ’’We‘‘ کی بنیاد پر تھا (جو Zamyatin نے لکھی تھی)۔ تاہم ’’انیس سو چوراسی‘‘ کے حوالے سے ’’We‘‘ کا نہیں بلکہ برطانوی ناول نگار آلڈس ہکسلے کی Brave New World (1933ء) کا خیال آتا ہے۔
آرویل کے ’’1984ء‘‘ کی بنیاد میں زمیاتن کا ’’We‘‘ موجود ہے۔ لیکن اس سے 1984ء کی قدر و قیمت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ شیکسپیئر کے کئی ڈراموں کے پلاٹ بھی تو کچھ دیگر تصنیفات سے مستعار لیے ہوئے ہیں۔ لیکن آرویل کے ناول کا حوالہ ادبی سے زیادہ سیاسی بنتا ہے۔ اگر دنیا، یا دنیا کا ایک حصہ اس قسم کی باتوں سے کم خوف کھاتا ہے تو اس کی وجہ کافی حد تک آرویل ہی ہے۔
کوئی بھی عظیم تحریر ’’غیر سیاسی‘‘ یا ’’غیر نظریاتی‘‘ نہیں ہوتی۔ تحریر کو غیر سیاسی رکھنا ذمہ داری سے فرار ہے۔ اگر مصنف اپنے حامی اور/یا مخالف دونوں حلقوں کو چیلنج نہ کر سکے تو متاثر کن نہیں ہو سکتا۔ اپنی اپنی صلاحیت کے مطابق بڑے آرٹ اور ادب کی تائید ہماری انسانی قدروں کی تائید ہے۔ بک کارنر نے اپنے حصے کی تائید فراہم کی، اور اُمید ہے کہ وہ چالُو تحریروں کے اِس دور میں ایسی تحریریں ری پرنٹ کرنے کے ساتھ ساتھ نئے تراجم بھی فراہم کرتے رہیں گے۔ آخر ہم محض سطحی تحریروں کو سراہنے کے لیے تو نہیں بنے تھے۔
بڑا ادب کیا ہوتا ہے؟ اِس سوال پر پھر بات ہو گی۔ بہرحال 1984ء ایک بڑا ادب ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

یاسر جواد کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: