مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کے سفاک حکمرانوں، بدعقل سیاست دانوں، بے حس بیوروکریٹس، مسخرے ججوں اور مسلسل گمراہ کیے جانے والے عوام کو یہ اہم بات سمجھ نہیں آتی کہ خوشحالی وزیر خزانہ بدلنے سے نہیں، معاشی ماڈل بدلنے آتی ہے۔ جب آپ کچھ پیدا نہیں کریں گے تو بیچیں گے کیا۔ جب آمدن نہیں ہوگی تو خرچے کیسے پورے ہوں گے۔
یہ بات جرنیل اس لیے نہیں سمجھ سکتے کہ فوج خدمات فراہم کرنے والا محکمہ ہے۔ بے شک اب وہ کاروبار کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں لیکن مناپلی والے کو مسابقت والی مارکیٹ کی سمجھ نہیں ہوتی۔
اسحاق ڈار اور مفتاح اسماعیل کو تو خیر رہنے دیں، آپ امریتا سین کو پاکستان کا وزیر خزانہ بنادیں، وہ بھی ٹوپی سے کبوتر نہیں نکال سکتے۔ وجاہت مسعود کا ایک جملہ پہلے بھی نقل کیا تھا کہ انتخابات میں مرضی کے نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں، معیشت میں نہیں۔
ریاضی میں دو جمع دو چار ہوتے ہیں لیکن میکرو اکنامکس میں ایسا نہیں ہوتا۔ میں امریکی معیشت کی مثال دیتا ہوں۔ ویت نام جنگ کے اختتام پر امریکا کا کل قرضہ 500 ارب ڈالر تھا لیکن آج یہ 31 ہزار ارب ڈالر ہوچکا ہے۔ شاید آپ کو علم ہو کہ امریکا بھی ڈیفالٹ کے دہانے پر ہے کیونکہ اس کی قرضے کی حد ختم ہوچکی ہے اور کانگریس بڑھانے میں پس و پیش کررہی ہے۔
امریکا آسانی سے اس بحران سے نکل جائے گا کیونکہ اس کی جی ڈی پی 24 ہزار ارب ڈالر ہے۔ یعنی ایک سال میں امریکی اتنا مال اور خدمات فراہم کرتے ہیں۔ ڈیفالٹ کے خدشے پر ماہرین کو معیشت سست ہونے کا خطرہ تھا لیکن اس کے برعکس اسٹاک مارکیٹ اوپر جارہی ہے، ملازمتیں بڑھ رہی ہیں اور ڈالر کا نرخ تو آپ جانتے ہی ہیں۔ بجلی، پانی، گیس، پیٹرول کا کوئی بحران نہیں۔
پاکستان کے مسئلے کا کیا حل ہے؟ میں نہ معاشی ماہر ہوں، نہ سیاسی تجزیہ کار۔ معمولی سمجھ بوجھ والا عام آدمی ہوں۔ اس حیثیت میں تین حل بتاسکتا ہوں۔
ایک یہ کہ ملک کو باہمی اتفاق سے، ہنسی خوشی کئی حصوں میں تقسیم کردیں۔ جب بڑی تنظیم، ادارہ یا ملک سنبھل نہ رہا ہو تو کئی حصوں میں بانٹنے سے بہتر انتظام ممکن ہوجاتا ہے۔
اگر یہ تکلیف دہ تجویز ہے تو فوجی بجٹ پندرہ فیصد اور فوج کی تعداد پچیس فیصد کردیں، ایٹم بم جیسی لعنت سے جان چھڑائیں، جرنیلوں کی مراعات ختم کریں اور فوج کے کاروبار قومی تحویل میں لیں۔ سیاست اور عدالت میں مداخلت سے توبہ کریں تاکہ سیاسی کٹھ پتلیوں سے جان چھوٹے اور بھانڈ جج مستقبل میں ریکوڈک جیسے احمقانہ فیصلوں سے باز رہیں۔
اگر یہ بھی ممکن نہیں تو ایندھن، اناج اور دواوں کے سوا تمام درآمدات پر پابندی لگادیں اور جنگی بنیادوں پر نئی صنعتیں لگاکر پیداوار کئی گنا بڑھائیں۔ نصف فوج کو ان صنعتوں میں کھپائیں تاکہ ان کا مصرف ہو اور ملک کو معاشی فائدہ ملے۔ یہ طویل المدتی حل ہے۔ لیکن اگر ایسا کیا جائے تو مثبت نتائج کی امید میں قوم صبر کرلے گی۔
اگر یہ بھی قابل عمل نہیں تو پھر دوستوں کو مشورہ ہے کہ پاسپورٹ بنوائیں اور جدھر سینگ سمائیں، ادھر نکل بھاگیں۔ قوم کے مسائل حل نہیں ہورہے تو اپنے تو حل کرلیں۔
اگر یہاں بھی ہاتھ پاوں بندھے ہوئے ہیں اور پیارے وطن ہی میں رہنا چاہتے ہیں تو پیدل چلنے کی عادت ڈالیں، پانی کے لیے گھر میں کنواں کھود لیں، روشنی کے لیے موم بتیاں اور کھانا پکانے کے لیے انگیٹھی خرید لائیں۔ لالٹین خریدنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس کے لیے 200 روپے کا تیل کیسے خریدیں گے؟
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر