مئی 7, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

خطاؤں کی نفسیات۔۔۔||یاسر جواد

یاسر جواد معروف مصنف و مترجم ہیں ، انکی تحریریں مختلف ادبی مجلوں کے ساتھ ساتھ اشاعتی اداروں میں بھی پبلش ہوتی رہتی ہیں، یاسر جواد کی منتخب تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

یاسر جواد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک خاتون کو واضح طور پر یاد ہے کہ وہ ساڑھے بارہ سال کی عمر میں گاؤں میں سکول کے دوستوں سے پہلی بار ملنے گئی تھی۔ جب وہ اُن کے گھر کے باغ میں گئی تو فوراً محسوس کیا کہ پہلے بھی وہاں آ چکی تھی؛ کمروں میں جانے پر بھی بالکل یہی لگا، اور حتیٰ کہ اُسے پہلے سے معلوم تھا کہ کونسا کمرہ کس سے منسلک ہے، وہاں سے منظر کیسا ہو گا، وغیرہ۔
تاہم، اُس کے والدین نے بھی تصدیق کی کہ ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا کہ واقفیت کی وجہ اُس گھر اور باغ میں پہلے کبھی جانا ہوا ہو، شاید بہت ابتدائی بچپن میں۔ مجھے یہ بات بتانے والی خاتون کسی نفسیاتی تشریح کی خواہش مند نہیں تھی، لیکن اُس نے سوچا کہ یہ احساس اِن سہیلیوں اور دوستوں کی اہمیت کی پیش بینی کرتا تھا جو بعد کی جذباتی زندگی میں اُنھوں نے اختیار کی۔
البتہ یہ مظہر واقع ہونے کے حالات کے بارے میں پوچھ گچھ نے ایک مختلف تصور کی راہ دکھائی۔ جب وہ ملنے گئی تو جانتی تھی کہ اُس کنبے کی بیٹیوں یعنی اپنی سہیلیوں کا صرف ایک بھائی ہے جو شدید بیمار تھا۔ وہ اُس سے ملی بھی، اور سوچا کہ وہ بہت بیمار اور موت کے قریب ہے۔ ہوا یوں کہ چند ماہ پہلے اُس کا اپنا اکلوتا بھائی کالی کھانسی کی وجہ سے خطرناک حد تک بیمار پڑا تھا، اور اُس کی بیماری کے دوران وہ کئی ہفتے اپنے والدین کے گھر سے دُور کسی خاتون رشتے دار کے پاس رہی تھی۔ لڑکی نے سوچا کہ اُس کا بھائی بھی درحقیقت اُس کے ہمراہ گاؤں میں سہیلیوں سے ملنے گیا تھا، اور حتیٰ کہ یہ بیماری کے بعد اُس کی کسی بھی جگہ کی اولین سَیر تھی، لیکن اِن حوالوں سے اُس کی یادداشت دلچسپ طور پر مبہم تھی، حالانکہ اُسے دیگر تمام تفصیلات بہت واضح یاد تھیں، بالخصوص اُس روز پہنا ہوا لباس۔
اِن معاملات سے واقف کسی شخص کے لیے اِن اشاروں کی مدد سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں ہو گا کہ تب لڑکی کے ذہن میں اپنے بھائی کی موت کا خطرہ منڈلا رہا تھا، لیکن یہ شعوری طور پر ہرگز موجود نہیں تھا یا اُس نے بڑی شدت سے اِسے دبایا ہوا تھا کہ خوش قسمتی سے وہ صحت یاب ہو گیا۔ اگر وہ ٹھیک نہ ہوا ہوتا تو لڑکی سوگ میں ہوتی اور کوئی مختلف لباس پہنا ہوتا۔ اُسے گاؤں میں اپنی سہیلیوں کے گھر بھی اسی قسم کی صورت حال ملی، جہاں اُن کا اکلوتا بھائی موت کے خطرے سے دوچار تھا، اور وہ واقعی کچھ عرصے بعد فوت بھی ہو گیا۔ لڑکی کو شعوری طور پر یاد ہو گا کہ وہ چند ماہ پہلے اِسی طرح کی صورت حال سے خود بھی دوچار ہو چکی تھی، لیکن اُس نے دبائی ہوئی یادوں کو باہر لانے کی بجائے کچھ یاد آنے کے احساس کو اپنی سہیلیوں کے گھر اور باغ پر منتقل کر دیا، اور جعلی یادگیری (fausse reconnaissance) کا نشانہ بنی: کہ وہ پہلے بھی یہ سب چیزیں دیکھی چکی ہے۔
ہم اُس کی دبائی ہوئی یادوں سے یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ اُس وقت اپنے بھائی کی موت کی اُمید اپنی نوعیت میں ایک خواہش کی تکمیل کے خواب سے زیادہ دُور نہ تھی: اگر وہ مر جاتا تو وہ کنبے کی اکلوتی بچی ہوتی۔ وہ بعد کی زندگی میں نیوروسس کا شکار ہوئی، اور اپنے والدین کو کھونے کے خوف سے دہشت زدہ رہنے لگی۔ حسبِ معمول تجزیے نے خوف کے پیچھے اِسی حوالے سے ایک لاشعوری خواہش منکشف کی۔
ناشر: الفیصل ناشران، اردو بازار لاہور۔ 04237230777

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

یاسر جواد کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: