مئی 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پاکستان واپس کیا مٹی پھانکنے جائیں؟||عفت حسن رضوی

یہ تو طے ہے کہ پاکستان سے جانے والے کبھی لوٹ کر نہیں آتے، بس اپنے رشتوں سے ملنے، ایک پلاٹ خریدنے جو شاید کبھی مستقبل میں کام آ جائے، باہر کمائے پیسے کی ٹور دکھانے چھٹیوں میں آتے ہیں اور مزید مایوسی سمیٹ کر واپس جاتے ہیں۔

عفت حسن رضوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب اونچائی سے انسان دھڑام سے نیچے گرتا ہے تو زخم دو طرح کے ہوتے ہیں۔ بیرونی زخم ہوں تو مرہم پٹی ہو جاتی ہے اور انسان ایک دو روز میں بہتر ہو جاتا ہے۔

دوسری قسم ہے اندرونی چوٹ کی۔ اندرونی چوٹ میں بظاہر انسان ٹھیک ہی لگتا ہے مگر اندر ہی اندر رِسنے والا خون اسے وہ نقصان پہنچاتا ہے، جس سے پھر سرجن ہی نمٹے تو نمٹے ورنہ ازالہ مشکل ہوتا ہے۔

پاکستان سر تا پا زخمی ہے، تھکن سے نڈھال ہے یہ سب کو نظر آ رہا ہے مگر جو زخم نہیں نظر آ رہے وہ اور بھی گہرے ہیں اور ان میں اندرونی بلیڈنگ بھی مسلسل ہو رہی ہے مگر روکنے کا کوئی سد باب نہیں، کوئی فکر نہیں۔ یہ زخم ہے اس ملک کے تعلیم یافتہ، ہنر مند افراد کا ترکِ وطن کر دینا۔

پاکستان میں حکومتوں کو پالیسی سمجھ نہیں آ رہی کہ ترکِ وطن کر کے بیرون ملک جانے والوں اور باہر کے ملک سے پاکستان پیسے بھیجنے والوں کو اپنی اعلیٰ کارکردگی کا نتیجہ کہیں، ملک سے بے وفائی کا نام دے کر اوورسیز پاکستانیو پہ لعنت بھیجیں یا پھر ملک کی غیر یقینی صورت حال پہ سارا ملبہ ڈالیں۔

کبھی یہ اسے اپنی خارجہ پالیسی کی کارکردگی کہتے ہیں کہ فلاں ملک نے اتنے پاکستانی مزدور بلا لیے، کبھی کہتے ہیں ہمارے تعلقات کی بنا پر فلاں ملک سینکڑوں پاکستانی ریسرچرز کو پی ایچ ڈی سکالرشپ دے گا، کبھی کہتے ہیں نوجوان مایوس ہوکر ملک چھوڑ رہے ہیں، سب پچھلی حکومت کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔

یہ تو طے ہے کہ پاکستان سے جانے والے کبھی لوٹ کر نہیں آتے، بس اپنے رشتوں سے ملنے، ایک پلاٹ خریدنے جو شاید کبھی مستقبل میں کام آ جائے، باہر کمائے پیسے کی ٹور دکھانے چھٹیوں میں آتے ہیں اور مزید مایوسی سمیٹ کر واپس جاتے ہیں۔

اب تک پاکستان سے پڑھنے یا کمانے جو بھی نکلا ہے، ان میں کتنے ایسے ہیں جو وطن کی خدمت کے جذبے سے سرشار ہو کر واپس آنا چاہتے ہیں؟

میں نے یہ سوال یہاں ناروے میں موجود پاکستانی ریسرچرز کی ایک محفل میں پوچھا، عین اسی روز پاکستان اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔

میرین سائنس میں ڈاکٹریٹ کرنے والے صاحب کا تعلق بھکر سے ہے، وہ میرے سوال پہ الٹا مجھ سے پوچھنے لگے: ’کیا حب الوطنی کا تقاضا یہ ہے کہ ملی نغمے گاتے رہیں اور اپنے نصیبوں کو روتے رہیں؟ مٹی کی محبت میں زندگی کے 35 برس دھکے کھا لیے اب پاکستان واپس کیا مٹی پھانکنے جائیں؟‘

ایک صاحب جو ابھی نو وارد ہیں وہ تو برا ہی مان گئے، کہنے لگے: ’اتنی مشکل سے تو جنجال پورے سے باہر نکلے ہیں، آپ واپس جانے کی بات کر رہی ہیں۔‘

پھر منمنانے لگے: ’ہم سے کیوں پوچھ رہی ہیں، آپ خود پاکستان واپس چلی جائیں۔‘

ایک اعلیٰ سرکاری عہدہ چھوڑ کر ناروے آنے والے اکانومسٹ کہنے لگے کہ ’ملک مذاق مذاق میں جس سمت لے جایا جا چکا ہے وہاں فلائٹ ایسے ہی ڈانوا ڈول رہے گی۔ ہمیں جس آندھی کا سامنا ہے یہ نہ ہمیں ڈوبنے دے گی، نہ تیر کر پار لگنے کی مہلت دے گی۔ سو بہتر ہے کہ جیسے تیسے مایوسی سے باہر نکلیں اور باہر نکل کر اس وطن کے کسی کام آ سکتے ہیں تو آ جائیں۔‘

یہاں ناروے میں اعلیٰ تعلیم مفت ہے اور اسی تعلیم کے نام پہ ہر سال درجنوں نوجوان پاکستانی سائنس دان، دوا ساز، سماجیات کے ریسرچرز، آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے ماہر، جانوروں اور آبی حیات کے محقق ناروے کا رخ کرتے ہیں۔ مفت اعلیٰ تعلیم کے علاوہ بہت سے پاکستانی ماہرین براہ راست نوکریاں لے کر بطور پیشہ ور یہاں آتے ہیں۔ یہی حال یورپ کے دوسرے ممالک کا بھی ہے، جہاں تعلیم مفت نہیں وہاں سکالرشپس حاصل کر کے اپنے پاکستانی نوجوان پہنچ جاتے ہیں۔

بس ایک بار باہر نکلنے کی دیر ہے، پھر باقی پاؤں جمانے اور راستے نکالنے یہ نوجوان خوب جانتے ہیں۔ نوکریاں بھی ڈھونڈ لیتے ہیں اور دو سال کا تعلیمی ویزہ، کام کے ویزے میں تبدیل کرکے اپنا کیس چار پانچ سال تک لے جاتے ہیں، یہاں تک کہ مستقل سکونت کے حقوق مل ہی جاتے ہیں۔ اگلا مرحلہ شہریت حاصل کرنے کا ہے، وہ بھی دیر سویر مل جاتی ہے۔ جو قابل ہوتے ہیں وہ اپنے والدین کو بھی بلا لیتے ہیں۔ یوں پاکستان سے رہا سہا تعلق بھی نہیں رہتا، بس ایک خالی گھر پیچھے رہ جاتا ہے۔

مسائل سے ڈر کر باہر والے ملکوں میں نکل جانا کوئی مثالی سیٹنگ نہیں لیکن مڈل کلاس کا ایک نوجوان لڑکا یا لڑکی اس سے بہتر کیا کر سکتا ہے کہ بیرون ملک نکل کر چند سال کی مصیبت بھگتا کر بالآخر پاکستان میں بیٹھے گھر والوں کو ڈالر بھیجنے کے قابل ہو جاتا ہے۔

پاکستان میں دن بدن جاب مارکیٹ سمٹ رہی ہے، گذشتہ ماہ اسلام آباد پولیس میں نوکری کا امتحان دینے والوں سے پورا سٹیڈیم بھر گیا تھا، سوچیں پورے ملک میں کیا حال ہو گا۔ غیر یقینی، سیاسی عدم استحکام، نازک موڑ وغیرہ ختم ہونے کو نہیں آ رہے، ایسے میں تعلیم یافتہ نوجوان کب تک بیٹھ کر اس نازک دور کے ختم ہونے کا انتظار کرے؟

ہیومن کیپیٹل اور وہ بھی ایسا محنت کش، اپنے ہنر میں ماہر اور بہت کم میں بہت زیادہ کر کے دکھانے والا ہیومن کیپیٹل۔ لیکن اس ہیومن کیپیٹل کی اہمیت کیا تھی جسے پاکستان اب تک کھو چکا، اور روز کھو رہا ہے، اس کے اندازے ہم ہر سال لگاتے ہیں جب وہ اعدادو شمار جاری ہوتے ہیں کہ اس برس کتنے پاکستانی وطن چھوڑ کر بیرون ملک چلے گئے۔

یہی روش رہی تو ایک وقت آئے گا کہ پاکستان میں صرف مقتدر حلقے، سیاسی اشرافیہ، بیورو کریسی والے بابو اور مجبور پاکستانی رہ جائیں گے۔


اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات مصنفہ کے ہیں ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

دے دھرنا۔۔۔عفت حسن رضوی

کامریڈ خدا حافظ۔۔۔عفت حسن رضوی

ابا جان کی نصیحت لے ڈوبی۔۔۔عفت حسن رضوی

ہزارہ: میں اسی قبیلے کا آدمی ہوں۔۔۔عفت حسن رضوی

خاں صاحب! آپ کو گمراہ کیا جارہا ہے۔۔۔عفت حسن رضوی

فحاشی (وہ مضمون جسے کئی بار لکھا اور مٹایا گیا)۔۔۔عفت حسن رضوی

عفت حسن رضوی کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: