حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا ہے کہ الیکشن کے التواء کا کوئی جواز نہیں انتخابات میں تاخیر کی آئین میں کوئی گنجائش نہیں۔ امید ہے کہ تمام ادارے عوام اور سیاسی جماعتیں انتخابات کے بروقت انعقاد کو یقینی بنائیں گی۔ یہی آئینی ضرورت ہے۔ صدر مملکت نے مزید کہا کہ نگران حکومتوں میں غیرجانبداری کے جذبہ کی عکاسی ہونی چاہیے۔ گزشتہ روز لاہور میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مائنس عمران فارمولا کامیاب نہیں ہوگا۔ عمران خان کی گرفتاری پر سخت عوامی ردعمل آئے گا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وفاقی حکومت نے ان کی جانب سے حکومت اور پی ٹی آئی میں مذاکرات کے لئے بھجوائی گئی دعوت کا کوئی جواب نہیں دیا۔ صدر مملکت نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ فریقین فوری الیکشن میں سے ’’فوری‘‘ نکال کر الیکشن پر بات کرلیں۔
بادی النظر میں صدر مملکت کی باتیں اور خواہشات درست ہیں سیاسی مفاہمیت جمہوری عمل کا حصہ ہیں افسوس کہ صدر مملکت نے یہ باتیں اس وقت نہیں کہیں جب عمران خان وزیراعظم تھے اور وہ اپوزیشن سے بات کرنے کو اپنے نظریہ کی توہین قرار دیا کرتے تھے۔
بحیثیت وزیراعظم انہوں نے نہ صرف اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنے سے انکار کیا بلکہ اس انکار کی جو توجیہات پیش کیں ان سے سیاسی اختلافات ذاتی دشمنیوں میں تبدیل ہوئے۔
انتخابات یقیناً وقت پر ہونے چاہئیں یہی آئینی تقاضا ہے مگر کیا صدر مملکت اس امر سے لاعلم ہیں کہ 2018ء کے انتخابات کے بعد یہ طے پایا تھا کہ آئندہ انتخابات نئی مردم شماری پر ہوں گے یہ فیصلہ مشترکہ مفادات کونسل میں کیا گیا تھا مشترکہ مفادات کونسل کے متفقہ فیصلے سے روگردانی کے نتائج کیا ہوں گے یا یہ کہ کیا کونسل کے فیصلوں کی کوئی آئینی حیثیت نہیں؟
یہ امر بھی کسی نے مخفی نہیں کہ ماضی میں سندھ اور بلوچستان پچھلی مردم شماری پر اپنے تحفظات کے باعث نئی مردم شماری کا مطالبہ کررہے تھے تب وفاق دونوں صوبوں کی شکایات کو دور کرنے میں ناکام رہا۔ اب اگر مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کے برعکس پھر پرانی مردم شماری پر ہوئی حلقہ بندیوں کی بنیاد پر عام انتخابات ہوتے ہیں تو نیا آیئنی تنازع جنم لے سکتا ہے۔
اس ضمن میں یہی عرض کیا جاسکتا ہے کہ صدر مملکت کسی ایک سیاسی جماعتوں کی وفاداری کی سطح سے اوپر اٹھ کر اپنے منصب کے تقاضے نبھائیں اور قومی اتفاق رائے کے لئے کردار ادا کریں۔
ان کا یہ شکوہ کہ حکومت نے مذاکرات کی دعوت کا مثبت جواب نہیں دیا بجا تو ہے لیکن انہیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ انہوں نے بطور صدر مملکت کردار ادا کرنے پر توجہ دی یا اپریل 2022ء سے قبل کی طرح خود کو تحریک انصاف کا صدر مملکت ہی سمجھا اور اسی طور کردار نبھایا؟
یہ بھی بدقسمتی ہے کہ پچھلے برس وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے دنوں میں انہوں نے ایوان صدر کو پی ٹی آئی کا رابطہ دفتر بنائے رکھا۔ اس وقت کی حکومت اور خود وزیراعظم کے بعض غیرقانونی فیصلوں پر بطور صدر تصدیقی مہر ثبت کی جبکہ ان کا منصب اس امر کا متقاضی تھا کہ وہ ایک ایسے قومی بزرگ کا کردار ادا کرتے جس پر مختلف الخیال فریقین اگر مگر کے بغیر اعتماد کرتے ہوئے انہیں سیاسی عدم استحکام کے خاتمے کے لئے کردار ادا کرنے کے لئے کہتے۔
گو صدر مملکت یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کے کردار اور منصب کے حوالے سے منفی تاثر سیاسی مخالفین کا پیدا کردہ ہے لیکن اس منفی تاثر کے خاتمے کے لئے انہوں نے کیا کیا؟
اس پر دو آراء نہیں کہ سیاسی نظام کے تسلسل کے ساتھ آگے بڑھنے اور استحکام کے لئے انتخابی عمل کا مقررہ مدت میں انعقاد بہت ضروری ہے۔ سیاسی جماعتوں کو اس سے فرار کے بہانے ڈھونڈنے کی بجائے اپنی سیاسی اور جمہوری ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونا چاہیے۔
نئی مردم شماری یکم مارچ سے شروع ہوگی 30اپریل تک اگر اس کے حتمی نتائج آجاتے ہیں تو الیکشن کمیشن کو حلقہ بندیوں کے لئے6ماہ کا وقت درکار ہوگا۔ بظاہر اس کا مطلب یہ ہوا کہ انتخابات اکتوبر کے بعد نومبر یا دسمبر میں منعقد ہوں گے۔
آئین میں اس کی کتنی گنجائش ہے اور یہ کہ کیا تحلیل شدہ 2صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے ساتھ اگر قومی اسمبلی کی پی ٹی آئی کے استعفوں سے خالی ہونے والی جنرل نشستوں پر مرحلہ وار ضمنی انتخابات یا ایک ہی دن ان کا انعقاد ہوتا ہے تو یہ انتخابات مشترکہ مفادات کونسل کے مردم شماری کے حوالے سے فیصلے کی روشنی میں چیلنج تو نہیں ہوں گے؟
یہ سوال اس لئے بھی اہم ہے کہ یہ اطلاعات مل رہی ہیں کہ وفاقی حکومت کے اتحادیوں میں آئندہ عام انتخابات نئی مردم شماری پر کرانے کے لئے صلاح مشورے جاری ہیں۔ ایک طرح سے یہ صلاح مشورے مشترکہ مفادات کونسل کے اس فیصلے کی روح کے مطابق ہیں کہ 2023ء کے عام انتخابات نئی مردم شماری پر ہوں گے۔ اس فیصلے کی بنیاد پر اگر فوری انتخابات کی متقاضی سابق حکمران جماعت اور اس کی قیادت سے یہ پوچھا جائے کہ اگر آج بھی پی ٹی آئی برسراقتدار ہوتی تو کیا وہ مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے پر عمل کرتی یا فیڈریشن کی اکائیوں (صوبوں) اور سیاسی جماعتوں سے بات چیت اور پارلیمان کے ذریعے حل تلاش کرتی؟
جہاں تک مائنس عمران خان کے حوالے سے صدر مملکت کے خیالات کا تعلق ہے تو ان پر دو آراء نہیں۔ کسی سیاسی جماعت یا رہنما کو مائنس کرنے کے ماضی میں بھی جتنے تجربے ہوئے وہ ناکام رہے۔ ماضی قریب میں میاں نوازشریف کو مائنس کرنے کے لئے جو طریقہ اپنایا گیا وہ بظاہر تو کامیاب دیکھائی دیا مگر حقیقت میں اس طربقہ کار پر عمل کے نتائج نے نظام کی بنیادیں ہلادیں۔
قابل غور بات یہ ہے کہ سیاسی عمل کا تسلسل کے ساتھ آگے بڑھتے رہنا سیاسی جماعتوں کی قسمت کے فیصلے کا حق رائے دہندگان کو دیتا ہے مصنوعی طریقے سے کسی شخصیت کو سیاسی میدان سے باہر رکھنے یا جماعت کو ماضی کا قصہ بنادینے کی خواہش کبھی پوری نہیں ہوئی۔
عمران خان اور ان کی سیاست سے جتنا بھی اختلاف کیا جائے وہ ایک سیاسی حقیقت ہیں۔ رائے عامہ کا ایک بڑا حصہ ان کاحامی ہے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کے حامی پروپیگنڈے کے زور پر ان کی غلطیوں کو لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل کرنے میں مہارت رکھتے ہیں یہ معاملہ نہ بھی ہوتو ان کی سیاسی حیثیت اور عوامی مقبولیت برف پر لکھی تحریر نہیں بلکہ حقیقت ہے۔
ان کے مخالفین کو چاہیے کہ مائنس عمران کے فارمولے کا تجربہ کرنے کی بجائے سیاسی میدان میں مقابلہ کریں۔
رہا سوال ان کی گرفتاری پر عوامی ردعمل کی اس بات کا جو صدر مملکت نے کہی تو اس پر یہ پوچھا جانا ضروری ہے کہ عمران خان کے خلاف جو مقدمات ہیں کیا وہ اندھے کنویں میں پھینک دینے سے مسئلہ حل ہوجائے گا یا ان مقدمات کا عدالتی عمل کے ذریعے فیصلہ ضروری ہے۔ ہماری دانست میں مقدمات کے درست یا غلط ہونے کا فیصلہ عدالتوں کو کرنے دیا جائے تو بہتر رہے گا۔
البتہ یہ بدقسمتی ہے کہ ہمارے ہاں ہر شخص صرف اسی فیصلے کو درست سمجھتا ہے جواس کے حق میں ہو۔ ریلیف ملا تو انصاف کا بولا بالاہوا ریلیف نہ ملنے پر خفیہ ہاتھوں کی وارداتوں کی کہانیوں سے لوگوں کو بہلایا جاتا ہے۔
بہرطور پہ امر دوچند ہے کہ سیاسی استحکام کے بنیادی تقاضوں کو نظرانداز کرنے سے مسائل سنگین ہوں گے۔
اس لئے بہتر یہی ہوگا کہ سیاسی قائدین شخصی انا اور مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اجتماعی قومی مفادات، سیاسی استحکام اور جمہوریت کے تسلسل کی ضرورتوں کو بہرطور پیش نظر رکھیں۔
باردیگر یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ پی ڈی ایم اور اتحادیوں کو وسیع تر سیاسی مفاہمت اور جمہوریت کے استحکام کے لئے صدر مملکت کے توسط سے پی ٹی ائی سے مذاکرات ضرور کرنے چاہئیں۔ یہ بجا کہ عمران خان کا طرز سیاست درست نہیں مگر یہ امر بھی مسلمہ ہے کہ کسی ایک شخص کے رویہ کی بنیاد پر مذاکرات کے دروازے بند کر کے نہیں بیٹھ رہا جاتا۔
ہم امید کرتے ہیں کہ سیاسی قائدین سیاسی و معاشی استحکام اور جمہوریت کے تسلسل کے ساتھ آگے بڑھنے کے تقاضوں کو بہرصورت مدنظررکھیں گے تاکہ نادیدہ قوتیں سیاسی عمل اور نظام کو بند گلی میں لے جانے کی سازشوں میں کامیاب نہ ہوسکیں۔
All reactions:
20
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ