حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سابق وزیراعظم اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے دعویٰ کیا ہے کہ سابق صدر مملکت اور پی پی پی پارلیمنٹرین کے سربراہ آصف علی زرداری نے انہیں قتل کرانے کے لئے ایک دہشت گرد تنظیم کو خطیر رقم ادا کی ہے اپنے بیان میں عمران خان نے یہ بھی کہا کہ میں نے قتل کی سازش کا ایک جلسہ میں اعلان کرتے ہوئے بتایا تھا کہ سازش کے 4 کرداروں کے حوالے سے ویڈیو ریکارڈ کروادی ہے مجھے کچھ ہوا تو ویڈیو عوام کے سامنے لائی جائے گی، اس اعلان کے بعد سازشی عناصر پیچھے ہٹ گئے تھے
ایک روز قبل سابق وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے بھی آصف علی زرداری پر الزام لگایا تھا کہ وہ عمران خان کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں، اب عمران خان نے براہ راست آصف زرداری پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے میرے قتل کے لئے ایک دہشت گرد تنظیم کو خطیر رقم کی ادائیگی کی ہے،
ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام اور عدم برداشت کے مسلسل بڑھاوے سے بنی فضا میں عمران خان کا یہ دعویٰ ایٹمی دھماکہ سے کم نہیں، انہوں نے اپنے اس سیاسی حریف پر سنگین نوعیت کا الزام لگایا ہے جس کے بارے میں سال بھر قبل وہ ایک اجتماع میں یہ کہتے دیکھائی دیئے کہ زرداری اب میری بندوق کی نشست (شست) پر آگیا ہے، الزاماتی سیاست کی دھکم پیل میں اس الزام کو محض روائتی سیاست کی جگالی کہہ کر نظر انداز کرنے کی بجائے وفاقی حکومت کو ایک قدم آگے بڑھ کر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے تحقیقاتی کمیشن کے قیام کی درخواست کرنی چاہئے،
تحقیقاتی کمیشن کے قیام کی اس لئے بھی اشد ضرورت ہے کہ اوپر تلے سابق وزیر داخلہ اور سابق وزیراعظم نے ایک سیاسی جماعت کے سربراہ اور سابق صدر مملکت پر ایک سنگین نوعیت کا الزام لگایا ہے۔
عمران خان کا دعویٰ محض سیاسی مقاصد کے لئے نہیں تو ان کے پاس اپنے دعوے کے حق میں ٹھوس ثبوت موجود ہوں گے، تحقیقاتی کمیشن کے سامنے اگر کمیشن بنتا ہے تو یہ ثبوت ضرور رکھے جانے چاہیں اور کمیشن کی معاونت کے لئے عمر ان خان کے اعتماد کے ساتھ ایک جے آئی ٹی بھی بنائی جانی چاہئے، عمران خان بھی یقیناً اس الزام کی سنگینی سے کاملاً آگاہ ہوں گے وہ ستر برس سے اوپر کے "فہمیدہ شخص” اور ملک کے سابق وزیراعظم ہیں
اس طور یہ توقع کی جانی چاہئے کہ ان کا یہ الزام مبینہ امریکی سازش سے شروع ہوکر پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ محسن رضا نقوی کی ذات تک کی طرح کا سفر نہیں کرے گا اور نا ہی انہوں نے سیاسی ہمدردی سمیٹنے کے لئے اپنے سیاسی حریف کی جان جوکھم میں ڈالی ہوگی،
پاکستانی سیاست میں الزام تراشی نئی بات ہر گز نہیں ماضی میں سیاسی مخالفین ایک دوسرے پر سنگین الزامات لگاتے چلے آئے ہیں، پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی اپنی زندگی کے آخری دنوں میں اس وقت کے فوجی صدر جنرل پرویز مشرف اور بعض دوسری شخصیات پر اپنے قتل کی سازش میں ملوث ہونے کا الزام لگایا تھا 27 دسمبر 2007ء کی شام لیاقت باغ راولپنڈی کے باہر دہشت گردی ایک واردات میں وہ شہید ہو گئیں مگر اس سانحہ سے قبل انہوں نے اپنے قتل کی سازش اور سازش کے کر داروں کے حوالے سے جو بیان دیا اس کی روشنی میں تحقیقات نہ ہوسکیں اس سانحہ کی تحقیقات کے گھوڑے جس طرف دوڑائے گئے اس سمت سے یہ تاثر پختہ ہوا کہ سازش کے طاقتور کر داروں کو بچانے کے لئے ہر وہ کام کیا گیا جس سے تحقیقات دائرہ وسیع ہونا ہی بے نظیر بھٹو کے بیان کو تحقیقات کی بنیاد بنایا جاسکے
اندریں حالات یہ بہت ضروری ہے کہ عمران خان کے اس الزام کی کسی تاخیر کے بغیر تحقیقات کرائی جائے، عمران خان اقتدار سے محرومی کے بعد مختلف شخصیات پر الزامات لگاتے آرہے ہیں ایسے میں ان کا حالیہ الزام انتہائی سنگین نوعیت کا ہے عدم برداشت کی سیاست سے بنے نفرت بھرے ماحول میں اس سنگین الزام کی وجہ سے نہ صرف تشدد کا دروازہ کھل سکتا ہے بلکہ سیاست میں موجود بگاڑ بھی مزید سنگین ہوسکتا ہے،
یہی وہ خدشات ہیں جو اس امر کے متقاضی ہیں کہ وزیراعظم شہباز شریف کسی تاخیر کے بغیر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے اس الزام کی تحقیقات کے لئے کمیشن بنانے کی درخواست کریں تاکہ درست یا غلط حقیقت جو بھی ہو عوام کے سامنے آسکے،
یہاں ہم پیپلز پارٹی کے بعض ذمہ داران کے اس ردعمل کا ذکر بھی ضروری سمجھتے ہیں جس میں انہوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ عمران خان کے قتل کے لئے آصف زرداری کی طرف سے دہشت گرد تنظیم کو خطیر رقم کی ادائیگی والے الزام کی کہانی صدر عارف علوی اور عمران خان کی حالیہ ملاقات میں گھڑی گئی ہے،
یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ جس طرح عمران خان کا الزام سنگین ہے اسی طرح پیپلز پارٹی کے ذمہ دار ان کا ردعمل کا یہ نکتہ بھی تحقیق طلب ہے، ہردو الزامامت کو محض یہ کہہ کر نظر انداز کر دینا کہ اس طرح کی باتیں ہماری سیاست کے حریف قائدین اور معاونین کرتے ہی رہتے ہیں درست نہیں ہوگا،
ہم توقع کرتے ہیں کہ اگر وزیراعظم بالفرض تحقیقاتی کمیشن کے قیام کے لئے چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کو خط نہیں لکھتے تو چیف جسٹس کسی تاخیر کے بغیر ازخود نوٹس لے کر اس سنگین معاملے کی سماعت کریں اور سپریم کورٹ کے جج کی سربراہی میں چاروں صوبائی ہائیکورٹس اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے ایک ایک جج پر مشتمل کمیشن قائم کریں، سپریم کورٹ ہی فریقین کے اطمینان کے ساتھ اس کمیشن کی معاونت کے لئے جے آئی ٹی بنوائے،
بار دیگر اس امر کی جانب تو جہ دلانا ازبس ضروری ہے کہ ایک سابق وزیراعظم کا سابق صدر مملکت پر اپنے قتل کی سازش اور اس کے لئے ایک دہشت گرد تنظیم کو خطیر رقم کی ادائیگی کا الزام سنجیدہ نوعیت کا الزام ہے،
عمران خان بھولے بھالے بچے نہیں کہ انہوں نے مذاق مذاق میں 35پنچرز کی طرح کا الزام اچھال دیا ہو وہ خود بھی الزام کی سنگینی سے آگاہ ہوں گے اور اس امر سے بھی کہ اگر ان کا الزام تحقیقات میں درست ثابت نہ ہوا تو اس کے نتائج ان کی شخصیت اور سیاست پر بہت منفی ہوں گے،
ان کے الزام کی تحقیقات اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس الزام سے دو روز قبل سابق وزیر داخلہ شیخ رشید نے دعویٰ کیا تھا کہ عمر ان خان کو زہر دیا جاسکتا ہے اس دعوے کے ایک دن بعد انہوں نے آصف زرداری پر الزام لگایا کہ وہ عمران خان کو نقصان پہنچا سکتے ہیں، شیخ رشید کے اس الزام سے اگلے دن خود عمران خان نے اپنے قتل کی سازش کی کہانی میں ایک نئے کر دار کا اضافہ کرتے ہوئے سابق صدر مملکت پر سنگین الزام عائد کر دیا،
وفاقی حکومت، سپریم کورٹ اور دوسرے اداروں کو چاہئے کہ اس الزام سنجیدگی سے لیں اور تحقیقات کے آغاز میں ایک پل کی بھی تاخیر نہ کی جائے تاکہ عمران خان کے اس الزام سے سیاست میں مزید درآنے والی کشیدگی کو تشدد میں تبدیل نہ ہونے دیا جاسکے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر