اپریل 19, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تین قصے۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سابق وزیر اطلاعات و قانون فواد حسین چوہدری لاہور میں ٹھوکر نیاز بیگ کے قریب اپنی لاہوری اقامت گاہ سے گرفتار کرلئے گئے۔ ان کی اہلیہ حبا چودھری نے اس گرفتاری کو اغوا قرار دیا۔ فواد چودھری نے گرفتاری کو اعزاز قرار دیتے ہوئے کہا کہ نیلسن منڈیلا کے خلاف بھی اسی طرح کا مقدمہ درج ہوا تھا۔
فواد چودھری کی گرفتاری اسلام آباد کے تھانہ کوہسار میں سیکرٹری الیکشن کمیشن کی مدعیت میں درج مقدمہ میں عمل میں لائی گئی۔ راہداری ریمانڈ کے لئے لاہور کی عدالت میں پیشی کے وقت انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ ان کا طبی معائنہ کرایا جائے۔ فواد چودھری نے کہا کہ گرفتاری کے بعد ان پر بدترین تشدد کیا گیا۔
سوموار کی شام انہوں نے زمان پارک کے باہر ذرائع ابلاغ سے خطاب کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کے ارکان اور ان کے خاندانوں کو خبردار کیا تھا کہ اب مزید زیادتیاں برداشت نہیں کی جائیں گی۔ فواد پی ٹی آئی کے ان بڑوں میں شامل ہیں جو بلاسوچے سمجھے کلام کرنے پر ملکہ رکھتے ہیں ۔
ایک سے زائد بار مختلف عدالتوں اور الیکشن کمیشن سے اپنی زبان دانی کے مظاہروں پر تحریری معافی بھی مانگ چکے۔ نصف درجن معافیوں کے ریکارڈ کے باوجود ان کی زبان تالو سے نہیں لگتی۔
گزشتہ روز بھی انہوں نے سابق ڈپٹی سپیکر کی پچھلے برس کی رولنگ پر سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کیس کے فیصلے کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا تھا سارے فساد کی جڑ رولنگ کو رول آوٹ کرنا تھا ۔
عدلیہ، الیکشن کمیشن اور دوسرے اداروں پر ماضی میں بھی تنقید ہوتی رہی لیکن انصافین نے تنقید کے بیسیوں نئے انداز متعارف کروائے ہیں ۔
الیکشن کمیشن نے ان کے خلاف سیکرٹری کی مدعیت میں مقدمہ درج کروایا ہے۔ مقدمہ درست ہے یا غلط، فیصلہ تو بہرطور عدالت کو کرناہے لیکن تحریک انصاف کے رہنمائوں اور کارکنوں کو یہ بات بہرطور سمجھنا ہوگی کہ کسی فیصلے یا کسی شخصیت کے عمل پر تنقید توہین آمیبز جملے بازی اور دھمکیاں دینے میں بہت فرق ہوتا ہے۔
فواد نے ہی گزشتہ شب عمران خان کی گرفتاری کا خدشہ ظاہر کرکے کارکنوں کو زمان پارک آنے کے لئے کہا۔ کارکن زمان پارک پہنچے تو وہ ایک جوشیلا خطاب کرکے اپنی لاہوری اقامت گاہ کی طرف چلے گئے۔
آگے بڑھنے سے قبل عرض کردوں کہ زبان دانی کے مظاہروں میں نام کمانے والے چند دیگر رہنمائوں شیخ رشید، فرخ حبیب، حماد اظہر وغیرہ کی گرفتاری کے امکانات ہیں۔
عمران خان کی گرفتاری کے لئے بھی ایک سطح پر اتفاق رائے موجود ہے یہ اتفاق رائے عملی صورت کب اختیار کرتاہے ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔
بات فواد چودھری کی گرفتاری کی ہورہی تھی ماضی میں وہ (اپنے دور حکومت میں) گرفتار ہونے والے سیاسی رہنمائوں کی جانب سے تشدد کی شکایات کا تمسخر اڑایا کرتے تھے۔ کسی گرفتار رہنما کے حوالے سے ان سے سوال کیا جاتا تو کہتے دیکھائی دیتے سیاست کریں روئیں مت۔ لاہور کینٹ میں ایک عدالت میں راہداری ریمانڈ کے لئے پیشی کے موقع پر وہ تقریباً ویسی ہی شکایات کرتے دیکھائی دیئے جس طرح کی شکایات کا ماضی میں ٹھٹھہ اڑاتے ہوئے کہا کرتے تھے ’’اب آیا اونٹ پہاڑ کے نیچے ‘‘۔
دوسرا قصہ یہ ہے کہ
سپیکر قومی اسمبلی نے تحریک انصاف کے مزید 43ارکان قومی اسمبلی کے استعفے منظور کرلئے ہیں۔ 11اور 35+35 کی ترتیب کے ساتھ اب 43ارکان کے استعفوں کی منظوری سے اب تحریک انصاف کے 123 ارکان کے ساتھ عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید احمد کا استعفیٰ منظور کیا گیا۔
اس طرح کُل 124 ارکان کے استعفے منظور ہوئے۔ پارلیمانی قواعد کے مطابق تحریک انصاف کی قومی اسمبلی میں پارلیمانی پارٹی تحلیل ہوگئی۔
راجہ ریاض کی قیادت میں باغی ارکان کی پارلیمانی پارٹی کے پاس اپوزیشن لیڈر اور پبلک اکائونٹس کمیٹی کی سربراہی موجود ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی کے مطابق43 ارکان کے استعفے 22 جنوری کو منظور کرکے الیکشن کمیشن کو نوٹیفکیشن بھجوایا گیا۔
تحریک انصاف کے 143 ارکان نے 23جنوری کو سپیکر قومی اسمبلی کو استعفے منظور نہ کرنے کے لئے ای میل بھیجی تھی۔ اسی روز ریاض فتیانہ کی قیادت میں ایک وفد نے الیکشن کمیشن کے ذمہ داران سے ملاقات بھی کی۔ پی ٹی آئی کے 2ارکان کے استعفے چھٹی کی درخواستوں اور ایک رکن کا استعفیٰ منظور نہ کرنے کی درخواست پر منظور نہیں ہوئے۔
سات نشستوں سے ضمنی انتخابات میں پچھلے برس عمران خان کامیاب ہوئے تھے۔ عمران خان کے اسمبلی نہ جانے کی صورت میں ابھی تک ان سات نشستوں کی قانونی حیثیت یہی ہے کہ اگر ضمنی انتخابات ہوتے ہیں تو ان سات نشستوں پر نہیں ہوں گے کیونکہ عمران خان کو ان میں سے ایک نشست پر حلف اٹھاکر چھ خالی کرنا ہوں گی۔
قانونی طور پر الیکشن کمیشن مستعفی ارکان کے استعفے منظور ہونے کی صورت میں ضمنی انتخابات کرانے کے شیڈول کا اعلان کرنے کا پابند ہے۔ دو صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہوجانے کے بعد بھی ضمنی الیکشن کا شیڈول لازمی ہے۔
اب صورت یہ ہوگی کہ ایک طرف الیکشن کمیشن کو 2صوبائی اسمبلیوں کے لئے ضمنی انتخابات ک شیڈول دینا ہوگا دوسری طرف 124 میں سے پچھلے برس کی ان سات نشستوں جن پر عمران خان جیتے تھے کے ساتھ خواتین ارکان کی مخصوص نشستوں کو چھوڑ کر باقی ماندہ جنرل نشستوں کے لئے ضمنی انتخابات کا شیڈول دینا ہوگا۔
قومی اسمبلی سے تحریک انصاف کے ارکان کے استعفے 4مرحلوں میں منظور ہوئے۔ پہلے مرحلہ پر 11ارکان کے ان میں سے 8پر ضمنی انتخابات ہوچکے جن میں سے سات نشستیں عمران خان نے حاصل کیں ایک پیپلزپارٹی نے۔
باقی ماندہ تین مرحلوں میں منظور کئے جانے والے استعفوں میں سے خواتین کی مخصوص نشستوں کو چھوڑ کر جنرل نشستوں پر ایک دن ضمنی انتخابات کرائے جائیں گے یا استعفوں کی منظوری کی تاریخوں کے حساب سے؟
غالب امکان یہی ہے کہ استعفوں کی منظوری کی ترتیب کو ہی مدنظر رکھا جائے گا۔ یعنی قومی اسمبلی کے لئے اگر ضمنی انتخابات ہوئے تو یہ تین مرحلوں میں ہوں گے۔
تیسرا قصہ
اب آیئے وزیراعظم کی بنائی گئی قومی کفایت شعاری کمیٹی کی تجاویز پر بات کرلیتے ہیں۔ بتایا جارہا ہے کہ قومی کفایت شعاری کمیٹی تجویز کررہی ہے کہ سرکاری ملازمتی کی تنخواہوں میں 10فیصد کمی کی جائے۔
وزارتوں کے اخراجات میں 15فیصد کمی ، وفاقی وزراء اور وزرائے مملکت کی تعداد 30تک محدود کردی جائے۔ زائد وزراء اور مشیر بغیر تنخواہ کے کام کریں۔ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے صوابدیدی فنڈز منجمد کرنے کی بھی تجویز ہے۔ گاڑیوں کی خریداری پر پابندی، ملکی اور غیرملکی مراعات بھی منجمد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ سیکرٹری دفاع نے دفاعی اخراجات اور دفاعی شعبہ کے افسران کی مراعات کے ساتھ ڈیفنس پنشن کو سول بجٹ سے نکال کر واپس ڈیفنس بجٹ کا حصہ بنانے کی مخالفت کی ہے۔
سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10فیصد کمی کی تجویز کے دو حصے ہیں ا ولاً تمام ملازمین کی تنخواہوں میں کمی ثانیاً گریڈ سترہ اور اس سے اوپر کے افسران کی۔ وزارتوں کے اخراجات میں کمی کی تجویز بجا ہے مگر سوال یہ ہے کہ دفاعی شعبہ کے اخراجات اور افسروں کی مراعات میں کمی اور ڈیفنس پنشن کو سول بجٹ سے واپس ڈیفنس بجٹ کا حصہ بنانے کی مخالفت کیوں کی جارہی ہے۔
کیا اخراجات اور پنشن کی یہ رقم خلا سے آتی ہے؟
ڈیفنس پنشن کو سول بجٹ میں شامل کرنے کا فیصلہ جنرل پرویز مشرف کے وزیر خزانہ شوکت ترین نے کیا تھا اس پر تب بھی اعتراضات ہوئے بدقسمتی سے جو آئی ایم ایف اسے اب واپس ڈیفنس بجٹ کا حصہ بنانے پر زور دے رہا ہے تب محض اس لئے چُپ رہا کہ جنرل پرویز مشرف 9/11کے بعد امریکیوں کے پرجوش اتحادی کے طور پر پاکستان کو امریکی مفادات کے تحفظ کی جنگ میں جھونک رہے تھے۔
باردیگر اپنے پڑھنے والوں کو یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ آئی ایم ایف پنشن بجٹ میں کمی کرنے پر بھی زور دے رہا ہے۔ ایک تجویز یہ ہے کہ 70برس سے زائد عمر والے پنشنروں سے گولڈن شیک ہینڈ کرلیا جائے نیز یہ کہ مرحلہ وار پنشن کو مکمل طور پر ختم کردیا جائے۔
اس کے متبادل کے طور پر امریکی طرز کا سکیورٹی نظام متعارف کرایا جائے۔ ملک جس معاشی ابتری سے دوچار ہے اسے دیکھتے ہوئے تو یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ حکومت کے پاس آئی ایم ایف کی شرائط ماننے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ غالباً اس لئے وزیراعظم نے گزشتہ روز کہا کہ ’’سیاسی کمائی ریاست پر قربان کردیں گے‘‘ سمجھنے والوں کے لئے اس میں اشارے موجود ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: