نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کہانی لکھتے ہوئے کردار بن جانے والے اسد محمد خان ۔۔۔||مبشرعلی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے خاندان میں پینسٹھ کلرک، چودہ والیان ریاست اور نواب، دو ڈکیت، تین نیتا، گیارہ جرنیل، ایک صاحب کرامت ولی، ایک شہید، چھ ٹوڈی، دو کامریڈ، ایک اولمپین، سات مکینک، چونتیس تحصیل دار، ایک موذن، ایک ڈپلومیٹ، سات شاعر، پانچ ناکے دار، کچھ پولیس والے، بہت سے لیکچرر اور استاد، ایک تانگے والا، تیس چالیس جاگیردار اور پانچ سو نکمے پیدا ہوئے۔
میرے خاندان میں آج تک خودکشی کی واردات نہیں ہوئی۔ ہم لوگ زندگی سے چمٹے رہنا جانتے ہیں۔
یہ میرے الفاظ نہیں۔ میں اتنا اچھا لکھنا نہیں جانتا۔ یہ جادوگر افسانہ نگار اسد محمد خان کے جملے ہیں۔
سچ سچ بتائیں، یہ پڑھ کر آپ کے دل میں بھی اپنے خاندان کا ایسا تعارف لکھنے کی چاہ پیدا ہوئی یا نہیں؟
ان کا ایک اور جملہ بھی اکثر میرے ذہن میں گردش کرتا ہے:
لوگ بڑے حاسد، کنجر کی اولاد ہوتے ہیں۔
کبھی کسی پر بہت غصہ آتا ہے تو ممدوح کی شان میں یہ جملہ دل ہی دل میں کہہ لیتا ہوں۔ زبان سے ادا کرنے میں طبعی شرمیلاپن آڑے آجاتا ہے۔ یہ "الی گجر کی آخری کہانی” کا ڈائیلاگ ہے۔
میں گالیاں نہیں دیتا۔ اسد محمد خان بھی نہیں دیتے ہوں گے، لیکن کہانی لکھتے ہوئے وہ کردار بن جاتے ہیں۔ پھر وہ وہی لکھتے ہیں جو کردار بولتا ہے۔ جو کردار کو صورتحال کے مطابق بولنا چاہیے۔ کردار غنڈہ ہے تو گالی بکے گا، طوائف ہے تو جسم بیچے گی، صحافی ہے تو۔۔۔ نہیں، قلم نہیں بیچے گا۔ میں صحافی رہا ہوں، ایسی بات نہیں کہنا چاہتا۔
مجھے اسد محمد خان پسند ہیں۔ وہ میری اس فہرست میں شامل ہیں جس میں عصمت چغتائی، انتظار حسین، شوکت صدیقی اور نیر مسعود کے نام لکھے ہیں۔ ان کے افسانے بار بار پڑھنے کو جی چاہتا ہے۔
اسد محمد خان کو میں نے کسی سکہ بند ادبی جریدے سے دریافت نہیں کیا۔ ان کی کہانیاں سب سے پہلے سب رنگ ڈائجسٹ میں پڑھیں۔ نیر مسعود کو بھی وہیں پایا تھا۔ طاوس چمن کی مینا کس کو یاد نہیں؟
میری خوش قسمتی کہ اسد محمد خان کے دستخط والی کتابیں میری لائبریری میں ہیں۔ ان سے ادھر ادھر چند ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ میں نے انھیں کم گو پایا۔ ایک تقریب میں سب اظہار خیال کررہے تھے۔ ان کی باری آئی تو تقریر کرنے کے بجائے ایک مختصر کہانی سنادی۔ مجھے اچھا لگا۔ میں نے بعد میں ان کی تقلید کی۔ کبھی کسی تقریب میں بلایا گیا تو انٹ شنٹ بکواس کرنے کے بجائے اپنی الٹی سیدھی کہانیاں سناکر آگیا۔
اسد محمد خان اور مشتاق احمد یوسفی بالکل مختلف ادیب ہیں لیکن دونوں میں ایک قدر مشترک ہے۔ دونوں پہلی بار کا لکھا ہوا قاری کو پیش نہیں کرتے۔ یوسفی صاحب اپنی تحریر برسوں پال میں لگاکر رکھے رہتے تھے۔ اسد محمد خان نے مبین مرزا کو بتایا کہ وہ بھی تحریر کو بار بار ایڈٹ کرتے ہیں۔ کبھی سولہ سترہ بار لکھتے ہیں تو افسانہ بنتا ہے۔ اتنی محنت اب کون کرتا ہے؟
اسد محمد خان مجھے ایک اور وجہ سے بھی پسند ہیں۔ شمس الرحمان فاروقی اور بہت سے نقاد کہتے ہیں کہ افسانہ نگار کو خدا کی طرح کہانی سنانی چاہیے۔ یعنی وہ خود افسانے میں کہیں موجود نہ ہو۔ منٹو نے بھی اس کا خیال رکھا۔ صرف ایک بار فرہاد زیدی کے کہنے پر ایسا افسانہ لکھا جو "میں” سے شروع ہوتا تھا۔ لیکن اسد صاحب اپنے بہت سے افسانوں میں خود موجود ہیں۔ بعض اوقات آپ کو اندازہ ہی نہیں ہوگا کہ وہ افسانہ سنارہے ہیں یا آپ بیتی بیان کررہے ہیں۔
جنگ میں میری پہلی کہانی تیس سال پہلے چھپی تھی۔ تب سے آج تک میں نے شعوری طور پر یہ کوشش کی ہے کہ اپنی کہانیوں میں خود موجود رہوں۔ اس طرح کہانی لکھنا مشکل ہوتا ہے کیونکہ آپ دوسرے کرداروں کی سوچ بیان نہیں کرسکتے۔
میں نے گوگل ڈرائیو کے ایک فولڈر میں اسد محمد خان کی کتابیں ڈال کر لنک کتب خانے والے گروپ میں شئیر کردیا ہے۔ باسودے کی مریم، شہر کوفے کا ایک آدمی اور غصے کی نئی فصل ان کے مشہور افسانے ہیں۔ لیکن آپ کو وقت ملے تو عون محمد وکیل، نصیباں والیاں اور برجیاں اور مور ضرور پڑھیں۔
عون محمد وکیل: اصل میں پولیس نے کاکے کے خلاف بلاسفیمی کا کیس درج کیا ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ لوگ اسے جان سے نہ مار دیں۔
نصیباں والیاں: ساری یندگی اناں گشتیوں، نصیباں والیوں نے اپنی وہ کرا کرا کے پے ہا کٹھا کیتا سی۔ تے ہن، لئو جی، تجوری خالی پئی ہے
برجیاں اور مور: پنڈت کوکا کاشمیری کے سب شاستر پڑھے بیٹھی تھی، سمجھو علم مسہری کی منتہی تھیں یہ لیلا بائی۔
اسد محمد خان نے بہت سے گیت بھی کہے ہیں جو ان کی کتاب رکے ہوئے ساون میں شامل ہیں۔ نظمیں بھی کہیں جن میں "چودہ کروڑ کی مناجات” کا درجہ بلند تر ہے۔ حفیظ جالندھری کی فارسی نظم کے بجائے اسے پاکستان کا قومی ترانہ بنادینا چاہیے۔
یا دافع الاشرار
ہمیں کافروں کے شر سے محفوظ رکھ
کسی بھی مشرک، ملحد، زندیق، غیر مقلد، غیر کفو کے رو بہ رو خجل نہ ہونے دے
ہمیں سرخ روئی عطا فرما
مولا، اب تو کچھ ایسا ہو کہ ایک فزی سسٹ ہماری ہی صفوں سے اٹھے
جو کھڑے ہوکر سلام پڑھتا ہو
کہ جیبوں میں ڈھیلے لے کر چلتا ہو
جو اسٹاک ہوم کے چو رستوں میں قینچیاں مارے
کہ مشرکین بیرونی اور کفار مقامی کا پتا پانی ہووے
بار الہا
کچھ ایسا ہو کہ فلاں فلاں ملک کی مثال ہم پیٹرول اور بے شمار معدنیات سے مونہا مونھ بھر جائیں
تاکہ ہم روزناموں کی شہ سرخیوں میں
تاکہ ٹیلی وژن کی اسکرینوں پر
تاکہ یونیورسٹیوں میں
تاکہ چو رستوں، ہوائی اڈوں پر
تاکہ ڈاک کے ٹکٹوں پر
ہم آرام سے تیرے نام کا بھنگڑا ڈال سکیں
اور ملحدوں کافروں مشرکوں کی بستیوں کی جانب منھ پر کلائیاں رکھ کر
آرام سے بکرا بلاسکیں
یا نافع الانعام
ہمارے بکرے جوع البقر سے
ہماری گائیں گھوڑوں سے
ہمارے گھوڑے اصطبلوں سے
ہمارے اصطبل کتابوں سے معمور رہیں
اور اس معمورے میں ہماری بڑھکوں کے سوا کان پڑی آواز سنائی نہ دے، آمین
اور اگر یہ سب مناسب نہ ہو تو
اے صاحب الکلام
وہ تیرے نام کا زر مبادلہ بلند کرنے اپنے گھروں سے نکلے ہیں
اپنی نصرت بھیج، ہمارے قوالوں کے حلق کشادہ کر
ہمارے ڈوم ڈھاڑیوں کو زمین میں پھیل جانے کا اذن دے
یا صاحب الجنود، یا فاتح الہنود والیہود
ہمارے کھلاڑیوں ہی کو ہر نوع کی سربلندی عطا کر
کہ اب تو وہی ہمارا اثاث البیت ہیں
اور اے مالک الجندل
ہمارے دشمنوں کو اب اندر سے سنگسار فرما
ان کی میانوں میں برف باری کر، دھماکے فرما
اور ہاں اے مالک الملک
ہو نہ ہو یہ شخص ا م خ دل آزار آدمی ہے
کہ برابر لکھ لکھ کے دل آزاری کا ارتکاب کیے جاتا ہے
پس اے لایزال، اے لامکاں، اے لازمان
الامان، الامان، الامان

یہ بھی پڑھیں:

مبشرعلی زیدی کے مزید کالم پڑھیں

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

About The Author