مئی 16, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

میری ہر کہانی کے ساتھ ایک نام شائع ہوتا ہے ۔۔۔||مبشرعلی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک وقت تھا کہ محی الدین نواب کو بہت کم لوگ جانتے تھے لیکن فرہاد علی تیمور کے ہزاروں یا شاید لاکھوں پرستار تھے۔ ٹیلی پیتھی یا خیال خوانی ایک ایسا دلچسپ موضوع ہے جو دیومالائی کہانیوں جیسا پراسرار ہے لیکن غیر حقیقی بھی نہیں۔ سسپنس ڈائجسٹ میں دیوتا کے آغاز پر کسی نے نہیں سوچا ہوگا کہ طویل ترین کہانی کا عالمی ریکارڈ بن جائے گا۔ لیکن ایسا ہوا۔ 33 سال ایک نسل کی عمر نہیں، ایک زمانہ ہوتا ہے۔ اور یہ غیر معمولی زمانہ تھا جو ہم نے دیکھا۔ اس دوران پاکستان میں پرائیویٹ ٹی وی چینل آئے، کمپیوٹر اور اسمارٹ فون آیا اور سوشل میڈیا نے سب کی لٹیا ڈبو دی۔ میں سمجھتا ہوں کہ دنیا میں اتنی تبدیلیوں کی وجہ سے ڈائجسٹ اپنی مقبولیت کھو بیٹھے ورنہ محی الدین نواب کہانی لکھتے ہوئے نہیں تھکے تھے۔ اگر انھیں اور زندگی ملتی اور ڈائجسٹوں کے قاری دستیاب رہتے تو فرہاد علی تیمور آج بھی دیوتا ہوتا۔
میں نے دیوتا میٹرک میں پڑھنی شروع کی تھی۔ اس وقت دیوتا کو سسپنس میں چھپتے ہوئے دس گیارہ سال ہوچکے تھے۔ کم لوگ جانتے ہوں گے کہ دیوتا پہلی سلسلے وار کہانی تھی جو کتابی صورت میں چھپنا شروع ہوئی۔ میں نے پہلا حصہ خرید کر پڑھا تو ہوش اڑ گئے۔ ہوش ربا کہانی واقعی اسے کہتے ہیں۔ ابتدائی قسطیں ہی قاری کو جکڑ لیتی ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ میرے کتنے دوستوں نے دیوتا پڑھی ہے اور انھیں یاد ہے۔ لیکن میں فرہاد علی تیمور کی زرینہ کے ساتھ پہلی رات کبھی فراموش نہیں کرسکا۔ پھر مرجانہ، رسونتی، سونیا، کیا کیا نام تھے اور کیا کیا کہانیاں۔ دیوتا مغربی دنیا میں چھپتی تو جیمز بونڈ کی طرح فرہاد علی تیمور کی لڑکیوں پر بھی کتابیں لکھی جاتیں۔ محی الدین نواب نے بھی مغرب سے خوب استفادہ کیا۔ جاسوسی ڈائجسٹ پبلی کیشنز میں میرے کولیگ حسام بٹ کا کہنا تھا کہ نواب صاحب نے بہت سی انگریزی کہانیاں، انگریزی ناول اور ہالی ووڈ کی فلموں کی کہانیاں دیگ میں گھونٹ کر دیوتا میں انڈیل دیں۔ لیکن بہرحال یہ کام اتنی مہارت سے کیا، اور ان کی تحریر میں اتنی کشش تھی کہ اگر کوئی جان بھی گیا تو انھیں داد دیے بغیر نہیں رہ سکا۔
ایک عجیب بات یاد آئی۔ دیوتا کو کتابی صورت میں چھاپنے والے ادارے کتابیات پبلی کیشنز نے ٹیلی پیتھی اور ہپناٹزم پر کئی کتابیں چھاپی تھیں۔ وہ میں نے بھی منگوائیں۔ بلکہ وہ آج بھی میرے پاس موجود ہیں۔ ان میں شمع بینی کی مشقیں دی ہوئی تھیں۔ میں فرہاد علی تیمور سے اس قدر متاثر ہوا کہ ایک دن خالی کمرے میں شمع جلاکر بیٹھ گیا۔ اتفاق سے چند منٹ بعد میری بڑی کزن ادھر آنکلیں۔ میں بدمزہ ہوا کہ میری مشق خراب کردی لیکن وہ پہلے حیران اور پھر غصہ ہوئیں۔ انھوں نے کہا، مبشر تمھیں کیا ہوگیا ہے؟ شمع بینی سے دماغ پر اثر ہوتا ہے۔ بندہ ہیلوسینیشن کا شکار ہوکر دیوانہ ہوجاتا ہے۔ خبردار اگر آئندہ ایسا کیا۔
میں ان کی بات سے ڈر کر باز آگیا۔ افسوس ناک بات یہ کہ میری وہ ماموں زاد بہن شادی کے بعد اسکڈزوفرینیا میں مبتلا ہوگئیں۔ جس ہیلوسینیشن سے انھوں نے مجھے بچایا، وہ خود اس میں مبتلا ہوگئیں۔ اس بیماری کے شکار افراد کی شادی نہیں کرنی چاہیے اور دوا زندگی بھر مسلسل کھلانی چاہیے۔ شادی ہوجائے تو شریک حیات کے ساتھ تعلقات متاثر رہتے ہیں اور دوا کی وجہ سے اولاد بھی نہیں ہوپاتی۔ میری کزن کی شادی ہوچکی تھی۔ انھیں بہت اچھے شوہر ملے جنھوں نے تمام مسائل کے باوجود ان کا بہت خیال رکھا۔ ان کے کئی مس کیرجز کے بعد ایک بیٹا ہوا جو ماشااللہ اب جوان ہے۔ بہن کئی سال پہلے انتقال کرگئی تھیں۔
میں فرہاد علی تیمور نہیں بن سکا لیکن محی الدین نواب بننے کی کوشش ضرور کی۔ بہت سی کہانیاں لکھیں جن میں سے چند ڈائجسٹوں میں بھی چھپیں۔ پھر ایک افسانہ ٹیلی پیتھی کا ماہر بن کر لکھا جو ڈاکٹر آصف فرخی کے ادبی جریدے دنیازاد میں چھپا۔
دیوتا کی مکمل کہانی 56 حصوں میں شائع ہوئی۔ میں نے گوگل ڈرائیو کے ایک فولڈر میں وہ تمام حصے ڈال کر لنک کتب خانے والے گروپ میں شئیر کردیا ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ آپ مکمل کہانی پڑھیں۔ میں چاہوں بھی تو کوئی نہیں پڑھے گا۔ اتنا وقت کس کے پاس ہے۔ میں بھی دس حصوں کے بعد رک گیا تھا۔ جی چاہے تو صرف ابتدائی قسطیں پڑھ لیں کہ کہانی شروع کیسے ہوئی۔
اتنا وقت بہرحال آپ کے پاس ضرور ہوگا کہ میری مختصر کہانی دیکھ لیں۔ یہ میں نے 2013 میں فیس بک پر پیش کی تھی لیکن اس وقت بہت کم لوگ میری فرینڈ لسٹ میں تھے۔ اس کا عنوان مبشر علی زیدی ہے۔ کیا آپ نے کبھی ایسی کہانی دیکھی ہے جس کا عنوان اور مصنف کا نام ایک ہی ہو؟
۔
میری ہر کہانی کے ساتھ ایک نام شائع ہوتا ہے، مبشر علی زیدی۔ مجھے اِس نام سے نفرت ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ میری کہانی کے ساتھ یہ نام کبھی شائع ہو۔ لیکن میرے پاس کوئی دوسرا نام نہیں ہے۔ لوگ مجھے اِسی نام سے جانتے ہیں۔ میں بے انتہا نفرت کرنے کے باوجود اِسی نام کے ساتھ زندہ ہوں۔
لکھنے والے اپنے نام سے بہت محبت کرتے ہیں۔ وہ بار بار اپنا نام لکھ کے دیکھتے ہیں۔ نام چھپ جاتا ہے تو اُسے بار بار چومتے ہیں۔ میں یہ نام لکھتا نہیں ہوں، کاٹتا ہوں۔ جب یہ نام چھپ جاتا ہے تو پھر یہ مجھے کاٹتا ہے۔ کہیں آپ یہ تو نہیں سمجھ رہے کہ میرے دماغ میں کوئی کیڑا ہے اور وہ مجھے کاٹ رہا ہے؟
آج میرے منہ میں کڑواہٹ بھری ہوئی ہے اور جی چاہ رہا ہے کہ اپنی زندگی کا کڑوا سچ آپ کو بتادوں۔
یہ برسوں پہلے کی بات ہے جب میں ملتان میں رہتا تھا۔ ایک بار میں نے ایک مست ملنگ دیکھا جو دنیا کی نظر میں دیوانہ تھا۔ اس کی آنکھوں میں عجیب سی چمک تھی۔ وہ کبھی ایک مزار پر جاتا، کبھی دوسرے پر۔ کبھی بھیک مانگتا اور کبھی نہ مانگتا۔ کبھی بھنگ گھوٹتا اور کبھی کشکول توڑکے تپتی دوپہر میں ننگا پڑا رہتا۔ لیکن میں نے اُس کا ایک کمال دیکھ لیا تھا۔ اُس کے بعد میں ملنگ کا پیچھا کرنے لگا۔ وہ دیوانہ مجھے اپنے تعاقب میں دیکھ کے ہُشیار ہوگیا۔
ایک دن ملنگ بابا چلتے چلتے پلٹا اور اچانک میرا گلا پکڑکے بولا، تم کیوں میرا پیچھا کرتے رہتے ہو؟ پہلے میں ذرا گھبرایا لیکن پھر اُس کے کان میں بتادیا کہ کیوں اُس کا پیچھا کرتا رہتا ہوں۔ آپ کو بتاؤں؟ آپ یقین کریں گے؟
میں نے اُس سے کہا کہ تم اتنے غلیظ ہو تو حسین لڑکیاں کیسے تمھارے پھندے میں پھنس جاتی ہیں۔ دن میں جو لڑکی مزار پر حاضری دینے آتی ہے، رات کو وہ تمھاری کوٹھری میں حاضری دینے کیسے آجاتی ہے؟ بعد میں وہ شور کیوں نہیں مچاتی؟ مجھے حسین لڑکیاں پھنسانے کے گر بتاؤ نا، وہ والے منتر سکھاؤ نا۔
خبیث ملنگ نے اپنے جیسے خبیث کو دیکھا تو سچ بتادیا۔ کہنے لگا، یہ تو میں ٹیلی پیتھی سے کرتا ہوں۔ لڑکی کے دماغ پر قبضہ کرلیتا ہوں، پھر کنواں خود چل کے پیاسے کے پاس آجاتا ہے۔
مجھے ٹیلی پیتھی سکھاؤ گے؟ ہاں سکھاؤں گا۔۔۔ لیکن کیا تم میری طرح ملنگوں جیسی زندگی گزارو گے؟ ہاں گزاروں گا۔
ملنگ نے پہلے مجھے سوچ کے ذریعے پیغام بھیجنا سکھایا۔ پھر دوسرے کی سوچ پڑھنے کا طریقہ بتایا۔ سب سے آخر میں دوسروں کے دماغ پر قبضہ کرنا سکھادیا۔
یہ تربیت دو چار مہینوں میں نہیں ہوئی، چار پانچ سال لگ گئے۔ ہم ایک دوسرے سے زبان ہلائے بغیر باتیں کرتے۔ میں مزاروں پر آنے والوں کی آنکھوں میں جھانک کے اُن کی سوچیں پڑھتا رہتا۔ ملنگ کے کہنے پر کبھی کبھی دوسروں کے دماغ پر قبضہ بھی کرلیتا تھا۔
ایک دن ملنگ نے کہا کہ اُسے کچا کھوہ جانا ہے۔ میں نے ایک کار والے کے دماغ پر قبضہ کیا اور وہ بڑی شرافت سے ہمیں بٹھاکے کچا کھوہ کی طرف چل پڑا۔ لیکن ہوا کیا کہ ہمارے قبضے میں صرف ہمارا ڈرائیور تھا، دوسرے ڈرائیور نہیں۔ خانیوال کے قریب ایک تیز رفتار بس نے ہماری کار کو ٹکر ماردی۔
مجھے ہوش آیا تو نشتر اسپتال میں تھا۔ میرا پورا جسم پٹّیوں میں بندھا ہوا تھا۔ ایک نرس نے بتایا کہ ملنگ اور ڈرائیور حادثے میں جاں بحق ہوگئے۔ میرا جوڑ جوڑ زخمی تھا۔ بڑا ڈاکٹر آیا تو اُس نے بتایا کہ مجھے کئی ہفتے اسپتال میں رہنا پڑے گا۔
نشتر اسپتال بہت تکلیف دہ جگہ تھی۔ یہ ملتان کا سب سے بڑا اسپتال ہے۔ اس میں ضلع بھر کے مریض اور زخمی آتے ہیں۔ سب کو طرح طرح کی بیماریاں اور زخم لگے ہوتے ہیں۔
میرے پاس دل چسپی کا واحد سامان یہ تھا کہ میں مریضوں اور اُن کے تیمارداروں کے ذہن پڑھتا رہتا تھا، اُن کے دماغوں میں جھانکتا رہتا تھا۔ اور بس، بستر پر پڑا رہتا تھا۔
ایک دن میں نے سوچا، برابر کے بستر پر پڑے ذہنی مریض کے دماغ میں جھانکنا چاہیے۔ دیکھیں تو سہی کہ جن لوگوں کے دماغ ٹھیک سے کام نہیں کرتے، وہ کیا سوچتے ہیں، انھیں کیسے خیال آتے ہیں۔
رات کو میں اُس ذہنی مریض کے دماغ میں گھسا تو مجھے نیا تجربہ ہوا۔ مجھے معلوم ہوا کہ اُس کے دماغ میں خرابی ہے اِس لیے اندر گھسنے کا تو راستہ ہے لیکن باہر نکلنے کا نہیں۔
میں نے بہت کوشش کی، سارا زور لگالیا، ہر طریقہ آزمایالیا لیکن اُس دماغ سے باہر نہیں نکل سکا۔
بہت سال گزرگئے، میں نہیں جانتا کہ اب میرا اپنا جسم کہاں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ وہیں نشتر اسپتال میں پڑا ہو اور ڈاکٹر سمجھ رہے ہوں کہ میں کومے میں ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ میرا جسم مرچکا ہو اور اُس سے میرا کبھی کوئی رابطہ نہ ہوسکے۔
میں برسوں سے اِس انوکھی اور عجیب و غریب مشکل میں گرفتار ہوں، اپنا اچھا بھلا جسم چھوڑکے اِس پاگل کی کھوپڑی میں قید ہوں۔ اِس پاگل کو دنیا مبشر علی زیدی کے نام سے جانتی ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ میں جو کہانیاں لکھتا ہوں، اُن کے ساتھ یہ نام کبھی شائع ہو۔ لیکن میرے پاس کوئی دوسرا نام نہیں ہے۔ لوگ مجھے اِسی نام سے جانتے ہیں۔ میں بے انتہا نفرت کرنے کے باوجود اِسی نام کے ساتھ زندہ ہوں۔

یہ بھی پڑھیں:

مبشرعلی زیدی کے مزید کالم پڑھیں

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

%d bloggers like this: