اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

’پاکستان میں سروائیکل کینسر میں مبتلا 64 فیصد خواتین زندہ نہیں رہتیں‘||فہمیدہ یوسفی

طبی ماہرین کے مطابق پاکستانی خواتین میں سب سے زیادہ  جو کینسر عام ہے وہ چھاتی کا  کینسر ہے اس حوالے سے آگہی مہم بھی چلائی جاتی ہے ۔لیکن پاکستانی خواتین میں چھاتی کا کینسر ہی نہیں بلکہ سروائیکل کینسر بھی خطرناک حد تک بڑھتا جارہا ہے

فہمیدہ یوسفی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان میں خواتین میں کینسر کے بڑھتے کیسز کے حوالے سے عدم توجہی تشویشناک ہے ۔ پاکستان میں قومی سطح پر  کینسر کے مریضوں کی تعداد کے لیے کوئی سینٹرل ڈیٹا یا کینسررجسٹری موجود نہیں ہے ۔

طبی ماہرین کے مطابق پاکستانی خواتین میں سب سے زیادہ  جو کینسر عام ہے وہ چھاتی کا  کینسر ہے اس حوالے سے آگہی مہم بھی چلائی جاتی ہے ۔لیکن پاکستانی خواتین میں چھاتی کا کینسر ہی نہیں بلکہ سروائیکل کینسر بھی خطرناک حد تک بڑھتا جارہا ہے

 آپ کو یہ جان کر شدید حیرت ہوگی کہ سال 2022 میں اٹھائیس ہزار خواتین سروائیکل کینسر کی وجہ سے اپنی جان کی بازی ہارگئی ۔

سروائیکل کینسر پاکستان میں سر اور گردن اور چھاتی کے کینسر کے بعد تیسرا سب سے عام کینسر بن گیا ہے اور تقریباً 64 فیصد پاکستانی خواتین جن کو یہ کینسر ہوتا ہے مر جاتی ہیں کیونکہ خواتین شرم جھجھک ڈر خوف اور لاعلمی کے باعث  اس کینسر کے حوالے سے تب بات کرتی ہیں  جب یہ تیسرے یا چوتھے مرحلے میں تقریباً لاعلاج ہوچکا ہوتا ہے ۔

سروائیکل کینسر کیا ہے ؟

 طبی ماہرین کے مطابق سرواٗئیکل کینسر خواتین میں تولیدی عضو کا کینسر ہے  جس میں سرویکس میں خلیات کی غیر معمولی نشونما ہونے لگتی ہے  عام طور پر سروائیکل کینسر کو جسم میں پھیلنے کے لیے دس سے بیس سال کا دورانیہ درکار ہوتا ہے ۔

ابتدائی مراحل میں اس کی کوئی خاص علامات نہیں ہوتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ  خواتین اس بیماری کے وجود سے بے خبر رہتی ہیں  اور  جب تک انہیں اس کا اندازہ ہوتا ہے تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے ۔

 اس مرض کی ابتدائی علامات میں  ماہانہ ایام کے دوران غیر معمولی مقدار میں خون آنا، ماہانہ ایام کا زیادہ عرصے تک جاری رہنا، سرویکس میں درد محسوس ہونا اور پیشاب کی بار بار ضرورت محسوس ہونا شامل ہیں۔

پاکستانی معاشرے میں خواتین کی تولیدی صحت کے بارے میں بات کرنا ممنوع سمجھا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے  بہت سی خواتین اپنے گھر والوں کو اپنی صحت کی حالت کے بارے میں  نہیں بتاتی ہیں ۔خاص طور پر سروائیکل کینسر کی صورت میں ڈاکٹر کے پاس اس وقت جاتی ہیں   جب ان کی بیماری بڑھ جاتی ہے۔

 سروائیکل کینسر کی  سب سے  بڑی علامت یہ ہے کہ جب یہ  بیماری گھمبیر ہو جانے کے بعد Vaginal Bleeding ہوتی ہے جو Menstruation Period سے مختلف ہوتی ہے۔ طبی ماہرین  کے مطابق  سروائیکل کینسر کی علامات  کے حوالے سے آگاہی موجود ہو تو  قیمتی جانوں کو بچایا جا سکتا ہے ۔

PAP Smear ٹیسٹ:

معروف گائنالوجسٹ  ڈاکٹر طاہرہ کاظمی نے  بتایا کہ پیپ سمیر ٹیسٹ کا سہرا ایک یونانی ڈاکٹر Georgios Papanikolaou کے سر بندھتا ہے جس نے سیلز کی مدد سے کینسر کو پہچاننے کا طریقہ دریافت کیا اور اسی لئے اس ٹیسٹ کو پیپ سمیر کہا جاتا ہے۔

 اس ٹیسٹ کے حوالے سے ڈاکٹر صاحبہ نے بتایا  کہ یہ ٹیسٹ  رحم کے منہ یعنی سروکس ( cervix) سے لیا جاتا ہے۔ تیس برس کی عمر کے بعد ہر خاتون کو یہ ٹیسٹ کروانا چاہیے۔

کیونکہ  چھاتی کے کینسر کے بعد سب سے زیادہ شرح سروکس کے کینسر کی ہے اور اکثر اوقات کینسر ہونے کا پتہ ہی نہیں چلتا۔ یہ ٹیسٹ کینسر شروع ہونے سے پہلے ہی بتا دیتا ہے کہ سروکس کے سیل نارمل نہیں رہے، سو ضرورت ہے کہ احتیاطی تدابیر اختیار کرلی جائیں“

اگر PAP Smear ٹیسٹ کی رپورٹ پریشان کن ہو تو پھر ؟؟

پیپ سمیر تیس برس کی عمر سے لے کر پینسٹھ برس کی عمر تک ہر تین برس کے وقفے سے کیا جاتا ہے۔ اگر کبھی کسی مرحلے میں کوئی ابنارمیلٹی ملجائے تو باقی مراحل کی باری آتی ہے۔

اگر PAP smear ٹیسٹ کی رپورٹ خوش آئند نہ ہو تو ایسی صورت میں کیا کرنا چاہیے ۔ اس حوالے سے ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کا بتانا ہے کہ

اگلے مرحلے میں سروکس کو ایک مائکرو سکوپ ( colposcope) نامی مشین کی مدد سے دیکھا جاتا ہے اور متاثرہ حصے کی بائیوپسی لی جاتی ہے ۔ جبکہ اس عمل میں مریض کو کسی بے ہوشی کی ضرورت نہیں پڑتی اور بائیوپسی لینا زیادہ تکلیف دہ امر نہیں ہوتا۔ درد کی شکایت میں پیراسٹامول دینا ہی کافی رہتا ہے۔

سروکس کے سیلز کا رجحان کینسر کی طرف بڑھنے کو CIN یا carcinoma in situ کہا جاتا ہے۔ اگر سروائیکل کینسر پہلے اسٹیج میں ہو تو ایسی صورت میں  پہلا حل تو یہ ہوتا ہے کہ

رحم کا منہ یعنی سروکس کے ایک حصے کو کاٹ کو نکال دیا جائے۔ اس کے لئے دو تین طریقے اختیار کیے جاتے ہیں ( Cone biopsy اور LLETZ) ۔یہ آپریشن ویجائنا کے راستے کیا جاتا ہے  اور بے ہوشی  کرکے کیا جاتا ہے۔

لیکن اس کے بعد بھی  مریض  کو وقفے وقفے سے پیپ سمیر کرواتے رہنا ہوتا ہے تاکہ کہ کوئی بچا کھچا سیل کہیں کسی خرابی کا باعث تو نہیں بن رہا ۔

 جبکہ دوسرا حل حم ہی آپریشن کے ذریعے نکلوا دیا جائے ۔

Human Papillomavirus

 Human papiloma virus کے نام سے پایا جانے والے وائرس کے حوالے سے ڈاکٹر صاحبہ کا بتانا ہے کہ  اس وائرس نشانہ کرونا وائرس کی طرح گلا یا پھیپھڑے نہیں بلکہ مرد و عورت کے جنسی اعضا ہوا کرتے ہیں۔

یہ انفیکشن مرد سے عورت، عورت سے مرد، مرد سے مرد اور عورت سے عورت کو بذریعہ جنسی تعلقات منتقل ہوتی ہے۔ بعض دفعہ وائرس کوئی علامات پیدا نہیں کرتا لیکن بہت سے مریضوں میں چھوٹی چھوٹی لحمیاتی پھنسیاں نکل آتی ہیں جنہیں وارٹس ( warts ) کہا جاتا ہے۔ مرد کے بیرونی جنسی اعضا اور عورت کے بیرونی اور اندرونی جنسی اعضا پہ ان پھنسیوں کا موجود ہونا HPV انفیکشن کا ثبوت ہے۔

وائرس زیادہ تر جنسی کاروبار میں ملوث افراد میں پایا جاتا ہے اور وہیں سے مختلف لوگوں میں منتقل ہوتا ہے۔ HPV کی منتقلی کسی اور طریقے سے ممکن نہیں۔

ان وارٹس کا علاج لیزر یا بجلی کے ذریعے کیا جاتا ہے جہاں ان پھنسیوں کو جلایا جاتا ہے۔ یہ پھنسیاں ایک دفعہ جلانے سے ختم نہیں ہوتیں سو یہ عمل کئی دفعہ دہرانے کی ضرورت پڑتی ہے۔

خواتین کو اگر یہ انفیکشن حمل کے دوران ہو جائے تو طبعی زچگی کے نتیجے میں انفیکشن نوزائیدہ کو منتقل ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔

اس انفیکشن کا سب سے بڑا خطرہ خواتین میں رحم کے منہ سروکس ( cervix) کا کینسر ہے جو وائرس کی ایک خاص قسم HPV 16 اور HPV 18 کا شکار بنتی ہیں۔ کینسر کے ستر فیصد مریضوں میں سبب HPV ہی ہوتا ہے۔

HPV ویکسینشن :

تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ ہر عمر کی عورت پر ویکسینیشن کے اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ویکسینیشن اور اس کے ساتھ باقاعدہ سکریننگ سے کچھ نہ کرنے کے مقابلے میں سروائیکل کینسر ہونے کے امکانات 94 فیصد کم ہو جاتے ہیں.

سرواٗئیکل کینسر سے بچنے کے لئے بچیوں کو یہ ویکسین گیارہ سے بارہ برس کی عمر میں لگائی جاتی ہے۔ بچیوں کو اوائل شباب میں ویکسین لگانے کی وجہ محض یہ ہے کہ نوعمری میں ویکسین لگانے سے اس کی افادیت زیادہ ہوتی ہے اور کسی بھی واسطے سے انفیکشن منتقل ہونے کا تحفظ تمام عمر رہتا ہے۔

اس ویکسین کے خلاف کافی مزاحمت یہ کہہ کر کی گئی کہ بحیثیت مسلمان ہمارے بچے کہاں اس نوعیت کے جنسی تعلق میں مبتلا ہوا کرتے ہیں؟ یا یہ تو بچوں اور بچیوں کو مزید شہ دینے والی بات ہے۔

سوچنے والی بات محض یہ ہے کہ اگر ایسا ہی ہے تو پھر ہمارے معاشرے میں بے شمار افراد اس انفیکشن کا شکار کیوں ہوتے ہیں؟

ویکسینیشن اور اس کے ساتھ باقاعدہ سکریننگ سے کچھ نہ کرنے کے مقابلے میں سروائیکل کینسر ہونے کے امکانات 94 فیصد کم ہو جاتے ہیں۔

  حکومت کو چاہیے کہ ملک میں کینسر کی مختلف اقسام  کی وجوہات  اور پھیلاؤ کا پتہ لگانے کے لیے فوری طور پر قومی سطح پر کینسر کی رجسٹری شروع کریں اور لاکھوں نوعمر لڑکیوں کو قابل علاج کینسر سے بچانے کے لیے ویکسینیشن مہم شروع کرے

سندھ میں ایچ پی وی ویکسینیشن کے آغاز کی ٹائم لائن کے بارے میں جواب دیتے ہوئے پراجیکٹ ڈائریکٹر ایکسپینڈڈ پروگرام آن امیونائزیشن (ای پی آئی) ڈاکٹر ارشاد میمن  کا کہنا ہے کہ ان کا ویکسینیشن شروع کرنے کا منصوبہ ہے، لیکن کوئی ٹائم لائن نہیں دی جا سکی کیونکہ اس مہم کو حاصل کرنے کے لیے کروڑوں ڈالر درکارہیں ۔

ویکسین، اور مون سون کے سیلاب سے ہونے والی تباہی کے اس وقت یہ ممکن نہیں ہو سکا۔انہوں نے کہا کہ محکمہ صحت نے صوبے میں ایچ پی وی ویکسینیشن پر ایک ٹاسک فورس بنائی تھی جس کی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا پیچوہو اس کی چیئرپرسن تھیں اور انہوں نے مزید کہا کہ وہ تقریباً 30 لاکھ لڑکیوں کو ایچ پی وی ویکسین کی خریداری کے لیے بین الاقوامی ڈونر ایجنسیوں سے بات چیت میں مصروف ہیں۔

سروائیکل کینسر سے بچاؤ ممکن ہے؟

 ماہرین کا کہنا ہے کہ  اس کینسر کی بنیادی وجہ ایچ پی وی وائرس ہے، اس لیے اس وائرس کے خلاف ویکسین لگوانے سے اس کینسر سے بچا جا سکتا ہے۔

جبکہ  Safe Sex  یعنی  کنڈوم کے استعمال سے بھی اس وائرس کی منتقلی سے بچا جا سکتا ہے۔

خوراک میں سبزیاں اور پھل جیسے سیب، لوبیا، بروکلی، گوبھی، ادرک، لہسن، ساگ، پیاز، گاجر، مالٹے، اور سٹرابیری وغیرہ شامل کرنے سے کینسر کے امکانات کم کیے جا سکتے ہیں۔

نوجوانوں کو  جنسی تعلیم، سیف سیکس (کنڈوم کا استعمال) ، اور خواتین کا سگریٹ نوشی چھوڑنے سے اس کینسر سے بچاؤ ممکن ہے

شادی شدہ خواتین میں سرویکس کا باقاعدگی سے معائنہ کیا جانا چاہیے ۔

اپنے جنسی پارٹنر تک محدود رہنا بھی اس کینسر سے بچاؤ میں مددگار ہے

  سروائیکل کینسر سے آگاہی اور بروقت تشخیص اور سکریننگ سے اس کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔

سروائیکل کینسر ہمارے ملک میں کیوں پھیل رہا ہے؟

بدقسمتی سے ہمارے ہاں  کینسر کے مریضوں کی کوئی رجسٹری یا ڈیٹا بیس نہیں ہے اور نہ ہی  کینسر سے بچاؤ کا کوئی پروگرام ہے اور نہ ہی سکریننگ کے لیے مناسب انتظام موجود ہے۔

اس کے علاوہ تعلیم کی کمی، غربت، اور بنیادی صحت کی سہولیات تک رسائی نہ ہونا بھی اس کینسر کے پھیلنے کی وجوہات ہیں

 لیکن احتیاط اور آگہی سے سروائیکل کینسر سے بچاﺅ ممکن ہے

یہ بھی پڑھیے:

%d bloggers like this: