حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترمہ جمیلہ ہاشمی مرحومہ یقیناً اپنے عصر کی بڑی ادیبہ تھیں۔ پڑھنے والے ان کی لکھتوں سے اب بھی فیض یاب ہوتے ہیں۔ جمیلہ ہاشمی کا ایک تعارف یہ ہے کہ وہ بہاولپور کے صوفی پیر اویسی خاندان کی بہو تھیں۔ دوسرا تعارف ان کی صاحبزادی محترمہ عائشہ صدیقہ ہیں۔ عصری سیاست اور دفاعی شعبہ کی صاحب الرائے تجزیہ کار۔
مگر اصل تعارف یہی ہے کہ وہ (جمیلہ ہاشمی) ایک بلند پایہ ادیبہ تھیں۔ ویسے تو ہر صاحب الرائے، ادیب اور دانشور اپنی فہم کے ساتھ ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ ہمارا بطور طالب علم ان سے پہلا تعارف ان کی تصنیف ’’دشتِ سوس‘‘ سے ہوا۔
’’دشتِ سوس‘‘ حسین بن منصور حلاج پر لکھا گیا ناول ہے۔ ظاہر ہے کہ ناول کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ بہت پہلے جب عصمت چغتائی نے واقعہ کربلا کو اپنے ناول ’’اک قطرہ خون‘‘ کا موضوع بنایا تب بھی یہ سوال اٹھا تھا کہ کیا کربلا کے پس منظر پر لکھا گیا ناول اس موضوع پر ابلاغ کا حق ادا کرپایا؟
اس ناول کی اشاعت کے بعد بڑی لے دے بھی ہوئی۔ مذہبی حلقوں نے کربلا کو ناول کا موضوع بنائے جانے پر اعتراضات اٹھائے۔ ادب کے طالب علموں کا خیال تھا کہ ناول نگار کو مذہبی تقدسات کی اس فہم کا پابند نہیں کیا جاسکتا جو مذہبی حلقوں اور متاثرین کے عام حلقوں میں معروف ہو۔
جمیلہ ہاشمی کے حسین بن منصور حلاج پر لکھے گئے ناول ’’دشتِ سوس‘‘ پر بھی بڑی لے دے ہوئی۔ بہت سارے سوالات سامنے آئے۔ کہا گیا کہ ادیبہ نے اپنے ناول میں رنگ آمیزی اتنی کردی کہ حسین بن منصور حلاج کی شخصیت اور ان کی فہم دونوں کو متنازعہ بنادیا گیا۔
کچھ باتیں ایسی بھی حلاج سے منسوب کردی گئیں جن کا حقیقت میں وجود نہیں تھا۔ بات بڑی حد تک درست تھی لیکن ناول اور سوانح حیات میں بہرطور فرق ہوتا ہے۔
ایک رائے یہ بھی تھی کہ چونکہ پیروں (صوفیاء نہیں) کے اکثر سلسلے حلاج کی شخصیت اور فہم کے معاملے میں عباسی دربار سے منسلک ملائیت کی فکر کے حامی ہیں اوران سلسلوں کے پیروکاروں نے حلاج کی فکر کو مسخ کرکے پیش کرنے میں کبھی کوئی کسر نہیں اٹھارکھی۔
مثلاً عباسی دربار کے متعلقین نے حلاج پر کفر و الحاد کے جو الزامات لگائے یہی الزامات انہیں سولی پر چڑھانے کا ذریعہ بنے۔ ’’دشتِ سوس‘‘ کی مصنفہ نے ان میں مزید رنگ آمیزی کرکے حلاج پر ستم ڈھایا۔
بات پھر وہی ہے کہ کیا ناول سوانح حیات ہے یا کسی شخص کی فہم کے تجزیہ کو کہتے ہیں ? ۔
ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ البتہ تاریخی شخصیات اور واقعات کو ناول کا موضوع بنانے والوں کو اس امر کو بہرصورت مدنظر رکھنا چاہیے کہ شخصیت کا حقیقی تاثر اور اس کا علمی مرتبہ اور فہم مسخ نہ ہوں۔
تمہید کچھ طویل ہوگئی۔ اس تمہید کی وجہ عکس پبلیکیشن لاہور کے زیراہتمام حال ہی میں مرحومہ جمیلہ ہاشمی کے ناول ’’چہرہ بچہرہ روبرو‘‘ کی اشاعت ہے۔
’’چہرہ بچہرہ روبرو‘‘ 1979ء میں شائع ہوا تھا۔ یہ ناول ایرانی شاعرہ اور روایتی شیعی ملائیت کی باغی قرۃ العین طاہرہ پر لکھا گیا۔
قرۃالعین طاہرہ روایتی ملائیت کی باغی تھیں یا اس نئی فہم کی حامی جس نے ایک نئے عقیدے کی بنیاد ڈالی۔
اس سوال پر ایک جواب تو بہت ہی آسان ہے وہ یہ کہ کسی قدیم عقیدے میں بدلتے وقت کے ساتھ نئی فہم کے علمبردار بظاہر یہی کہتے ہیں کہ ہماری فہم سخت گیر پاپائیت اور حبس بھرے ماحول میں تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔
لیکن آگے چل کر ہر نئی فہم اپنے ماخذ سے زیادہ شدت پسند ثابت ہوتی ہے۔
اس کالم میں چونکہ ہم قرۃ العین طاہرہ اور ان کے ہم خیالوں کی نئی مذہبی فہم پر بحث کررہے ہیں نہ ہی مکتب امامت سے مختلف اوقات میں الگ ہوئے گروہوں کے عقائد اور نئی امامت یا حاضر امام کی ان کی فہم کا تجزیہ اسی لئے یہ ہمارا موضوع نہیں ہے کہ شیعت یا اسماعیلی عقائد میں حاضر امام کا مقام و مرتبہ کیا ہے یا اس سے الگ ہوکر نئے عقیدے کی بنیاد رکھنے والے جو آگے چل کر بابی یا بہائی کہلائے اور اب بھی کہلاتے ہیں ان کے ہاں تصور و مقام امامت کیا ہے؟
برصغیر میں جب فارسی دانی کا رواج تھا تو اس عرصہ میں یہاں فارسی زبان کے شعراء متعارف ہوئے۔ غالباً قرۃ العین طاہرہ بھی اسی عرصہ میں ہی متعارف ہوئیں ۔ وحدت اور علم کی یکجائی ان کی حقیقی فہم رہی یا روایتی ملائیت کے مقابلہ میں وہ ایک نئے نظریہ امامت کی علمبردار تھیں ؟
اس کا سادہ جواب یہی ہے کہ وہ ایک نئی مذہبی سوچ کی مبلغہ تھیں۔ فارسی زبان کی اس بلند پایہ شاعرہ کے بارے میں ڈاکٹر صابرآفاقی اور دیگر تحریر نویسوں کا یہ کہنا ہے کہ وہ شاعرہ کے ساتھ ساتھ غضب کی خطیبہ بھی تھیں۔
اپنے سحر انگیز خطابت کو انہوں نے بابی عقائد کی ترویج کے لئے اظہار کا ذریعہ بنایا۔
جمیلہ ہاشمی مرحومہ کا ناول ’’چہرہ بچہرہ روبرو‘‘ مہینہ بھر قبل عکس پبلیکیشن کے روح رواں برادرم نوفل جیلانی نے ہمیں بھجوایا۔ ان کے ادارے نے پچھلے چند برسوں میں اپنی شائع کردہ کتابوں کے حوالے سے اشاعتی دنیا میں اپنا مقام بنایا ہے۔
’’چہرہ بچہرہ روبرو‘‘ اپنی اولین اشاعت کے برس سال 1979ء میں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا قرۃ العین طاہرہ پر اردو میں لکھا گیا یہ ناول یقیناً بابی عقائد۔ خود طاہرہ کی شخصیت، جدوجہد۔ ان کی اٹھان کے زمانے کا کامل احاطہ تو نہیں کرتا پھر بھی پڑھنے والوں کا دامن خالی نہیں رہنے دیتا۔
تاریخ اور خصوصاً مذاہب و عقائد کی تاریخ ہمیں بتاتی سمجھاتی ہے کہ کسی بھی مذہب اور عقیدے کی بنیادی اساس کی نئی تشریح روایتی مذہبیت اور عقائد کے پیروکاروں کے لئے کبھی قابل قبول نہیں رہی۔
نئی تشریحات پر عقائد کی جدا عمارت کھڑی کرنے والوں کو مروجہ فہم کے پیروکاروں اور خصوصاً اس فہم کی پاپائیت (ملائیت) کی سخت مزاحمت اور فتویٰ گیری کے ساتھ دیگر اقدامات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے ۔
’’چہرہ بچہرہ روبرو‘‘ میں گو اس اونچ نیچ، جبرواستحصال، قدامت پسندوں کی سخت گیری نئی فہم کے علمبرداروں کا استقامت کے ساتھ اپنے عقیدے پر ڈٹ جانے کا مفصل احوال بھی ہے پھر بھی 128 صفحات کے ناول میں قرۃ العین طاہرہ کی شخصیت، نئی فکر اور نتائج کو جس طرح ناول کے انداز میں رقم کیا گیا وہ اپنی جگہ اہم ہی نہیں بلکہ لائق تحسین بھی ہے۔ ’’چہرہ بچہرہ روبرو‘‘ میں قرۃ العین طاہرہ کے فارسی کلام کے کچھ تراجم بھی شامل ہیں مگر یہ تراجم ان کی فکر سے زیادہ ناول کی ضرورت کے مطابق ہیں۔
مثلاً ” آنکھیں جب محبوب کو دیکھنا چاہیں تو پھر کسی اور کو دیکھنے کی تمنا نہیں کرتیں۔ کوئی اور چہرہ اس چہرے سے زیادہ قابل تمنا نہیں۔ کاش وہ چہرہ میری آنکھوں کے مقابل ہو۔ ہاں میرے محبوب تیری خواہش مجھے جانے کہاں کہاں لئے پھرے گی۔ تمہیں خدا کی قسم ہے مجھ پر الزام نہ دو‘‘۔
فارسی کلام کا ناول کا حصہ بننا یہ اردو ترجمہ ناول کی ضرورت تو پوری کرتا ہے مگر حقیقت میں یہ طاہرہ کی اپنے ’’صاحب الزمان‘‘ سے عقیدے کی پختگی کا مظہر ہے۔
قرۃ العین طاہرہ ایرانی شیعت یا یوں کہہ لیجئے مروجہ شیعی عقائد سے مختلف عقیدہ کی علمبردار تھیں ۔ حاضر اور غائب امام کی فکر کی نئی تشریحات نے مکتب امامت کی تاریخ میں نت نئی فکروں کے در وا کئے۔
مسلمہ شیعہ عقیدے اور نئی تشریحات کی تاریخ کو سمجھنے کے لئے ظاہر ہے یہ ناول نہیں لکھا گیا۔ البتہ اس موضوع پر سعید احمد دہلوی کی تصنیف ’’مذہب اور باطنی تعلیم‘‘ ہمیشہ زندہ رہنے والی کتابوں میں سے ایک کتاب ہے۔
گو مکتب امامت کے محققین اور شارحین نے ’’مذہب اور باطنی تعلیم‘‘ کے مندرجات پر بھی سوالات اٹھائے اور بعض واقعاتی و فہمی غلطیوں کی نشاندہی بھی کی مگر تاریخ کا حسن یہی ہے کہ وہ تحقیق کا دروازہ کھلا رکھتی ہے ۔
جمیلہ ہاشمی کا قرۃ العین طاہرہ پر لکھا گیا ناول ’’چہرہ بچہرہ روبرو‘‘ ایک طویل عرصہ سے نایاب تھا اس کی حالیہ اشاعت مطالعہ کا ذوق رکھنے والوں کے لئے یقیناً باعث مسرت ہے۔
اس امر پر دو آراء ممکن نہیں کہ جمیلہ ہاشمی نے قرۃ العین طاہرہ کو ناول کا موضوع بناکر ان کی ذات، ایرانی شیعت اور طاہرہ کے نئے عقیدے کو سمجھنے کی راہ نکالی لیکن 128صفحات کے ناول میں ظاہر عقیدوں کے داخلی تضادات اور بدلتے حالات کے ساتھ سامنے آنے والی نئی سوچوں کا کامل احاطہ نہیں ہوسکتا۔
بہرطور بڑے عرصے بعد ’’چہرہ بچہرہ روبرو‘‘ کی اشاعت نے اسے پڑھنے کے خواہشمندوں کی مشکل آسان کردی۔ گزشتہ تین دنوں میں دیگر کتب کے مطالعہ کے ساتھ جمیلہ ہاشمی کا یہ ناول دو بار پڑھ چکا ہوں۔
دونوں بار ان کے احترام میں طالب علم نے سر جھکانے کو ضروری سمجھا۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ