نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

موجیں ہی موجیں…||رسول بخش رئیس

رسول بخش رئیس سرائیکی وسیب کے ضلع راجن پور کی تحصیل روجھان کے رہنے والے ہیں وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے درس وتدریس کے ساتھ ساتھ ملکی ،علاقائی اور عالمی معاملات پر مختلف اخباروں ،رسائل و جرائد میں لکھ بھی رہے ہیں، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

رسول بخش رئیس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارا حکمران طبقہ ہو یا اشرافیہ‘جب سب کی خوب دیہاڑیاں لگی ہوئی ہوں‘ دونوں ہاتھوں سے دن رات کما رہے ہوں‘ زر و دولت اکٹھا کرنے‘ چھپانے اور اسے حلال دکھانے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں معاونین موجود ہوں تو ملک اور غریب عوام کا وہ کیوں کر سوچیں گے۔ غالب طبقات نے جمہوری طریقے سے اقتدار حاصل کرنے اور اس سے کمالات دکھانے کے لیے اسے آئینی جواز دے رکھا ہے۔ جب جھنڈے والی کار‘ محافظ اور باہر سڑکوں پر نکلنے کے لیے گاڑیوں اور لوگوں کو راستے سے ہٹانے کے لیے ہارن بجاتی پولیس کی گاڑیاں ہوں تو اقتدار کے لیے رال ٹپکنا ہمارے سیاستدانوں کی سماجی فطرت کا حصہ کیوں نہ بنے۔ یہ شان و شوکت آپ کسی اور ملک میں نہیں دیکھیں گے۔ مغرب کے اکثر ممالک میں حکمران عوام میں سے ہوتے ہیں‘ ان میں گھل مل کر رہتے ہیں‘ اپنی جائز آمدنی سے اپنی ضروریات پوری کرتے ہیں اور سادہ زندگی گزارتے ہیں۔ ہمارے ہاں غربت‘ افلاس‘ پسماندگی اور دنیا سے ادھار اور بھیک مانگ کر گھر چلانے کے باوجود ہماری اسمبلیوں کے اراکین کی اکثریت کو اگر وزارت نہیں ملی تو بہت سے ایسے عہدے اُنہوں نے بنا رکھے ہیں کہ بھاری تنخواہ کے علاوہ بہت سی مراعات میسر ہو سکیں۔ گماشتوں اور مؤثر سیاسی فن کاروں کو نوازنے کے کیا طریقے ایجاد کیے گئے ہیں۔ لوگ بھوکے مر رہے ہیں ‘ ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے‘ دوائیاں تک مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہیں اور ملک غیریقینی کی کیفیت میں ڈوبا ہوا ہے لیکن تیرہ جماعتی اتحادی حکومت اور ان کی سیاسی ضد تحریک انصاف کو کوئی فکر نہیں۔ فکر ہے تو بس ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی۔ بے شک اس دوران ملک اتنا نیچے چلا جائے جہاں سے اسے دوبارہ اٹھا کر کھڑا کرنا کسی بھی حکومت کے لیے شاید ممکن نہ رہے۔
ملک اور اس کی معیشت کا جو حشر گزشتہ دس ماہ میں ہوا اور جو اب ہورہا ہے‘ اس کے باوجود وزیراعظم شہباز شریف کی کابینہ دنیا کی سب سے بڑی کابینہ ہے۔ پینتیس وزیر ہیں‘ سات جونیئر وزیر اور چار مشیر ہیں۔ اس کے علاوہ انتیس کے قریب معاونینِ خاص جن کا عہدہ اور مراعات وزیروں کے برابر ہیں۔ حال ہی میں اس صف میں ایک اور معاون کا اضافہ ہوا ہے۔ یہ کل تعداد 76بنتی ہے۔ کسی کو ایسے عہدے دیتے اور لیتے وقت کوئی خیال آیا کہ اس وقت ملک کی معاشی صورتحال کیسی ہے؟ ایسا جمہوریت میں نہیں‘ آمریت اور بادشاہت میں ہوتا ہے کہ جس کو چاہا مشیر یا وزیر بنا دیا۔ عالمی ادارے‘ ہمسایہ ممالک اور جن کے سامنے بہت ہی انکساری اور لجاہت سے امداد مانگتے ہیں‘ کیا وہ نہیں جانتے کہ ہمارے وزیراعظم کی کابینہ دنیا کی سب سے بڑی کابینہ ہے۔ جگ ہنسائی اور کیا ہوتی ہے؟ باقی ممالک کو چھوڑیں‘ امریکہ کی بات کرتے ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے۔ اس کی افواج اور اڈے دنیا کے ہر کونے اور بحری بیڑے ہر سمندر میں موجود ہیں۔ دنیا کا کوئی ملک اس واحد عالمی طاقت کے سامنے کھڑا نہیں ہو سکتا۔ اس کی وزارتیں صرف سولہ ہیں۔ ویسے صدر کی کابینہ کی تعداد چوبیس ہے۔ وہ اس لیے کہ نو انتظامی ایجنسیوں کے سربراہ بھی کابینہ کا حصہ تو شمار ہوتے ہیں مگر وہ وزیر نہیں۔ دور کیوں جائیں۔ ہم بنگلہ دیش اور بھارت کی بات بھی کر لیتے ہیں۔ بنگلہ دیش کی آبادی ہم سے کم مگر قدرے قریب ہے۔ وہاں پچیس وزیر‘ سات مشیر اور اکیس نائب وزیر ہیں۔ ہم سے الگ ہونے والے ملک کا کرشمہ یہ ہے کہ اس نے آبادی پر کنٹرول کر لیا۔ فی کس شرح آمدن ہم سے بہت زیادہ ہے۔ زرِمبادلہ کے ذخائر اتنے زیادہ کہ ہم قریب بھی نہیں پھٹک سکتے۔ کرنسی کی مالیت ہمارے روپے سے دگنا کے قریب ہے۔
ہمارا مقابلہ تو کسی زمانے میں بھارت سے ہوا کرتا تھا۔ اب بات کرتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔ چلو دیکھتے ہیں ان کی وفاقی کابینہ کتنی بڑی ہے۔ اس سے پہلے یہ دیکھ لیں کہ اس ہمسایہ ملک کی پچیس ریاستیں یا صوبے اور آٹھ وفاقی علاقے ہیں۔ آبادی کے لحاظ سے یہ دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ چین کی آبادی کی افزائش منفی ہونے کی خبریں آرہی ہیں۔ اگلے چند مہینوں میں بھارت چین کو پیچھے چھوڑ کر آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک بن جائے گا۔ وہاں کابینہ میں اٹھائیس وزیر اور اڑتیس وزرائے مملکت ہیں۔ پاکستان سے ایک ارب زیادہ آبادی‘ وسیع رقبہ اور کئی گنا بڑی معیشت کے باوجود کابینہ کے اراکین پاکستان کے برابر ہیں۔ ہمارے ہاں دماغ تو ہے مگر دل نہیں۔ یہ دماغ ہی ہے جو حرص اور غریب عوام کے وسائل پر عیش کرنے کے گر سکھاتا ہے۔ ہم میں سے اکثر کا دماغ اس رخ پر چلتا ہے۔ دل کی بات اور ہے۔ وہ دوسروں کی فکر کرتا ہے۔ دل کی بات اس لیے کر رہا ہوں کہ ہم ضمیر کی بات کرنا بھی بھول چکے ہیں۔ شاید وہ کہیں مر کھپ گیا ہے۔ جلاوطن کردیا گیا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ہمارے تن پرست بدن میں گھٹن محسوس کرتا ہو۔ اس کا بسیرا اب ہم میں نہیں۔ حکمرانوں میں جب دل ہوتا ہے تو وہ دوسروں کا دکھ درد محسوس کرتے ہیں۔ ہر قدم پر سوچتے ہیں کہ جو کچھ وہ کررہے ہیں‘ اس سے کسی کا نقصان تو نہیں ہوگا۔ یہاں دل طبی طور پر تو زندہ ہے مگر جذبات اور احساسات کے حوالے سے مردہ ہو چکا ہے۔ وہ بھی کیا زمانہ تھا جب ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ کوئی دوسروں کے مال پر ہاتھ صاف کرے گا۔ ملک کے خزانوں کا امین بن کر اسے لوٹنا شروع کردے گا۔ اور یہ سب کچھ کرنے کے باوجود وہ عزت و وقار کے ساتھ زندگی گزارے گا۔ اپنی شان و شوکت پر نازاں ہوگا۔ لیکن اب اقدار بدل چکی ہیں۔ سب اپنا حصہ مانگتے ہیں۔ سیاست اب مسائل کو حل کرنے کے لیے افہام و تفہیم‘ نظریاتی ہم آہنگی یا قومیت کے جذبے سے مرتب نہیں بلکہ تجارتی سودے بازی رہ گئی ہے۔
سیاست میں تقسیم اور محاذ آرائی آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔ بڑی سیاسی جماعتیں مل بیٹھ کر ملکی مسائل پر مشاورت تو کجا‘ رسمی بات چیت کے لیے بھی تیار نہیں۔ اس عالم میں چھوٹی سیاسی جماعتوں‘ گروہوں اور ہر جماعت کے منحرفین کے وارے نیارے کیوں نہ ہوں۔ ہر رکنِ اسمبلی کی خواہش ہے کہ اس کے ووٹ کو عزت دی جائے۔ اور ہر ایک کا ”عزت دو‘‘ کا معیار اور پیمانہ اپنا اپنا ہے۔ عمران خان کی کابینہ کی تعداد بھی بہت زیادہ تھی مگر تیرہ جماعتوں نے تو سب حدیں ہی عبور کر لی ہیں۔ میرے خیال میں ہماری اپنی تاریخ میں بھی اتنی بڑی کابینہ کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ ہم تو ہر آنے والے وزیر مشیر کو دیکھ کر خوشی سے تالیاں بجانے والے لوگ ہیں۔ ہمیں ذاتی طور پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے مگر کیا کریں‘ ان خاک میں لپٹے‘ فاقوں کے مارے لاغر‘ بیمار اور کسمپرسی کی زندگی گزارنے والوں کے ساتھ بھی تو ہمارا رشتہ ہے۔ بے بسی پر ترس بھی آتا ہے کہ کروڑوں کی آبادی کا یہ ملک دنیا میں تماشا بنا ہوا ہے۔ دہشت گردی سے لے کر ہر نوع کے بحرانوں کا سامنا ہے مگر حکمرانوں کے عوام کے مسائل پر عیش کرنے کی پرانی روایت پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ کوئی جواز ہے اتنی بڑی کابینہ کا؟ اور وہ اخراجات جو ناکارہ اسمبلیوں پر اٹھائے جارہے ہیں؟ سب اہلِ دانش متفق ہیں کہ موجودہ بحران کا واحد حل انتخابات ہیں۔ جلد از جلد‘ مگر جن کی موجیں ہیں‘ وہ اس طرف کیوں آئیں گے؟ شاید ڈر ہے کہ سب کچھ چھن جائے گا۔ دیکھیں‘ یہ موج میلہ کب تک چلتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

رسول بخش رئیس کے مزید کالم پڑھیں

About The Author