مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امریکا میں اردو کے فروغ کے لیے نصف صدی سے سرگرم ممتاز ادیب ابوالحسن نغمی گزشتہ دنوں انتقال کرگئے۔ واشنگٹن آنے کے بعد میں پہلی فرصت میں ایک واسطہ تلاش کرکے ان سے ملا۔ انھوں نے یہاں ایک اردو انجمن بنائی تھی جس کا ان دنوں ہر ماہ ایک اجلاس ہوتا تھا۔ ایک اجلاس میں انھوں نے مجھے بھی عزت بخشی اور گفتگو کرنے کا موقع دیا۔ میں بعد کے اجلاسوں میں بھی شریک ہوتا رہا، کوویڈ کی وبا آنے پر سلسلہ بند ہوا تو کچھ عرصہ نغمی صاحب نے آن لائن اجلاس بھی کیے لیکن پھر وہ جاری نہ رہ سکے۔
نغمی صاحب منٹو کے شاید آخری دوست تھے جو ہمارے درمیان موجود تھے۔ انھوں نے منٹو کے بارے میں ایک کتاب بھی لکھی۔ ان کی دوسری کتابوں میں یہ لاہور ہے، بتیس برس امریکا میں اور داستاں جاری ہے شائع ہوکر مقبول ہوئیں۔ وہ ایک اور کتاب لکھ رہے تھے لیکن اسے مکمل نہ کرسکے۔ ان کے بیٹے، فلم پروڈیوسر اور ہمارے دوست نور نغمی بھائی سے امید ہے کہ اس کتاب کو بھی جلد شائع کروائیں گے۔
میں وائس آف امریکا کے دنوں میں کبھی کبھی ریڈیو پروگرام راونڈ ٹیبل کی میزبانی کرتا تھا۔ سیاست کے بجائے میں ادب اور ثقافت کے موضوعات تلاش کرتا تھا۔ ایک پروگرام بیرون ملک اردو کے فروغ میں سرگرم لوگوں پر کیا۔ اس میں برطانیہ سے رضا علی عابدی، جرمنی سے عشرت معین سیما، ناروے سے بھائی حیدر حسین اور کینیڈا سے طاہر اسلم گورا کے علاوہ نغمی صاحب سے بھی گفتگو کی۔ اس گفتگو کا ٹکڑا یہاں پیش کررہا ہوں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر