مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سال کا آخری دن ایک موقع ہوتا ہے کہ پیچھے مڑ کے ایک نظر دیکھا جائے۔ اس سال کتابیں شئیر کرنے کے لیے ایک فیس بک گروپ بنایا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں دوستوں نے اسے جوائن کرلیا۔ آج یہ تعداد 16 ہزار سے زیادہ ہے۔ 22 کروڑ کی آبادی کے لحاظ سے یہ تعداد کچھ بھی نہیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ میرے گروپ کی رسائی میرے سرکل میں ہی ہوسکتی ہے۔ میرے تقریبا 77 ہزار فالوورز ہیں جس کا مطلب ہوا کہ میرے ہر پانچویں دوست یا فالوور کو کتابیں پڑھنے کا شوق ہے۔ میں یہ بھی سوچتا ہوں کہ پاکستان میں عام کتاب کا ایک ایڈیشن پانچ سو یا ہزار چھپتا ہے۔ اگر اس گروپ کی بدولت کوئی کتاب ایک دن میں 16 ہزار افراد تک پہنچ جاتی ہے تو اسے کافی تسلی بخش سمجھنا چاہیے۔
گوگل پر اکاونٹ کوئی بھی بناسکتا ہے اور ہر شخص کو مفت میں ایک ڈرائیو مل جاتی ہے۔ لیکن اس کی ایک لمٹ یعنی حد ہے جو 15 جی بی ہے۔ اس سے زیادہ کے لیے چند ڈالر خرچ کرنا پڑتے ہیں جو میں کررہا ہوں۔ اب تک 51 فولڈرز میں 1700 سے زیادہ کتابیں پیش کی ہیں جن کا سائز 44 جی بی ہوچکا ہے۔ اگر میں اپنے کتب خانے کی پرنٹڈ تمام چھ ہزار کتابیں اسکین کرسکا اور اپنے دو کمپیوٹروں میں محفوظ تمام بیس ہزار کتابیں بھی گوگل ڈرائیو پر لے آوں تو 500 جی بی یا نصف ٹیرابائٹ کی ضرورت ہوگی۔ میں ایسا کرنے کے لیے پرعزم ہوں البتہ اس میں کافی عرصہ لگ جائے گا۔
میں سال کے اختتام پر کسی بڑے ادیب کی کتابیں پیش کرنا چاہتا تھا۔ اس کے لیے میں نے مستنصر حسین تارڑ کا انتخاب کیا ہے۔ میں ان سے ایک آدھ بار ہی ملا ہوں، اور وہ بھی کھڑے کھڑے کتاب پر دستخط کروانے کے لیے۔ وہ مجھ سے واقف نہیں۔ میں بھی ان کا زیادہ پرستار نہیں۔ خاص طور پر ان کی نازک مزاجی اور کراچی والوں سے تعصب اچھا نہیں لگتا۔ لیکن بہرحال وہ مقبول رائٹر ہیں۔ زود نویس ہیں اور ان کے قلم نے شاعری کے سوا کچھ نہیں چھوڑا۔ ناول، افسانے، ڈرامے، سفرنامے، کالم، سب کچھ لکھتے ہیں اور ان کی ہر کتاب ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوجاتی ہے۔ ان کی کتابوں کی تعداد 80 ہوچکی ہے۔
تارڑ صاحب کی تمام کتابیں جمع کرنا فی الحال میرے لیے ممکن نہیں۔ آج 27 کتابیں کتب خانے والے گروپ میں شئیر کی ہیں۔ مجھے ان کا سیٹ مکمل کرنے کی کوئی جلدی بھی نہیں۔ وہ لکھتے رہیں گے۔ ہم پڑھتے رہیں گے۔ پھر کسی اور موقع پر دوسری قسط میں ان کی مزید کئی کتابیں پیش کردوں گا۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ