مئی 10, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بنوں میں سی ٹی ڈی کے مرکز پر دہشت گردوں کا قبضہ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اتوار کے روز بنوں اور لکی مروت میں دہشت گرد جس طرح ’’کُھل‘‘ کر کھیلے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ماسوائے خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف کے جس نے دونوں افسوسناک واقعات اور خصوصاً بنوں میں سی ٹی ڈی کے مرکز (تھانے) پر دہشت گردوں کے قبضے کے حوالے سے ایک انوکھی کہانی سنائی۔

موصوف کہتے ہیں ’’بنوں میں سی ٹی ڈی کے مرکز پر بیرونی حملہ نہیں ہوا بلکہ مرکز میں تفتیش کے لئے رکھے گئے دہشت گردوں نے ہی اہلکاروں سے اسلحہ چھینا اور انہیں یرغمال بنالیا۔ اس دوران فائرنگ میں 2اہلکار شہید ہوئے‘‘۔

یہ وہی موصوف ہیں جو قبل ازیں یہ بتاتے رہے تھے کہ ’’سوات کے علاقہ مٹہ میں دہشت گرد نہیں آئے بلکہ کالعدم ٹی ٹی پی کا ایک کمانڈر اپنی ہمشیرہ کی عیادت کے لئے آیا تھا‘‘۔

اس کی ’’باخبری‘‘ کا عالم یہ ہے کہ اس نے وہ بیان صفائی ٹی ٹی پی کمانڈر کے اس انٹرویو کے لگ بھگ ایک ماہ بعد دیا جس انٹرویو میں کمانڈر نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا

’’ہمیں امیر صاحب نے حکم دیا کہ ہمارا معاہدہ ہوگیا ہے آپ لوگ مٹہ پہنچ کر انتظامات سنبھال لیں‘‘۔

دہشت گردوں کے اسی گروپ نے قانون نافذ کرنے والے محکمے کے ایک سینئر افسر سمیت متعدد اہلکاروں کے ساتھ سکیورٹی فورسز کے بھی ایک افسر اور چند افراد کو اغوا کرکے یرغمال بنالیا تھا۔ یرغمالیوں کی ویڈیوز جاری کی گئیں بعدازاں مقامی جرگے سے مذاکرات کے بعد فورسز اور پولیس اہلکاروں کو رہا کیا گیا۔

اس عرصہ میں دہشت گردوں نے تین افراد کو مختلف مقامات پر قتل کیا ان میں سے ایک کو دوران سفر ٹارگٹ کیا گیا اس مقتول کا تعلق اے این پی سے تھا ۔

لگ بھگ ایک ماہ مٹہ میں رہنے والے دہشت گردوں نے گیارہ کروڑ روپے سے زائد کی رقم تاوان میں حاصل کی اس میں وزیراعلیٰ محمود خان کے خاندان کی طرف سے ادا کئے گئے ساڑھے چار کروڑ روپے بھی شامل ہیں۔

ان تلخ حقائق کی موجودگی میں بیرسٹر سیف کے اتوار والے بیان پر کون یقین کرے گا؟ بنوں اور خیبر پختونخوا کے بعض صحافی دوستوں اور ایک ذریعہ نے سی ٹی ڈی مرکز بنوں کے واقعہ کی جو ویڈیوز بھجوائی ہیں ان سے جو کہانی سمجھ میں آرہی ہے وہ بیرسٹر سیف کی غلط بیانی کو عیاں کرنے کے لئے کافی ہے۔

بنوں میں سی ٹی ڈی کے مرکز پر قبضہ کرنے والے دہشت گردوں کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس سی ٹی ڈی کے اہلکاروں کے علاوہ بھی ایک محکمے کے چند اہلکار بطور یرغمالی موجود ہیں اس دعوے کے ثبوت میں دہشت گردوں نے ایک ویڈیو بھی جاری کی ہے ۔ حملہ آور میران شاہ کے راستے سے بنوں میں داخل ہوئے یا وہ مختلف اوقات میں ایک ایک کرکے شہر میں اپنے کسی مرکز پر پہنچے؟

اس سے اہم سوال یہ ہے کہ جدید اسلحہ سے لیس دہشت گردوں کا یہ گروپ آخر کیسے سی ٹی ڈی کے مرکز تک پہنچ پایا۔ کیا سی ٹی ڈی مرکز سے پہلے والی چیک پوسٹ پر بھی حملہ ہوا تھا؟ اطلاع یہی ہے کہ سی ٹی ڈی کے اہلکاروں کے علاوہ دہشت گردوں کی تحویل میں موجود اہلکار اس چیک پوسٹ سے اٹھائے گئے تھے۔ اب یہ تسلیم کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ اتوار کے واقعات حقیقت میں سکیورٹی لیپس ہیں ۔

ان سطور میں ایک سے زائد بار عرض کرچکا کہ کالعدم ٹی ٹی پی نے مذاکرات کا ڈھونگ اپنے لوگوں کو خیبر پختونخوا میں منظم کرنے کے لئے رچایا تھا ۔ اس کے 6 مطالبات درحقیقت مذاکرات کاروں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے تھے۔

پچھلے تین ماہ کے دوران ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں ہوئے نقصان کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ درست ہے کہ اسی عرصہ میں خیبر پختونخوا پولیس نے سکیورٹی فورسز کے تعاون سے چند اہم کامیابیاں بھی حاصل کیں ان کامیابیوں کے دوران متعدد دہشت گرد ہلاک بھی ہوئے لیکن جس طرح دہشت گردوں کی کارروائیوں میں تیزی آرہی ہے یہ نہ صرف حیران کن ہے بلکہ اس سے پیدا ہونے والے سوالات کو نظرانداز کرنا مشکل ہے۔

اہم ترین سوال یہ ہے کہ صوبائی حکومت اپنی ذمہ داریوں پر توجہ دینے سے کیوں غافل ہے؟ کیا یہ دعویٰ یا الزام درست ہے کہ مٹہ میں دہشت گردوں نے جس معاہدہ کی بدولت اپنی موجودگی کو درست قرار دیا تھا اس معاہدہ کی کوئی حقیقت بھی ہے؟

یا یہ کہ خیبر پختونخوا حکومت ایک حکمت عملی کے تحت امن و امان کی صورتحال کو نظرانداز کرکے سیاسی بھونچال برپا کرنے میں حصہ ڈال رہی ہے؟

ہم اگر خیبر پختونخوا حکومت کے بعض مخالفین کے اس الزام کو رتی برابر بھی اہمیت نہ دیں کہ ’’دہشت گردی کی حالیہ لہر اصل میں وفاق پر دبائو ڈالنے کے خصوصی پروگرام ہے حصہ ہے‘‘ تو بھی یہ سوال بہت اہم ہے کہ دہشت گردوں کی جانب سے اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان اور معروف سیاستدان سردار حسین بابک کو دی گئی دھمکیوں پر صوبائی حکومت اور خصوصاً اس کے ترجمان بیرسٹر سیف کا رویہ غیرذمہ دارانہ کیوں رہا؟

پھر کیا یہ کڑوی حقیقت کسی سے مخفی ہے کہ بیرسٹر سیف کا خاندان جہادیوں کا مربی رہا ہے ماضی کے جہادی مجاہدین کی اکثریت اب کہاں کھڑی ہے۔ اسی طرح یہ سوال بھی اہم ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی سے ہونے والے کابل مذاکرات کے دوران بیرسٹر سیف نے ذاتی حیثیت میں کیوں شرکت کی (ذاتی حیثیت کی بات وزیراعلیٰ اور خود سیف بھی کرچکے) سیف کی صوبے کی سیاست اور سماجی بُنت میں کیا اہمیت ہے ماسوائے اس کے کہ وہ آجکل صوبائی حکومت کا ترجمان ہے۔

ماضی میں وہ پرویز مشرف کے ساتھ ر ہا پھر جنرل پرویز مشرف کی سفارش پر ہی ایم کیو ایم نے اسے سینیٹر بنوایا تھا۔ (یہ تب کی بات ہے جب ایم کیو ایم الطاف حسین کے تابع فرمان ہوا کرتی تھی) مشکوک سیاسی ماضی کے حامل شخص کو خیبر پختونخوا کا ترجمان بنانے اور کابل مذاکرات میں اس کی موجودگی کو ذاتی حیثیت کے طورپر پیش کرنے کے پیچھے کیا امر واقعہ ہے؟

کیا وزیراعلیٰ محمود خان کے پاس اس کا جواب ہے یا وہ اب بھی نجی محفل میں پوچھے گئے سوال کے اس جواب پر قائم ہیں کہ ’’مجھے عمران خان نے وزیراعظم ہائوس بلایا وہاں ایک بڑے محکمہ کے سربراہ بھی موجود تھے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ بیرسٹر سیف کو صوبائی حکومت کا ترجمان بنایا تھا۔ وہ مستقبل میں کی جانے والی بعض کوششوں میں اچھا معاون ثابت ہوگا‘‘۔

سیف کی کابل مذاکرات میں ذاتی حیثیت میں شرکت بارے ان سطور میں مذاکرات کے دوران سوال اٹھایا تھا تو پیغام بھجوایا گیا کہ ’’مذاکرات کو ناکام بنانے والوں کے ہاتھوں میں نہ کھیلیں‘‘۔ تب بھی عرض کیا تھا آخر صوبائی حکومت نے کابل مذاکرات میں دیئے گئے 6 مطالبات میں سے پہلے مطالبے ٹی ٹی پی کے سزا یافتہ اور چند دیگر اہم ارکان کی رہائی کے لئے سمری بناتے وقت صوبائی وزیر قانون اور ایڈووکیٹ جنرل کو اعتماد میں لینے کی بجائے سمری تیار کرنے کی ذمہ داری بیرسٹر سیف کو کیوں دی۔

یہ کہ محمود خان اور مسلم خان وغیرہ ( اس وغیرہ میں ایک اطلاع کے مطابق 126 اور دوسری اطلاع کے مطابق 240افراد صدارتی فرمان سے رہا کئے گئے تھے ) ۔

یہ سوال بھی اٹھایا تھا کہ ان افراد کی رہائی کے وقت تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وفاقی حکومت تبدیل ہوچکی تھی صدر مملکت اور صوبائی حکومت نے پی ڈی ایم اور اتحادیوں کی وفاقی حکومت کو اس کے لئے اعتماد میں کیوں نہیں لیا۔

میری دانست میں یہ سوال کل کی طرح آج بھی اہم اور جواب طلب ہیں۔ اس لئے کہ بڑھتی ہوئی طالبان گردی کی وجہ سے اب سوالات اٹھ رہے ہیں اور افواہوں کا بازار بھی گرم ہے۔

افواہوں کی وجہ سے شہریوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ رہا ہے۔

اتوار 18دسمبر کو بنوں میں سی ٹی ڈی کے مرکز پر حملہ اور قبضے کے علاوہ دوسری سنگین واردات ضلع لکی مروت کے تھانہ برکی میں ہوئی دہشت گردوں کے حملے سے 4پولیس اہلکار شہید اور متعدد زخمی ہوئے۔

بنوں میں سی ٹی ڈی مرکز کی نگرانی ہیلی کاپٹر سے کرائی جارہی ہے۔ دہشت گردوں کے مطالبات میں تاوان کی ایک بڑی رقم کے ساتھ ہیلی کاپٹر کی فراہمی بنوں جیل سے کچھ قیدیوں کی رہائی اور محفوظ انداز میں کابل پہنچانا بھی شامل ہے۔

خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کی لہر میں حالیہ تیزی اڑھائی تین ہفتے قبل کالعدم ٹی ٹی پی کے اس اعلان کے بعد آئی کہ

’’اب حکومت سے مذاکرات کی بجائے عام جنگ ہوگی اور ملک بھر میں سرکاری و نجی مقامات پر حملے کئے جائیں گے‘‘۔

ٹی ٹی پی کے اس اعلان کے بعد دہشت گردی سے بری طرح متاثر ہونے والے صوبے خیبر پختونخوا میں امن و امان قائم رکھنے اور سرکاری و نجی مقامات کی حفاظت کے لئے جن سخت اقدامات کی ضرورت تھی ان سے صرف نظر کیوں ہوا ۔

اس مجرمانہ غفلت کے مظاہرہ کا ذمہ دار کون ہے؟ معاف کجیئے بنوں میں سی ٹی ڈی کی کے مرکز پر قبضہ اور لکی مروت میں تھانے پر حملہ خطرناک صورتحال کی نشاندہی کرتا ہے۔

دونوں واقعات ممکنہ سیاسی تبدیلیوں والے ان دنوں میں ہوئے جب پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے کے پی کے اور پنجاب اسمبلی توڑنے کا اعلان کیا۔ یقیناً ہفتہ کو اسمبلیاں توڑنے اور اتوار کو رونما ہونے والے واقعات کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہوگا مگر کیا لوگوں کو حقیقت حال سے آگاہ کیا جائے گا؟ یہ بذات خود ایک سوال ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: