اپریل 27, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

برطانوی محاصرہء مُلتان: ‘سدُو سَام کا محاذ اور لاہور دربار میں دھینگا مُشتی’ (4)||امجد نذیر

امجد نذیر سرائیکی وسیب کے قدیم شہر ملتان سے تعلق رکھتے ہیں ،مصنف سماجی اور ترقیاتی تجزیہ کار ہیں ـ وہ اسلام آباد کے ادارہ برائے تحقیق و ترقی (ادراک) سے وابستہ ہیں

امجد نذیر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(مآخذات : جاہن جونز کولے، مرزا ابن حنیف، احمد رضوان اور دوسرے ذرائع )

تعارف : ریاست ملتان کی قدامت، دریائے سندھ اور چناب کی عطا کردہ خوشحالی اور اہم ترین محل وقوع کیوجہ ریاست ملتان کے ایک نہیں کئی محاصرے ھوئے اور ھوئے ھونگے، کچھ معلوم اور کچھ نا معلوم ۔ مثلاً 325 قبل مسیح میں مقدونیہ کے سکندر کا محاصرہ، 1296 میں علاوالدین خلجی کا محاصرہ مگر تاریخ میں جسقدر جُزیاتی تفصیل برطانوی محا صرے کی موجود ھے کِسی اور محاصرے یا حملے کی موجود نہیں ھے ۔ کسی بھی ڈرامائی بیانیے میں واقعات، کردار اور تنازعات ڈرامائی ایکشن کی جان ھوتے ھیں، اور 1848 میں کئیے گئے برطانوی محاصرے میں یہ تمام خوبیاں موجود ہیں اِسی لئے برطانوی محاصرہ شاید واحد محاصرہ ھے جسے اپنی مکمل ڈرامائی خوبیوں سمیت دوبارہ بیان کیا جا سکتا ھے ۔ اور زیر نظر تحریر اسی نوعیت کی ایک کوشش ہے ـ

چوتھا درشن

ملتان کی قدامت، دریائے سندھ اور چناب کی عطا کردہ خوشحالی اور اہم ترین محل وقوع کیوجہ سے ریاست ملتان کے ایک نہیں کئی محاصرے ہوئے اور ہوئے ہونگے، کچھ معلوم اور کچھ نا معلوم ۔ مثال کے طور پر 325 قبل مسیح میں سکندر مقدونی (جِسے ایران میں سکندر ملعون کے نام سے جانا جاتا ہے) کا محاصرہ، 1296 میں علاوالدین خلجی کا محاصرہ، 1818 میں رنجیت سنگھ کی جارحیت وغیرہ مگر تاریخ میں جسقدر جُزیاتی تفصیل برطانوی محا صرے کی موجود ہے شاید کِسی اور محاصرے یا حملے کی موجود نہیں ہے ۔ کسی بھی ڈرامائی بیانیے میں واقعات، کردار اور تنازعات ڈرامائی ایکشن کی جان ہوتے ہیں، اور 1848 میں کئیے گئے برطانوی محاصرے میں یہ تمام خوبیاں موجود ہیں؛ اِسی لئے برطانوی محاصرہ شاید ملتان کی تاریخ کا واحد محاصرہ ہے جسے اپنی مکمل ڈرامائی خوبیوں سمیت دوبارہ بیان کیا جا سکتا ہے ۔ زیر ِنظر تحریر اِسی نوعیت کی ایک کوشش ہے ـ آخر میں یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ راقم الحروف نے جاہن جوہنز کولے کے ، جس نے سیج آف ملتان مین اِس جنگ کا آنکھوں دیکھا حال بیان کیا، ‘پروٹاگونسٹ’ اور ‘اینٹاگونسٹ’ کو اَدل بَدل کرڈالا ہے تاکہ ملتان دھرتی کا دفاع کرنے والوں کو تاریخ میں اُن کا درُست ترین مقام دلوایا جا سکے ـ اور یہ عرض کر نا بھی ضروری ہے کہ پنجابی (سِکھ) حُکمران ہونے کے ناطے مُولراج کی سیاسی حیثیت سرائیکی اور ملتانی مورخین کے نزدیک زیادہ پسندیدہ نہی رہی ـ راقم الحروف نے زیر نظر تحریر جو تحقیق ، ترجمہ اور تخلیق کا مرکب ہے عروُس البلاد ملتان کی محبت اور اہمیت کے پیش نظر لِکھی ہے تاکہ برطانوی عسکری یلغار کیساتھ ساتھ تقریبا” پونے دو سو سال پہلے کے ملتان اوراُسکے گِردو نوح کا معاشرہ اور انگریزوں کے ساتھ مقابلے کا منظر تحریری پردہِ سیمیں پر دِکھایا جا سکے۔ اِس پورے منظر میں مُولراج کی جو بھی سیاسی اور تاریخی حیثیت بنتی ہے، اُسکا فیصلہ قارئین پر چھوڑ دیا گیا ہے ـ
***
سورج کُنڈ کے نزدیک نہر پر جہاں سے انگریزی افواج اور اُنکے معاونِ کار غدار، ملتان کیطرف پیش قدمی کر رھے تھے، دو تنگ سے پُل تھے جبکہ اُتر پَچھمی جانب قلعہ کے نزدیک اینٹوں کا بنا ھوا ایک نسبتا” مضبوط مگر عرصے سے غیر مُرمت کردہ پُل تھا ۔ تینوں پُلوں پر ملتانی دفاع کاروں نے حفاظت کے لئے پرانی طرز کی توپیں نصب کر رکھی تھیں ۔ اِسی کارَن کارٹلینڈ اور ایڈوّرڈ نے یہاں سے پُل کراس کرنا مناسب نہ سمجھا بلکہ نہر کے ساتھ ساتھ شمال مغرب کی سمت گاؤں ٹِبہ (قیصرانی) کیطرف سفر کرتے رھے ۔ گویا اب ملتانی سپاہ اور دُشمن کے درمیان یہ ننھی سی نہر ہی خلیج کا کام دے رہی تھی ۔ بندوقین سمبھال کر وہ بھی نہر کے بائیں کنارے دشمن کا تعاقب کرنے لگے تاکہ ہدف رَساء فاصلے سے اُن پر گولیاں برسائی جا سکیں ۔

یّکم جولائی 1848 کو لیفٹینینٹ کارٹلینڈ نے اپنے ٹروُپس کو ٹِبہ قیصرانی پر پڑاو ڈالنے کو کہا ۔ وہیں پر اُسے جاسوسوں نے اطلاع دی کہ اُنکے اپنے دستوں سے ٹوٹے ہوئے باغی سپاہی نہر پھلانگ کر انکا پیچھا کر رھے ھیں اور کِسی بھی وقت اُن پر یّلغار کی جا سکتی ہے ۔ کارٹلینڈ نے اپنے سپاہیوں کو فوری طور پر کمر کَسنے کا حکم دیا ۔ اُنکو یہ بھی معلوم تھا کہ ‘لیفٹینینٹ لیک’ داوؤد پوتروں کو لِیڈ کرتے ھوئے راستے میں کسی ٹیلے پر خیمے لگائے بیٹھا ہوا تھا جبکہ مُلتانی سپاہ بھی اُن سے صَرف آدھے میل کے فاصلے پر تھی ۔ کُچھ مَسافت کے بعد قریب پہنچنے پر وہ بڑی ھوشیاری سے آس پاس کے گاؤوں میں پھیل گئے تاکہ لیک کی تابع فرمان غدار بٹالئین کو ٹھِکانے لگایا جا سکے ۔ اُنہوں نے گھات لگا کر نشانہ باندھا ہی تھا کہ یّکا یّک لیک کے دستوں نے بھی فائر کھول دیا ـ اب سٓدوُ سام کے محاذ پر باقاعدہ جنگ شروع ھوچکی تھی ۔ لیک کا دستہ ایک ایک کرکے بِکھر ھی رھا تھا کہ ایڈوَرڈ اپنی بٹالئین لیکر ملتانی فوج کے عقب پر حملہ آور ھو گیا ۔ عَین اُسی وقت لیفٹینینٹ کارٹلینڈ نے بھی دائیں جانب سے فائرنگ شروع کردی ۔ ھر چند کہ اُسکا ایک توپچہ خاموش ھو چُکا تھا اور بہت سے جوان ضائع ھو چُکے تھے لیکن لیک پھر بھی مَیسرہ کیطرف سے مُلتانی سپاہ پر مُسلسل دباو بڑھا رھا تھا تاکہ وہ سامنے والا گاؤں چھوڑ کر بھاگ جائیں ۔ مگر اُسکی یہ بُھول تھی، ملتان کے معمولی تربیت یا فتہ، محدود اسلحہ، مگر دریائی حوصلہ رکھنے والے جوٓان چٹان کیطرح ڈٹ ـ اور لیک کی کیل کا نٹوں سے لیس بٹالیئن سے کُچھ بن نہ پڑا ـ

اِسی لَمحے نواب بہاولپور کے معاوّن دستے کے ایک سینئر انگریز افسر ‘میکفرسن’ کے بدن پر براہِ راست ایک گولا آکے لگا اور وہ موقع پر ھی ڈھیر ھو گیا۔ اَب دونوں طرف سے توپ و تفنگ اور گولا باروُد کا تبادلہ جاری تھے ۔ ایڈوّرڈ گویّا دیوٓانہ ہو کر میدانِ جنگ میں دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں بھاگ رھا تھا، کارٹلینڈ مرکزی دستے کی قیادت کر رھا تھا اور لیک اپنے بہاولپوری داؤد پوتری دستے کی ہِمت بڑھا رھا تھا ـ اُن تینوں کی سمجھ سے باہر تھا کہ آخر ملتانی سِپاہ کیسے اور کہاں سے گولے داغ رھی ھے ۔ اُنہیں ایسا لگ رہا تھا جیسے اَجنبی سمتوں سے کوئی تیسری قوت اُن پر گولے بَرسا رہی ہو ۔ وہ یہ سوچ کر ورطہء حیرت میں مبتلاء تھے کہ ملتان کے بے یارو مدد گار سپاہی جان و مال کے نقصان کے با وجوُد کِسطرح جم کر مقابلہ کر رہے تھے ـ

تا حال، جُزوی ہی سہی، میدانِ جنگ کی قیادت مُولراج ہی کے سُپرد تھی ۔ کھجوروں کے ایک جُھنڈ میں اُس نے بہت سی بندوقیں نصب کروا رکھی تھیں اور مزکورہ بالا نہر کے کنارے چھوٹی بڑی جھاڑیوں کے بیچوں بیچ مجاہدین کو حسبِ ضرورت احکامت فراھم کروا رہا تھا ـ سپاہی انتہائی سمجھداری سے دشمن کے ٹھکانوں کے نشانے لگا رھے تھے ۔ درختوں کے دیوّ قامت وجُود، ریتلی زمین اور نیم بالیدہ لَئی کے لامبے لامبے ٹانڈے اپنے ہم وطنوں کے لئیے نہ صرف سازگار ماحول تشکیل دے رھے تھے بلکہ مورچوں کا کام دے رہے تھے ۔ چند ہی گھنٹوں میں مُلتان کی مختصر فوج نے دُشمن کے بیسیّوں جنگجُو ہلاک کر ڈالے ۔ باقی ماندہ اہلکار گھبرا کر کارٹلینڈ کی چھتری تلے دوبارا پناہ گزین ہو گئے ۔ اُنکے سامنے اور دائیں بائیں جُھلستی ھوئی زمین پر کئی سُوختہ تَن بے حس و حرکت پڑے تھے ۔ کھجور کے کئی درختوں کے سَر تَن سے جُدا ہو گئے تھے ـ کُٹڑی نُما جھاڑیوں میں سے جگہ بہ جگہ دھواں اور شُعلے اٹھ رھے تھے اور سوّا نیزے پر جَلتا بَلتا سورج پہلے سے موجود تپِش کو اور ھوا دے رھا تھا ۔ سراسیمگی کے عالم میں کارٹلینڈ نے یکے بعد دیگرے اندھا دُھند گولے برسانا شروع کر دیے ۔ ایسے میں ایک گولا اُس ہاتھی کے قدموں میں آگرا جس پر مُولراج سوّار تھا ۔ ھاتھی خوف کے مارے بھاگ کھڑا ھوا ،تھوڑی ہی دیر میں بھگدڑ سی مَچ گئ مگر دوتین تربیت یافتہ فِیل بانوں نے جلد ہی نیم پاگل ھاتھی کو سمبھال لیا ۔

موقع کا فائدہ آٹھاتے ہوئے دُشمن کے سپاہی آگے بڑھے اور لگاتار فائرنگ کرنے لگے ۔ بھاری نقصان سے بچنے کیلئے سپاہِ مُلتان نے پسپائی اختیار کرنے میں ہی دانائی سمجھی ۔ صرف دو بندوقیں چھوڑ کر ـ جو بھاڑے کے ٹٹوؤں نے جلد ہی اپنے قبضے میں کر لیں ـ وہ اپنا تمام اسلحہ اور ہاتھی گھوڑے بھی ساتھ لیجانے میں کامیاب ھو گئے ۔ جبکہ دشمن کے لگ بھگ 17 گھوڑوں اور کچھ کم فوجیوں کی لاشیں سمت بے سمت ڈھیر لا وارث پڑی نظر آ رہی تھیں ۔ پیچھے ہٹ کر مُلتانی سپاہ شہر کی غلام گردشوں میں غائب ھوگئی البتہ وہ نہر کی تنگ پُلیوں پر توپچیوں کا پہرہ بٹھانا نہ بُھولے ۔ پس حملوں اور جوابی حملوں کی بوچھاڑ میں سَدؤ سام کی محاذ آرائی اختتام کو پہنچی جس میں پلڑا بھاری ھونے کا باوجود بھی انگریز اور خالصہ دربار کے حواریوں کو قابلِ ذکر نقصان اُٹھانا پڑا ۔
واپسی پر مُلتانی سپاہ نے قلعہ کے اندر داخل ھو کر دروازے بند کر لئیے ۔ محافظت اور جوابی حملے کے پیشِ نظر چند ایک دستے قلعہ کی بیرونی دیوار کے سامنے بھی تعیّنات رکھے ـ کچھ توپچیاں اور بھاری گنیں درُست مقام پر نصب کیں اور قلعے کے اندر دفاعی مورچوں کو ذیادہ سے ذیادہ مضبوط اور مُدافع بنانا شروع کر دیا اور طویل دفاع اور فیصلہ کن لڑائی کی تیاری شروع کر دی ۔ اُنہیں یقین تھا کہ سفاک دشمن اب قلعہ پر یلغار کرے گا، کیونکہ پنجاب بھر کے اہم ترین مقامات میں اب صِرف ملتان اور قلعہِء ملتان ہی افواجِ فرنگ کے راستے کا پتھر رہ گیا تھا ۔ فریب خوردہ خالصہ دربار کی تو خواہش تھی کہ شہر پناہ کی چابیاں بلا تردُد کمپنی بہادر کے ایجنٹوں کے سپرد کر دی جائیں مگر انہیں معلوم نہیں تھا کہ اب یہ معاملہ متذبزب مُولراج کے اختیار سے بھی باہر تھا ـ کیونکہ ملتانی سپاہ و عوام جاگ اُٹھے تھے ۔ لڑکپن یا جوانی میں کِسی بھی رسمی عسکری تربیت کے بغیر بھی سپاہیوں نے اچھی خاصی ترتیب و تنظیم اور حربی ضربی مہارت کا ثبوت دیا ۔

مُولراج نے بھروسے کے تمام سپاہی قلعے کی دفاعی لائین میں سب سے آگے رکھے کیونکہ کاہن سنگھ کی معیت میں آنے والے اگینو اور اینڈرسن کی ہلاکت کے بعد سے ہی اُسے اندازہ ھو چلا تھا کہ "کمپنی” کی افوا ج امرتسر اور لاھور میں ساز باز کے بعد لازما” ملتان کا رُخ کریں گی ـ اُسنے اپنے اعتماد کے ساتھیوں کے ساتھ مِلکر مالی اور عسکری تیاریاں شروع کر دی تھیں ۔ اور اب دشمن کو دو تین محازوں پر کافی نقصان پہنچانے کے بعد تو اُسے پوُرا یقین تھا کہ فیصلہ کُن معرکہ قلعے کے اندر یا باہر ہی ھوگا ۔ ہر چند کہ قلعہ کہنہ کے آہنی اِستمرار پر اُسکا ایمان تھا مگر اُسے دشمن کی عیاری، ہوشیاری اور غداروں کی حرص و ہوس کا بھی اندازہ تھا ۔ لیکن قلعہ کے اندر رہنے والے عام عوّام کو حَیرت انگیز حد تک قلعہ کی پائیداری اور اِستحکام پر اِسقدر اعتقاد تھا کہ وہ اِطمنان سے معمول کی زندگی برقرار رکھے ھوئے تھے ۔ خواتین حسبِ سابق سینے پِرونے اور گھریلو کام کاج میں مصروف تھیں ـ ہنر پیشہ افراد تخلیق و تزئین میں مصروف تھے، معمار روزمرہ کی تعمیرو مرمت میں مصروف اور کاشی کار ممبرو محراب اور سقف و بام سجانے مین لگے ہوئے تھے ـ چوب گر روزن و در اور تخت و صندلیاں منقش کر رہے تھے ۔ قالین اور پارچہ باف پہلے کیطرح نِت نئے ڈیزائین بنانے میں منہمِک اور دھنوان گایوں بھینسوں کی خدمت گزاری اور دودھ کے کاروبار میں لگے ھوئے تھے ۔ غرض کسی کو اندازہ نہیں تھا کی باہر گَھسمان کا رَن پڑنے والا تھا اور اَگر تھا بھی سہی تو اُن کو یقین تھا کہ دیوّتا اوصاف قلعہ کُہنہ انکی جان و مال کا ضامن تھا ـ
بِلا شُبہ قلعہ مُلتان اپنے ناقابل انہدام ھو نے میں اپنی مثال آپ تھا، جس کی مقاوّمت کِسی داستانوی محل سراء سے کم نہ تھی اور ملتان پر ہونے والے حملوں کی تاریخ سے یہ بات ثابت بھی تھی ۔ یہی وجہ تھی کہ دریائے سندھ کے مغرب میں ڈیرہ جات اور چناب کے مشرق میں لیہ، بہاولپور، میانوالی اور ساہیوال کے شہریوں میں یہ تاثر عام تھا کی انگریزایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجُود بھی قلعہ کے النگ اور پُشتے نہیں پاٹ سکتے ۔”ملتانی قلعے کی ایک اینٹ بھی”، انکی رائے میں، "کسی دیوہیکل شیطانی قوت کے بغیر اُکھاڑی نہیں جا سکتی تھی” ۔ ملتانی سپاہ کو پُختہ یقین تھا کہ وہ گوروں، اُنکے بہی خواہوں اور اِنعام و اِکرام کی لالچ میں لڑنے والوں کے دانت کھٹے کر دے گی اور اُسنے اپنی کامیابی کیلئے تمام تر مُمکنہ وسائل اِکھٹے کر لئے تھے ۔ اُنکو یہ بھی اُمید تھی کہ چَترسنگھ اٹاری والا دریائے جہلم کے کنارے جو لشکر اکھٹا کر رھا ھے وہ شاید اُنکی کُمک کو آرہا ھے مگر حقیقت میں ایسا نہ تھا بلکہ راجہ شیرسنگھ کے جتھے بھی قلعہ ملتان کے محاصرے میں انگریزوں کا ساتھ دینے آرھے تھے ۔ لیکن تمام تر نا مساعد حالات کے با وجود مُلتانی افواج قلعہ کے دفاعی محاذ پر ڈٹ گئے ۔ منجنیقیں اور بندوقین صاف کی جا رہی تھیں ـ آہن گر تیر و تلوار اور خنجر و تفنگ ڈھالنے میں مصروف تھے ـ پیادے حرب و ضرب کی مشقیں کر رہے تھے ۔ معمار مرمت اوراِضافت پرمعموُر ـ کسان گیہوں، چاول، دالیں اور دوسری اجناس محفوظ کر رہے تھے اور محافظ اَپنے اَپنے مقام پر چَوکنا تھے ـ
اُدھر کارٹلینڈ، ایڈورڈزاورلیک ٹِبہ (قیصرانی) میں خیمہ زن ھو کر ایک دوسرے کو مُبارک سلامت کہہ رھے تھے کہ کِسطرح اُنہوں نے 2 جولائی کی مُڈ بِھڑ میں مولراج اور ملتانی سپاہ کو قلعہ بند ھونے پر مجبور کردیا تھا ۔ تاہم اُنکی یہ مُسرت دیرپاء ثابت نہ ھوئی ـ جلد ہی جاسوسوں نے اِطلاع پہنچائی کہ "باغی سپاہ حملہ کرنے کے لئے ایک بار پھر ندی پار مورچہ بَند ھو گئی ھے ۔ اور کوئی وقت جاتا ہے کہ ہم سب گولیوں کی زد پر ہونگے” ـ یہ سنتے ہی دشمن کے سپاہی بِلا تاخیر کیل کانٹوں اور خودوزِرہ سے لیس ھونا شروع ھو گئے ۔ اِسی اثنا میں زِرہ بکتر کَس کے لیفٹینینٹ ایڈوڈزاپنا پسندیدہ پستول بیَلٹ کے اندر ٹھونس ہی رھا تھا کہ وہ ایک دھماکے سے پَھٹ پڑا ۔ یّکایّک اُسکے دائیں ہاتھ سے خون کا ایک فوارہ پھُوٹ نِکلا اور چاروں طرف زمین پر شرانگیز خون کے نقش و نگار اُبھرنے لگے ـ ابھی وہ ناقابلِ برداشت تکلیف میں آہ و فریاد ہی کر رہا تھا کہ چند سپاہی جو صورتِ حال کا جائزہ لینے کے لئے باہر نکلے تھے واپس أگئے اور بتایا کہ "اِطلاع جھوٹی تھی” ـ ندی کِنارے، اِس پار یا اُس پار، نہ کوئی لشکر نہ مورچہ بندی ـ صِرف اِکا دُکا عام لوگ اور گُھڑ سوار اپنے روز مرہ کاموں کے لئے اِدھر اُدھر آ جا رھے تھے ۔ یا پھر دور پار چرواہے اپنی بھیڑ بکریاں ہا نکتے پھر تھے ـ اِسکے علاوہ سارے میں دھوپ کی تمازت تھی اور بس ـ
ہر چند قتل و غارت گری کے جنون میں اَیڈوّرڈز کا دایاں ہاتھ ضائع ھو گیا تھا مگر وہ اپنی بَد طینتی اور بربریت سے پھر بھی باز نہ آیا ۔ اور کچھ ہی دنوں بعد از سر نوء ساز باز، جوڑ توڑ اور عسکری حکمتِ عملیوں میں جُت گیا تاکہ وہ فتحِ ملتان کے خواب کو شرمندہ تعبیر کر سکے۔ لیفٹینینٹ لیک اور جنرل کارٹلینڈ نے اِس کام میں اُسکی بھر پور معاوّنت کی ـ اور پھرلیفٹینینٹ لومزڈن بھی، ‘جو ایک بٹالئن کی رھنمائی کے لئے حال ہی میں ملتان پہنچا تھا’ اِس کارِ اِبلیس میں اُنکے سا تھ ھو گیا ـ
انگریز فوج کی صورتِ حال اب ایک تَنی ھوئی رسی پر چلنے کے مُترادف تھی ـ ایک طرف اُسے ملتان کے بے باک سپوُتوں کا خوف کھائے جارھا تھا اور دوسری طرف اسے (گوروں کو چھوڑ کر) اپنی ہی سپاہ سے (جس میں سِکھ بڑی تعداد میں شامل تھے) ہروقت بغاوت کا خطرہ رہتا تھا ۔ کیونکہ اُسکی سپاہ کچھ کاسہ لیس غداروں کے علاوہ زیادہ تر خالصہ دربار سے بھیجے گئے سپاہیوں پر مشتمل تھی ـ

اُنہیں شیر سنگھ اور چَتر سنگھ اٹاری والا کی وفاداری پر بھی بلا تعطل شبہ رہتا تھا یا پِھر اُنہیں کمپنی سرکار کی طرف سے ہی دونوں پر نطر رکھنے کی ہدایت کی گئی تھی ـ شیر سنگھ ، رنجیت سنگھ کے کمسن بیٹے اور کٹھ پُتلی مہاراجہ دُلیپ سنگھ کا ہونے والا سالا تھا جبکہ چَتر سنگھ شیر سنگھ کا ہونے والا سُسرـ دلیپ سنگھ کم عمر، ناتجربہ کار اور بے دست و پاء ہونے کیوّجہ سے ویسے ہی کوئی سیاسی فیصلہ کرنے کے قابل نہیں تھا دوسرا وہ اپنی دادی رانی جِنداں کی جبری بنارس جِلا وطنی کے بعد اب سوائے چَترسنگھ اور شیر سنگھ کے علاوہ کسی سے کوئی مشورہ بھی نہیں کر سکتا تھا ـ چَترسِنگھ اٹاری والے کی بیٹی شیر سنگھ سے منسوب تھی اور وہ اُترپچھمی پنجاب کا گوّرنر بھی تھا اور اِسی مُناسبت سے بھی اُن دونوں کا لاھور دربار میں کافی اثرو رسُوخ تھا ـ پشاور میں جنرل لارنس اور ہزارا میں اُسکا ڈپٹی جیمز ایبٹ ، اٹاری والا پریوّار کے کافی قریب تھے مگر اِس قرابت میں باہمی سیاسی مفادات اور شکوک و شبہات کی آلودگی بھی شامل تھی ـ
دراصل رنجیت سنگھ کی موت (1838) کے بعد سِکھی راج پاٹ کا کوئی مُستند نظام و انصرام نہ ہونے کے باعث پنجاب بٓد ترین انتشار، نفسا نفسی اور خانہ جنگی کا شکار تھا، وزارت اور تخت نشینی کی چپقلشوں میں رنجیت سِنگھ کا اپنا خانوادہ کئی دھڑوں میں بَٹ چُکا تھا ـ فوج الگ مُنہ زور اور مفاد پرست ھو چکی تھی ـ متفرق رجمنٹوں کے سردار ہمہ وقت تنخواہیں اور انعام و اکرام بڑھوانے، درباری توشہ خانہ کو لُوٹنے، نئے نئے کَٹھ پُتلی حکمران بٹھانے، وفا داریاں بدلنے، انہیں قتل کرنے اور ذاتی رنجشیں چُکانے یا پھر پُرانی اِنتقام پروریّوں میں مصروف تھے ۔ دھونس، دھمکی، لالچ، رشوت، غداری، وفاداری اور ایجنٹی کے باہمی طنز، تمغے، رشک و حسد، کم و بیش سارے ہی سِکے بِساط بھر چلنے لگے تھے، اِسی طوائف الملوکی میں شیر سنگھ نے دھیان سنگھ وزیر کی مدد سے خالصہ فوج کو منظم کرکے رنجیت سنگھ کی اپنی راجدھانی لاھور شہر اور لاھور قلعہ میں داخل ھو کر ڈوگرا سرداروں اور عوام دونوں کو خوف وہراس کا شکار کیا، فصیل کے اندرناقابلِ بیان دھینگا مُشتی ھوئی ـ جِسکے ھاتھ جو آیا، اُٹھا کر لےگیا ـ صرف تین چار سال کے اندر رنجیت سنگھ کے خاندان ہی سے کئی افراد تخت پر بِٹھائے، اُتارے اور بے عزت کر کے جان سے مارے گئے ـ طاقت اور اختیار کا کوئی ایک فُلکرم باقی نہ تھا، خالصہ دربار، عسکری رجمنٹیں، مقامی سردارسب ایک دوسرے کو مشکوک نگاہوں سے دیکھنے لگے ـ اِسکا ایک سبب تو رنجیت سنگھ کے اپنے نظام و انتظام کی نااہلی اور دوسرا انگریزوں کی دوُر ازکار سازشیں تھیں ـ
اس ہڑبُونگ میں دو دَھڑے یعنی ‘سَدھانوالہ’ اور’ڈوگرا’ زیادہ ممتاز تھے ۔ جبکہ منظرِعام پرمُقابلہ گلاب سنگھ ڈوگرا اور شیر سنگھ اٹاری والا کے درمیان تھا ـ ایڈوّرڈ اور کارٹلینڈ سوچی سمجھی سکیم کے تحت وقتا” فوّقتا” شیر سنگھ سے قلعہء ملتان کی عسکری قوت و اِستقامت کا ذکر کرتے رھتے تا کہ وہ اُسکے دل کو ٹٹول سکیں یا پھر اُسے یہ دِھیمی دَبی دھمکی دے سکیں کہ کامیاب ملتانی بغاوت کے نتیجے میں اَٹاروی والا خاندان اور بالخصوص شیر سنگھ اور چتر سِنگھ کے پاس بھی اُنکے جیوّن سمیت کُچھ باقی نہی بچے گا ۔ اَلبتہ وہ اُوپر اُوپر شیر سنگھ سے نہایت عزت و احترام سے پیش آتے تھے ـ شیر سنگھ اور اَٹاری والا پریوّار بھی کمپنی سرکار کی طرف سے پنجاب حکومت میں اپنے حصے داری کی خواہش دل میں لئے ھوٖئے تھا ـ اس لئے وہ بھی اپنے مفاد کے تحت انگریزوں کا ساتھ دے رہے تھے ـ شیر سِنگھ کو ریزیڈنٹ پنجاب کیطرف سے ہدایات مِلیں کہ وہ دو اور مقامی افسروں یا سہولت کاروں یعنی اِمادلدین اور جواہرلال کے ساتھ مِل کر قلعہ پر چڑھائی کریں اور جنرل وہش کا ساتھ دیں ـ دوسرے لفظوں میں ملتان تین اطراف سے جارح قوتوں کی زد میں تھا ـ خالصہ دربار کی فوج اُتر کی طرف سے، بہاولپور اور داؤد پوترے دکھنی سَمت سے، جبکہ جنرل کارٹلینڈ اور ایڈورڈ کی فوجیں پَچھم کیجانب سے حملہ آوّر ھونی تھیں ـ

گویا مُلتانی قلعے اورمُولراجی اقتدار کے خاتمے کی خواہش میں خالصہ دربار اور انگریز سرکار شیرو شکر تھے ـ ایک طرف کارٹلینڈ اور ایڈورڈز شیر سنگھ کو اداب و احترام سے نواز رھے تھے، دوسری طرف ایبٹ آباد (ھزارا) کے ڈپٹی کمشنر جیمز ایبٹ کا رویہ اِٹاری والا خاندان سے خراب ہوتے ہوتے توحین آمیزی کی حد تک پہنچ گیا تھا ـ جو کہ ایک سوچا سمجھا طریقہ ہی لگ رہا تھا ـ تاکہ اٹاری والا خاندان کی خُوش فہمیوں کو پاش پاش کرکے اُنہں کمپنی بہادر کے عام اھلکاران کی صف میں لا کھڑا کیا جا ئے ـ ایک طرف انگریز کی طاقت دِن دُگنی، رات چُگنی ھوتی جا رہی تھی، دوسری طرف قلعہء ملتان میں گھٹتے گھٹتے اب صرف دو ہزار ریگولر آرمی، پانچ یا چھ توپیں ـ اور بہت محدوُد گولا بارود رباقی رہ گیا تھا ، باقی کی فوج تلواروں، برچھیوں یا پھر کھیتی باڑی کے اوزاوں سے ہی لڑنے پر مجبور تھی جنکی کوئی رسمی تربیت بھی نہیں تھی ـ اس لئے صورتِ حال وقت کیساتھ ساتھ تشویشناک ہوتی جا رہی تھی ـ
جنرل وہش کی سر کردگی میں ایک دستہ لاھور کیطرف سے ملتان کیجانب رواں دواں تھا ـ جبکہ دربار کی فوج شیر سنگھ اٹاری والا کی کمان میں ملتان آ رہی تھی ـ یہ صورتِ حال بھانپتے ہی مُولراج رہا سہا حوصلہ بھی ہار بیٹھا کیونکہ وہ پہلے دن سے ہی انگریز سرکار کیخلاف نبرد آزما ہونے کے لئے تیار نہ تھا ـ اگر مقامی سِپاہیوں کا دباؤ اور حوصلہ افزائی نہ ہوتی ۔ اِسی لئے ایک طرف تو وہ ملتانی عوام کی مزاحمت کا سپہ سالار بنا پھرتا تھا اور دوسری طرف ریذیڈنٹ پنجاب کو معافی نامے یا رحم کی درخواستیں بھیجے چلا جا رہا تھا ـ حقیقت میں یہ مُلتان کے سپاہی اور عوام ہی تھے جو تن من دھن سے میدانِ جنگ میں کود پڑے تھے ـ اور کسی صورت ریاست ملتان کو انگریزوں کی سر کردگی میں نہیں دینا چاہتے تھے ـ اور تو اور مولراج سکھ سپاہیوں کی حمایت حاصل کرنے میں بھی ناکام رہا تھا اور گراونڈ پر ذیادہ تر مقامی سرائیکی اور پشتون مسلم اور ہندوُ افواج انگریز فوج کے خلاف بر سرِ پیکار تھے ـ بڑی حد تک سِکھ سپاہیوں کا یہ بھی خیال تھا کہ مُولراج نے خالصہ دربار اور دلیپ سنگھ کے خلاف عَلمِ بغاوت بلند کیا ہے ـ اِس لئے اُسکو سزا ملنی چاہیے ـ لیکن جب مہارات سنگھ نے ملتانی باغیوں کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تو کسی حد تک ـ محدود وقت کے لئے ہی سہی ـ صورت حال بدلنے لگی ـ
اُدھر ‘لارڈ گَف’ شِملہ کے پُر فضا مقام پر آنے والی سردیوں میں محاذ ارائی کے مزید منصوبے بنا رہا تھا کہ وہیں پر اُسے ایڈوّرڈ کا خط ملا جِسمیں اُسنے کہا ” ہم ملتان کی بغاوت کو شمپین کی جھاگ کی طرح اُڑا کر رٓکھ دیں گے” ۔ جبکہ جاہن جونز کولے کے حقیقتِ حال مختلف تھی ـ برطانوی آرمی کو ہمہ وقت یہ دھڑکا لگا رہتا تھا کہ اگر ملتانی باغی سپاہی، مقامی نوابوں، سرداروں اور سکھوں نے آپس میں اتحاد بنا لیا تو اُنکی شکستِ فاش یقینی تھی ـ جُون جولائی کی جان لیوا تپش میں میں دوتین مرتبہ مخالف فوج میں محاز آرائی ھو چُکی تھی ـ برطانوی کیمپوں میں وقتا” فوقتا” یہ اِعلان بھی ھوتا رہتا تھا کہ ملتانی سپاہ سے ایک یا دو ہفتوں کے اندر اندر دوبارا سامنا ھو گا ـ اِسی دواران پہلے ہی دو ایک مرتبہ قلعہ بند کچھ ملتانی سپاہی صورتِ حال کا جائزہ لینے کے لئے باہر نکلے مگر کوئی گولی شُوٹ کیے بغیر واپس اندر چلے گئے ـ اِن دو مہینوں کے دواران اگر وہ مکمل تیاری سے انگریزی فوج پر حملہ آور ہوتے توانگریز افسران میں سے شاید ایک بھی باقی نہ رہتا ـ مگر بد قسمتی یا مولراج کے متزلزل ارادوں اور خود ساختہ خوف نے کہ ‘شاید انگریزوں کی معیت میں کوئی بہت بڑی فوج تھی’ ملتانی سپاہ کو دفاعی حکمت اختیار کرنے کی بجائے بڑے پیمانے پر کوئی جارحانہ کاروائی کرنے سے بار بار روکا ـ یہی دوماہ ہی تاریخ کا رُخ موڑنے کے لئے اہم ترین ثابت ھوئے اور متزلزل قلب مُولراج نے دونوں ماہ نہ خود کسی بہادری کا جوہر دکھایا اور نہ ہی کِسی اور ملتانی سُورما کو سپہ سالاری سونپ کر آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا ـ عسکری پیش بندی سے خالی قلعہ بندی کے یہی دوماہ انگریزی اتحادی فوج کے لئے برصغیر کی نو آبایاتی تاریخ کا سب سے بڑا اثاثہ ثابت ھوئے ـ
لیفٹینیٹ ایڈروّرڈز، ٹِبہ قیصرانی پر پڑاو ڈالے میجر جنرل وہش کے تازہ دم دستے کے انتظار میں تھا تاکہ وہ تینوں اطراف سے حملہ کرکے قلعہ ملتان کو روئی کے گالوں کیطرح اُڑا کر رکھ دے ـ بالآخر سورج کُنڈ ندی کے مغرب میں دونوں دوستوں نے ایک دوسرے کا فوجی اعزاز و اکرام کے ساتھ استقبال کیا ـ سورج کنڈ گاوں کے نزدیک ایک چھوٹی مگر تیز تر بہنے والی نہر تھی جو محاصرہ آرائی کے دوران سَر تا سَر تھی اور پُلوں کے بغیر کراس نہیں کی جا سکتی تھی ۔

                            

***

اے وی پڑھو:

تریجھا (سرائیکی افسانہ)۔۔۔امجد نذیر

چِتکَبرا ( نَنڈھی کتھا )۔۔۔امجد نذیر

گاندھی جی اتیں ٹیگور دا فکری موازنہ ۔۔۔امجد نذیر

گامݨ ماشکی (لُنڈی کتھا) ۔۔۔امجد نذیر

سرائیکی وسیع تر ایکے اتیں ڈائنامکس دی اڄوکی بحث ۔۔۔امجد نذیر

امجد نذیر کی دیگر تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: