اپریل 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

2022میں صوبہ سندھ وبائی امراض کی لپیٹ میں رہا

متعدد افراد جان کی بازی ہار گئے۔ کبھی جان لیوا مچھر اور کبھی آلودہ پانی شدید بیماریوں کا سبب رہا ۔

سال 2022 کا سورج غروب ہونے کو تیار ۔ 2022 میں صوبہ سندھ وبائی امراض کی لپیٹ میں رہا۔

متعدد افراد جان کی بازی ہار گئے۔ کبھی جان لیوا مچھر اور کبھی آلودہ پانی شدید بیماریوں کا سبب رہا ۔

سال 2022 صوبہ سندھ میں غیر معمولی بارشوں اور سیلاب کے سبب وبائی امراض کی لپیٹ میں رہا ۔
سال 2022 میں جہاں طوفانی بارشوں اور سیلاب نے اپنے ستم ڈھائے ، وہیں پاکستان کو پولیو فری بنانے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔

سندھ میں جولائی سال 2020 سے ایک بھی پولیوکیس رپورٹ نہیں ہوا،لیکن کراچی کے ماحولیاتی سیمپل میں پولیو وائرس کی موجودگی پائی گئی۔

کراچی میں صاف پانی میں پائے جانے والا دماغ خور جرثومہ نگلیریا 6 افراد کی زندگیاں نگل لیا ۔

سال 2022 کے دوران سندھ میں آلودہ پانی کے سبب ڈائریا سے 11 لاکھ 35 ہزار 849 سے

زائد افراد متاثر ہوئے ۔
پیچش کے 1 لاکھ 17 ہزار 565 سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے۔

دونوں امراض سے مجموعی طور پر صوبہ میں 20 افراد جان کی بازی ہار گئے

جن میں سے پانچ سال سے کم عمر 14 جبکہ پانچ سال سے زائد عمر کے 6 افراد جابحق ہوئے۔ سندھ میں ہیضہ کے 434 کیسز رپورٹ ہوئے ۔

آلودہ پانی کے سبب ہی سندھ میں 2 لاکھ 9 ہزار 185 افراد ٹائیفائیڈ سے متاثر ہوئے ،جبکہ خطرناک جان لیوا مچھروں کے سبب ڈینگی اور ملیریا کیسز کے بھی گزشتہ تین سالہ ریکارڈ ٹوٹ گئے ۔

رواں سال سندھ میں اب تک ڈینگی کے 22 ہزار 896 سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ 62 افراد جان کی بازی ہار گئے

، جن میں سے 49 کا تعلق کراچی سے تھا ،سندھ میں ملیریا کے 3 لاکھ 79 ہزار 898 سے زاید افراد متاثر ہوئے جبکہ 23 افراد مرض سے چل بسے۔

ایچ آئی وی سے متاثر افراد کی تعداد بھی سندھ میں 90 ہزار سے زائد ہوگئی جبکہ 19 ہزار 766 رجسٹرڈ مریضوں کا تعلق کراچی سے ہے

، رواں سال کے پہلے سہ ماہی میں کورونا وائرس کے اومی کرون ویرنیٹ نے تباہی مچائی ، سندھ میں عالمی وبا کے آغاز سے

آج تک 5 لاکھ 91 ہزار 474 کیسز رپورٹ جبکہ 8 ہزار 251 افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔۔

رواں سال صوبہ سندھ کو عالمی وبا سمیت قدرتی آفات کے سبب مختلف وبائی امراض کا سامنا رہا

مگر محکمہ صحت سندھ کی باقاعدہ حکمت عملی نظر نہیں آئی۔۔

اگر بر وقت صحت کی ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے احتیاطی اقدامات کیے جاتے تو متعدد قیمتی جانوں کے ضیاع سے بچا جا سکتا تھا۔۔

%d bloggers like this: