نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

لفظ ’’یوتھیا‘‘ کے خالق ۔۔۔||مبشرعلی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاگل خان نے قوم کو اتنا زہر آلود کردیا ہے کہ اچھے خاصے لوگ باولے ہوچکے ہیں۔ کسی پرانے واقف اور پڑھے لکھے بندے سے بھی بات کرتے ہوئے خدشہ رہتا ہے کہ یوتھیا نہ نکل آئے۔ الحمداللہ محسن سعید سے گفتگو کرتے ہوئے یہ ڈر نہیں ہوتا۔ ساری دنیا یوتھیا ہوجائے تو بھی وہ نہیں ہوسکتے۔ وجہ یہ کہ پاکستان کی سیاسی لغت میں لفظ یوتھیا ان ہی کی دین ہے۔ لاکھوں افراد روز یہ لفظ استعمال کرتے ہوں گے لیکن بہت کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہوگی۔
لفظ یوتھیا کی ایٹمالوجی دلچسپ ہے، یعنی ایک مقبول عام گالی کی تجسیم۔ محسن سعید کے بعد دوسرے "ماہرین لسانیات” نے یوتھیا کیفیات کی مزید تشریح کی اور یوتھیاپا، یوتھیالوجی اور یوتھوپیا کے بعد اسی طرز پر ایک لفظ عمرانڈو تخلیق کیا۔
محسن سعید ان دنوں امریکا میں ہیں۔ کل ان سے برسوں بعد ملاقات ہوئی۔ ان سے پہلا سامنا بیس سال پہلے جیونیوز میں ہوا تھا۔ نیوزروم میں وہ اور میں آمنے سامنے بیٹھتے تھے۔ میں اسپورٹس ڈیسک پر تھا اور وہ انٹرٹینمنٹ ڈیسک کے روح رواں۔ ان کے بائیں جانب بینا سرور کی نشست تھی اور دائیں طرف بزرگ صحافی وحید حسینی کی۔ حسینی صاحب طویل عرصہ دہلی میں جنگ کے نمائندے رہے تھے۔ واپس آنے کے بعد جیونیوز کی انٹرنیشنل ڈیسک کے سربراہ بنائے گئے۔ پتا نہیں وہ عہدہ نمائشی تھا یا حسینی صاحب کو کام کرنے کا موقع نہیں ملا، یا وہ کرنا نہیں چاہتے تھے۔ بہرحال گفتگو مزے کی کرتے تھے۔ ان کے پاس دہلی میں قیام کے دورانیے کی، اور اس کے علاوہ بھی بہت کہانیاں تھیں جو وہ اپنے مخصوص بے لاگ انداز میں سناتے تھے۔ افسوس ہمارے بہت سے صحافی کتابیں نہیں لکھتے اور کہانیاں مٹی میں گم ہوجاتی ہیں۔
محسن مجھ سے عمر میں بھی پانچ سال بڑے ہیں اور صحافت میں بھی۔ انھوں نے کرئیر کا آغاز نوے کی دہائی کے آغاز میں دی نیوز سے کیا۔ وہ اس شاندار ٹیم کا حصہ تھے جس میں عمران اسلم، قطرینہ حسین، بینا سرور، کلیم عمر، گل حمید بھٹی جیسے سینئرز تھے اور اظہر عباس، ندیم فاروق پراچہ، اویس توحید، نصرت امین اور بعد میں شاہزیب جیلانی جیسے نوجوان۔
پاکستان میں چار میڈیا ادارے ایسے ہیں جنھوں نے غیر معمولی ٹیمیں بنائیں اور کامیابی سے آغاز کیا۔ یعنی حریت، دی نیوز، روزنامہ ایکسپریس اور جیو۔ میں ایکسپریس کی لانچنگ ٹیم میں شامل تھا۔ اگرچہ جیو میں تھوڑی تاخیر سے پہنچا لیکن ابتدائی سنہری دور دیکھا ہے۔ جناب رضا علی عابدی نے اخبار کی راتیں کے عنوان سے کتاب لکھ کر حریت کو امر کردیا ہے۔ دی نیوز، ایکسپریس اور جیو کی داستانوں کا کہا جانا باقی ہے۔
محسن کل کی ملاقات میں عمران اسلم کی باتیں کرتے رہے جن کا دو روز پہلے انتقال ہوا ہے۔ عمران صاحب ان کے گرو تھے۔ کرئیر کے آغاز پر ایسا استاد مل جائے تو زندگی سنور جاتی ہے۔ ایسا استاد کھو جائے تو تکلیف بھی بہت ہوتی ہے۔ ان کے رخصت ہونے پر صرف محسن سعید نہیں، سیکڑوں افراد دکھی ہیں۔ میں بھی دکھی ہوں لیکن تھوڑا اطمینان بھی ہے۔ یہ اطمینان کہ عمران اسلم نے اپنی مرضی کی زندگی گزاری۔ اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا اور اپنوں پرایوں سے خود کو تسلیم کروایا۔ بہت سے لوگوں کو متاثر کیا اور اپنا نقش چھوڑ کر گئے۔ موت پر غم درست لیکن بھرپور زندگی کی تکمیل پر خوشی بھی ہونی چاہیے۔
محسن ان لوگوں میں سے ہیں جن سے بات کرنا مجھے اچھا لگتا ہے۔ وہ ایسے آدمی ہیں جن کا ظاہر باطن ایک ہے۔ کوئی تصنع، کوئی بناوٹ نہیں۔ جو دل میں ہے، وہ زبان پر ہے۔ اور جو دل میں آئے گا، وہی کریں گے۔ میں امریکا میں درجنوں جاب انٹرویوز میں ناکام ہوکر مایوس بیٹھا تھا۔ انھوں نے یہ بتاکر میرے حوصلے بلند کردیے کہ وہ کبھی انٹرویو میں کامیاب نہیں ہوئے۔ خیر، ان کے کامیاب نہ ہونے کا سبب مجھ سے مختلف ہے۔ مجھے کچھ آتا جاتا نہیں۔ محسن انٹرویو لینے والے کو رگڑا لگا دیتے تھے۔ ایک میڈیا چینل کے مالک نے ان کا انٹرویو لیا تو پوچھا، آپ کی اردو کیسی ہے؟ محسن نے کہا، آپ سے اچھی۔ مالک کو برا لگا ہوگا لیکن یہ سوچ کر پی گیا کہ گفتگو انگریزی میں ہورہی تھی۔ پھر اس نے پوچھا، آپ کی انگریزی کیسی ہے؟ محسن نے کہا، وہ بھی آپ سے اچھی ہے کیونکہ آپ آج تک کہیں نہیں چھپے اور میں عالمی اخبارات میں چھپ چکا ہوں۔
ایک اور جگہ انٹرویو ہوا تو ان سے پوچھا گیا، کوئی مطالبہ ہے تو بتائیں۔ انھوں نے کہا، جی ہاں۔ مجھے اجازت دیں کہ جب کوئی احمقانہ بات کرے تو اس کے منہ پر ایک جھانپڑ رسید کروں۔ میں نے پچیس برسوں کی ملازمت میں جتنی احمقانہ باتیں دیکھی اور سنی ہیں، یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ محسن کا مطالبہ تسلیم کرلیا جاتا تو ان کی سالانہ خبروں کی تعداد ان کے جھانپڑوں کا دس فیصد ہوتی۔
محسن ایک دن جیو میں کوئی رپورٹ فائل کررہے تھے۔ لکھتے لکھتے اچانک نہ جانے جی میں کیا آئی کہ کمپیوٹر بند کیا، استعفا ڈائریکٹر نیوز کی میز پر رکھا اور سیڑھیاں اتر گئے۔ میں نے پوچھا، اپنے فیصلے پر افسوس ہوتا ہے؟ انھوں نے کہا، ہرگز نہیں۔ جب زندگی آگے بڑھ جائے تو پیچھے مڑ کر نہیں دیکھنا چاہیے۔ محسن فیشن ڈیزائننگ میں چلے گئے اور بہت کامیاب رہے۔ پاکستان میں کئی سال سے جرنلزم کا جو حال ہے، اپنی مرضی سے نکل جانے والا ہر شخص میں نے خوش دیکھا ہے۔
محسن کا ملنا جلنا بڑے لوگوں سے رہا ہے۔ مشہور لوگوں سے بھی اور بڑے لوگوں سے بھی۔ ہم جن لوگوں کے نام اخبار میں پڑھتے رہے، ان سے محسن کی قربت رہی بلکہ گھر والی بات۔ سیاسی رہنماوں سے تعلقات الگ اور بڑے صحافیوں سے دوستی الگ۔ کسی واقعے میں انھوں نے ساقی چچا کا ذکر کیا۔ میں نے پوچھا، کون ساقی چچا؟ انھوں نے بتایا، ساقی فاروقی ان کے والد کے گہرے دوست تھے۔ کسی دورے پر وہ لندن گئے تو زہرا نگاہ، ساقی چچا اور ایم ایف حسین کے ساتھ وقت گزارا۔ سبین محمود ان کی ایسی دوست تھیں کہ وہ آج تک ان کا غم نہیں بھولے۔ فیس بک پر آج بھی ان کی پروفائل پر سبین کی تصویر لگی ہے۔
محسن اظہار نہیں کرتے لیکن وہ سماجی ایکٹوسٹ ہیں۔ کئی ایسی مہمیں انھوں نے چلائی ہیں اور ان کے مثبت نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ سوات کے طالبان کے خلاف مہم الطاف حسین نے ان کے کہنے پر شروع کی حالانکہ ان کا ایم کیو ایم سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ طالبان کے خلاف کارروائی سے ہچکچانے والی فوج کو بھرپور عوامی حمایت ملی تو صرف دو ہفتے بعد اس نے آپریشن شروع کردیا اور طالبان کا صفایا ہوگیا۔
کل محسن سے ملاقات ہوئی تو وہاں علی سلیم بھی تھے۔ لوگ ان سے زیادہ بیگم نوازش علی کے کردار سے واقف ہیں۔ میں نے علی سے پوچھا کہ آج کل کیا کررہے ہیں؟ انھوں نے کہا کہ کچھ نہیں۔ میں نے کہا کہ اس قدر باصلاحیت فنکار کو خالی نہیں بیٹھنا چاہیے۔ کچھ نہ کچھ کرتے رہنا چاہیے۔ انھوں نے جواب دیا کہ ہاں، کروں گا۔ لیکن آرٹسٹ کو بریک بھی لینا چاہیے۔ میں نے اس بات سے اتفاق کیا۔
علی سلیم سے گفتگو کرکے اندازہ ہوا کہ بیگم نوازش علی کا کردار محض اداکاری نہیں تھا۔ وہ پختہ سیاسی شعور اور پاکستان کے حقیقی مسائل کا ادراک رکھتے ہیں۔ اگر ادیب شاعر اور فنکار کو سیاسی شعور نہ ہو تو وہ اکہرا رہ جاتا ہے۔ علی سلیم اکہرے نہیں ہیں۔ مجھے امید ہے کہ وہ جلد کچھ اچھا، کوئی کمال کا کام کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں:

مبشرعلی زیدی کے مزید کالم پڑھیں

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

About The Author