حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احمد نورانی اب امریکہ میں مقیم ہے اور گن گن کر ’’اُن‘‘ سے بدلے لے رہاہے جن کے ماتحتوں نے اس پر اُس وقت تشدد کیا تھا جب وہ اپنے ہی ملک میں مقیم تھا۔ نورانی پر تشدد ہوا تو آجکل کے سارے اینٹی اسٹیبلشمنٹ مجاہدین جو ان دنوں ففتھ جنریشن وار کے مجاہد ہوا کرتے تھے، یہ اسے ’’برادرِ نسبتیان ‘‘ کا حملہ قرار دیتے تھے۔
کچھ کے خیال میں یہ سستی شہرت کے حصول کے لئے ڈرامہ تھا۔ پھر ایک دن احمد نورانی ملک چھوڑ کر چلا گیا۔ ففتھ جنریشن کے وار کے مجاہدینِ عمرانیات نے آسمان سر پر اٹھالیا۔ دیکھا ہم نہ کہتے تھے ’’یہ بیرون ملک بھاگنے کا سامان ہورہا تھا۔ یہ غیرملکی ایجنٹ پاک فوج کو بدنام کرتے ہیں‘‘۔
آجکل ففتھ جنریشن وار کا شعبہ عمرانیات اسٹیبلشمنٹ کا مخالف ہے تنقید کے ساتھ گالم گلوچ بھی کھلے دل سے کرتا ہے۔ عمران خان کہتے ہیں ارشد شریف کے قتل کی ایف آئی آر مقتول کی والدہ کی درخواست پر درج ہونی چاہیے تبھی انصاف کے تقاضے پورے ہوں گے۔ ان کے دور اقتدار میں احمد نورانی پر تشدد کے ذمہ داروں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی درخواست دی گئی تھی تب وزارت داخلہ کا موقف تھا یہ درخواست اصل میں پاک فوج کو بدنام کرنے کے سلسلے کی کڑی ہے۔
معاف کیجئے گا یہ تذکرہ یونہی درمیان میں ہوگیا۔ نورانی نے دو ہفتے قبل لالہ حاجی باجوہ، ان کے اہل خانہ اور سمدھیانے کے اثاثوں کی خبر بریک کی۔ پاکستان میں اس ’’ویب سائٹ‘‘ پر پابندی لگ گئی لیکن خبر اور اثاثوں کی تفصیل کوبکو پھیل گئی۔ نورانی نے اب نیا بائونسر پھینکا ہے اس کا دعویٰ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے 5سابق اور 4حاضر سروس افراد کے 2017ء کے اثاثے تقریباً سوا سو ارب ڈالر تھے اب تین سو ارب ڈالر سے زیادہ ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ چند سال قبل احمد نورانی کو جھوٹا ملعون اور پاکستان دشمن قرار دینے والے مجاہدین اس کی نئی سٹوری کا اشتہار بنائے سوشل میڈیا پر جہاد میں مصروف ہیں۔ یقیناً ایک آدھ دن کے بعد آئی ایس پی آر لالہ حاجی باجوہ والی سٹوری کی طرح اس سٹوری کو بھی مسترد کرتے ہوئے 5سابق اور 4حاضر خادمین کی صفائی پیش کرے گا۔
کرنی بھی چاہیے کیونکہ یہ اثاثے بس اس نقصان سے صرف ایک سو ارب ڈالر کم ہیں جو پاکستان کی افغان پالیسی کی وجہ سے گزشتہ 43برس میں ہوا۔ ان 43برسوں میں ککھ پتی کروڑ پتی ہوئے۔ کچھ ارب پتی اور کچھ کھرب پتی بھی۔ جہاد کا دھندہ بہت سوں کو راس آیا۔
اس دھندے کے ذریعے امیر ہونے والوں اور بیرون ملک اثاثے بنانے والوں کی ایک مصدقہ فہرست بمعہ پوسٹل ایڈریس 1999ء کے اوائل میں ’’دی فرنٹیئر پوسٹ‘‘ پشاور نے شائع کی تھی اس کا "تسلی بخش” جواب دیتے ہوئے اخبار کے پرنٹر پبلشر اور چیف ایڈیٹر رحمت شاہ آفریدی کو اے این ایف نے چرس کی سمگلنگ میں گرفتار کرلیا تھا۔ رحمت شاہ آفریدی کی گرفتاری، سزا اور پھر رہائی ایک طویل داستان ہے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ احمد نورانی اگر اس وقت پاکستان میں ہوتے تو یقیناً من سوا من چرس وغیرہ بریف کیس میں لے کر گھومنے کے ’’جرم‘‘ میں دھرلئے گئے ہوتے۔ امریکہ میں مقیم ہیں اس لئے خطرے والی بات نہیں۔
آج کی دوسری کہانی، محلہ گلیانی ڈاکخانہ چوٹی زیریں تحصیل کوٹ چھٹہ ضلع ڈیرہ غازی خان کے نوجوان خرم عباس کی ہے۔ خرم عباس پیپلزپارٹی سے منسلک ہے۔ نوجوان ہے ظاہر ہے جذباتی بھی ہے۔ وہ فیس بک اور ہوٹلوں چوپالوں پر سیاسی بحث کرتے ہوئے بے لاگ اور بے رحم تبصرے کرتا ہے خصوصاً اسٹیبلشمنٹ کے خلاف۔
کچھ عرصہ قبل اس کے والد بزرگوار کا سانحہ ارتحال ہوا، بیوہ والدہ کا اکلوتا فرزند ہے۔ دو تین دن قبل ایک کالے ویگو ڈالے میں سوار نامعلوم سفید پوش افراد نے خرم کو گھر سے اٹھایا اور اڑنچھو ہوگئے تب سے تادم تحریر اس نوجوان کا کچھ پتہ نہیں چل رہا۔
بیوہ والدہ اکلوتے بیٹے کے اغوا پر شدید پریشان ہے اس کے کچھ رشتہ داروں اور عزیزوں نے بساط مطابق ہاتھ پائوں مارے بھاگ دوڑ کی لیکن خرم کا پتہ نہیں چل رہا۔ نوجوان خرم بھی دوسرے لوگوں کی طرح اسٹیبلشمنٹ کا ناقد ہے ہوسکتا ہے تنقید میں توازن نہ رکھ پاتا ہو لیکن اسٹیبلشمنٹ نے بھی تو مداخلت میں کبھی توازن نہیں رکھا۔
اب کہا جارہا ہے کہ پچھتر برسوں کی سیاسی مداخلت کے منفی نتائج برآمد ہوئے اس لئے سیاست کو خیرباد کہہ کر اپنے حقیقی کردار تک محدود ہونے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
حاجی لالہ باجوہ نے ریٹائرمنٹ سے قبل کم از کم تین عدد تقاریر میں سیاسی مداخلت سے دامن و ہاتھ بچانے کا اعلان کرتے ہوئے بتایا تھا کہ عدم مداخلت کا فیصلہ فروری سال 2021ء میں کیا گیا تھا حالانکہ یہ مداخلت مارچ، اپریل 2022ء تک کسی نہ کسی طور جاری و ساری رہی۔
کہا جارہاہے کہ جو چھوٹی موٹی مداخلت اور ہلکی پھلکی ڈھولک بجائی گئی یہ انفرادی فعل تھے۔ ادارہ شخصی افعال کا ذمہ دار نہیں۔
یعنی ایڈیٹر کا مراسلہ نگاروں سے اتفاق رائے ضروری نہیں۔ فقیر راحموں کے بقول اگر ایڈیٹری جانبدار ہو تو پھر؟ اس پر راوی خاموش ہے۔
ہم نے بھی فقیر ر احموں کو خاموش رہنے کا مشورہ دیا۔ جواباً اس نے کتاب لہراتے ہوئے کہا میں تو مطالعہ میں مصروف ہوں۔ یہ جواب ویسا ہی ہے کہ ’’ادارہ کا شخصی افعال سے کوئی لینا دینا نہیں‘‘۔
خیر ہم خرم عباس نامی نوجوان کی بات کررہے تھے۔ پیپلزپارٹی والے اپنے ایک نوجوان کارکن کے اغوا پر چپ ہیں ان کا بولنا بنتا تھا۔ بولے کیوں نہیں یہ پیپلزپارٹی والے ہی بتاسکتے ہیں۔ خرم نامی نوجوان سیاسی ورکر کے اغوا اور غائب کئے جانے کو کیا سمجھا جائے؟
پیپلزپارٹی کو آواز بلند کرنی چاہیے۔ اس کے اغوا کا معاملہ قومی اسمبلی میں اٹھانا چاہیے، بیوہ والدہ کی دلجوئی بھی۔نوجوان خرم پر اگر کوئی سنجیدہ و غیرسنجیدہ الزام ہے تو اسے عدالت میں پیش کیا جائے تاکہ وہ اپنا حق دفاع استعمال کرسکے۔
تیسری کہانی بھی دلچسپ اور سبق آموز ہے۔ زاہد عباس ملک لاہور کے معروف صحافی ہیں۔کچھ عرصہ قبل انہیں پراسرار طور پر اغوا کرلیا گیا تھا۔ صحافیوں کی تنظیموں اور لاہور پریس کلب کے موثر احتجاج کے نتیجے میں اغوا سے چند دن بعد ان کی رونمائی کردی گئی پھر وہ رہا ہوگئے۔ اب انہیں چند دیگر نوجوانوں کے ساتھ سرگودھا میں درج ایک مقدمے میں سزا سنادی گئی ہے۔
یہ مقدمہ زاہد عباس کے اغوا سے پہلے درج ہوا تھا۔ ایف آئی آر کے مطابق ایک کالعدم تنظیم کے کارکنوں سے اشتعال انگیز مواد وغیرہ برآمد ہوا۔ استغاثہ کا موقف بہت کمزور تھااس کے باوجود سزائیں سنادی گئیں۔
مقدمہ درست ہے یا غلط یہ سزا پانے والوں کے وکلاء اپیل میں ثابت کریں گے۔ زاہد عباس چونکہ صحافی ہیں اور ان کے ساتھ کام کرنے اور شناسائی رکھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں وہ کام سے کام رکھنے والے نوجوان ہیں۔ صحافت ہی ان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ ضرورت سے زیادہ بات نہ کرنے کی شہرت رکھنے والے زاہد عباس کو کیوں سرگودھا میں درج ایک پرانے مقدمے میں ملوث کیا گیا اور یہ کہ جب صحافتی تنظیموں کے ذم داران ان کے اغوا کے دنوں میں حکومتی اور محکمہ جاتی ذمہ داران سے ملاقاتیں کررہے تھے تب مختلف محکموں کے ذمہ داران نے صحافیوں کے وفود کے سامنے وہ شواہد و ثبوت کیوں نہ رکھے جن سے زاہد عباس کے منفی سرگرمیوں میں شرکت اور کالعدم تنظیم سے تعلق واضح ہوتا تھا۔
لاہور کے ایک معروف صحافی کو سینکڑوں کلومیٹر دور سرگودھا میں درج مقدمے میں سزا دلوانے کا مقصد کیا ہے؟ کیا محض اس کی مسلکی شناخت؟
صحافتی تنظیموں کو اس صورتحال کا کسی تاخیر کے بغیر نوٹس لینا چاہیے۔ پنجاب حکومت کا بھی فرض ہے کہ وہ پی یو جے اور لاہور پریس کلب کو اعتماد میں لیتے ہوئے "وہ” ثبوت سامنے لائے۔
ایک چوتھی کہانی بھی ہے جو کوئٹہ سے موصول ہوئی ہے دانستہ اس پر بات نہیں کرنا چاہتا۔ فی الوقت تیسری کہانی کی اہمیت ہے کیونکہ اس میں ایک قلم مزدور کو ملوث کیا گیا ایسے قلم مزدور کو جس کا غیرصحافتی یا فرقہ وارانہ سرگرمیوں سے کوئی تعلق نہیں۔
آپ تینوں کہانیاں پڑھ چکے اس طرح کی اور بہت ساری کہانیاں ہمارے چار اور دندناتی پھر رہی ہیں۔ لیکن آج کی ایک آدھی کہانی یہ ہے کہ پنجاب کے جوڈیشل وزیراعظم قبلہ چودھری پرویزالٰہی کے سرکاری جہاز کی مرمت یا نئے جہاز نہ خرید سکنے کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ وزیراعلیٰ کے لئے 5ماہ کے لئے کرائے پر جہاز حاصل کرلیا جائے۔
پانچ ماہ کا کرایہ ظاہر ہے کروڑوں میں ہوگا۔ فقیر راحموں پوچھ رہا ہے شاہ جی جب عمران خان دسمبر میں دو صوبائی اسمبلیاں توڑنے پر بضد ہے تو پھر وزیراعلیٰ پنجاب کی سہولت کیلئے 5ماہ کی مدت کے لئے کرائے پر جہاز لینے کا فیصلہ کیوں کیا گیا؟
فقیر راحموں اتنا سادہ بھی نہیں اسے سارے پھواڑے بارے علم ہے لیکن سوال ہماری طرف اچھال کر مسکین صورت بنائے کتاب کے اوراق الٹ رہا ہے۔
بہتر ہوگا آپ اس سوال کا جواب تلاش کیجئے مل جائے تو ہمیں بھی آگاہ کیجئے گا۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ