اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

گریٹر تھل اور کالا باغ ڈیم!!!۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کی زیر صدارت صوبائی کابینہ کا پانچواں اجلاس منعقد ہوا۔ پنجاب کابینہ کے اجلاس میں گریٹر تھل کینال معاہدے پر ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے ساتھ دستخط نہ کرنے پر وفاقی حکومت کے رویے کے خلاف سخت احتجاج کیا گیا اور وفاقی حکومت کے رویے کی شدید مذمت کی گئی۔ وزیراعلیٰ پرویز الٰہی کا یہ کہنا درست ہے کہ وفاقی حکومت کی نا اہلی کی وجہ سے ملکی خزانے سے ایک ارب ڈالر کا فالتو زرمبادلہ ضائع ہو رہا ہے اور اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ایشین ڈویلپمنٹ بینک سے دوبارہ معاہدے کی صورت میں لاگت 2 گنا سے زیادہ بڑھ جائے گی۔ گریٹر تھل اور کالا باغ ڈیم بنیادی طور پر وسیب کے منصوبے ہیں اور آبپاشی کے ان منصوبوں سے وسیب کی زمینیں سیراب ہوں گی۔ ان منصوبوں کا سب سے بڑا جرم یہی ہے۔ ان منصوبوں پر خوب سیاست کی جا رہی ہے۔ وسیب کے سیاستدان خاموش ہیں جبکہ مقتدر سیاستدانوں کا رویہ یہ ہے کہ جب شہباز شریف پی ڈی ایم کے اتحادی نہیں تھے تو کالا باغ ڈیم کے زبردست حامی تھے۔ اب اُن کی پیپلز پارٹی سے ریلیشن شپ قائم ہوئی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ایک تو کیا سو کالا باغ ڈیم سندھ کی محبت پر قربان کئے جا سکتے ہیں۔ اس رویے کو ختم ہونا چاہئے، ملک و قوم کے بہترین مفاد میں قومی منصوبوں پر سیاست نہیں ہونی چاہئے اور اس بات کو بھی سامنے رکھنا چاہئے کہ آبپاشی کے منصوبے صرف ناجائز الاٹمنٹوں کیلئے نہیں ہونے چاہئیں بلکہ پانی کی ضروریات پوری کرنے کیساتھ ساتھ جہاں یہ منصوبے بنائے جائیں وہاں کی زمینیں وہاں کے اصل حقداروں کو ملنی چاہئیں۔ وفاقی وزیر برائے آبی وسائل سید خورشید شاہ نے پچھلے دنوں کہا تھا کہ پاکستان میں ہر سال 10سے 15 ارب ڈالر کا پانی ضائع ہو رہا ہے جبکہ ہم دو ارب ڈالر کی امداد کیلئے دنیا کی طرف دیکھتے ہیں۔ وہ لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں خطاب کے دوران انہوں نے پانی کے حوالے سے درست موقف اختیار کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ ہم زرعی پیداوار بڑھانے کا منصوبہ بنا رہے تھے تاکہ زرعی برآمدات بڑھائی جا سکیں لیکن سیلاب نے بڑا دھچکا لگایا ہے۔ پاکستان میں پانی کی کپیسٹی 140 ملین ایکڑ فٹ ہے لیکن ذخیرہ کرنے کی گنجائش صرف 13 ملین ایکڑ فٹ ہے۔ 80 فیصدمعیشت کا تعلق زراعت سے ہے لیکن اسے نظر انداز کیا جاتا ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ سید خورشید شاہ کو اس بات کا احساس ہوا ہے کہ ڈیمز بہت ضروری ہیں اور ان کا یہ کہنا بھی خوش آئند ہے کہ اتفاق رائے سے ڈیم بنائے جا سکتے ہیں۔ لاہور چیمبر آف کامرس کے صدر میاں نعمان کبیر کا یہ کہنا درست ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پانی کا ضیاع خطرناک ہوتا جا رہا ہے اور سیلاب تباہ کن شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ ایران بلڈوزر کے ذریعے پانی کی بچت کر رہا ہے ہم سمندر میں ضائع کر رہے ہیں لیکن ایک بات یہ بھی ہے کہ ڈیمز کی تعمیر کے سلسلے میں سب سے زیادہ اہمیت کالا باغ ڈیم کو حاصل ہے مگر یہ ڈیم متنازعہ بھی پنجاب کی وجہ سے بنا ہوا ہے۔ ملک و قوم کے بہترین مفاد میں اس مسئلے کو حل کرنا ضروری ہے۔ اسی میں ملک و قوم کا بہترین مفاد ہے۔ اس سال کے سیلاب نے بہت سے حقائق کو کھول کر سامنے رکھ دیا ہے۔ اب برف پگھلنے لگی ہے۔ ڈیم کے مخالفین کو بھی اس بات کا احساس ہوتا جا رہا ہے کہ ڈیم کتنے ضروری ہیں۔ کالا باغ ڈیم کے حوالے سے بھی سیاست کی جا رہی ہے مسئلہ ٹیکنیکل ہے مگر اسے سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے۔ وسیب میں رودکوہی کے بد ترین سیلاب نے کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلے کے ساتھ چھوٹے ڈیمز کی اہمیت کو مزید اجاگر کرد یا ہے اور حالیہ سیلاب کے بعد کالا باغ ڈیم کا مسئلہ ایک مرتبہ پھر زیر بحث آگیا ہے۔ سینئر صحافی اور سرائیکی رہنما محترم نذیر لغاری کا یہ کہنا درست اور بجا ہے کہ سرائیکی وسیب کے خطہ دامان میں سیلاب دریا سے نہیں بلکہ کوہ سلیمان کی رودکوہی سے آیا ہے مگر لغاری صاحب کی طرف سے کالا باغ ڈیم نا منظور ، نا منظور سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارا شروع سے موقف یہی ہے کہ صوبوں سے مذاکرات کے بعد آبپاشی خصوصاً کالا باغ ڈیم کا مسئلہ حل کیا جائے۔ دریائے سندھ ،ضلع میانوالی سے وسیب میں داخل ہوتا ہے پھر ڈیرہ اسماعیل خان ،ڈیرہ غازی خان ،بکھر لیہ مظفر گڑھ بہاولپور راجن پور اور رحیم یار خان کے اضلاع سے ہوتا ہوا سندھ کے ضلع سکھر میں داخل ہوتا ہے اور سندھ ہی کے ضلع ٹھٹھہ سے گزر کر سمندر میں جا گرتا ہے ۔سب سے پہلی بات جو سمجھنے کی ہے کہ وہ یہ ہے کہ ضلع میانوالی سے رحیم یار خان تک دریائے سندھ وسیب کے اضلاع سے گزرتا ہے ۔اب کالا باغ ڈیم کے حوالے سے جو بھی بحث ہو رہی ہے اس کا محور و مرکز سرائیکی علاقہ بنتا ہے اور کالا باغ ڈیم کے حوالے سے سندھ اور صوبہ سرحد کے قوم پرست سندھی سرائیکی سیاست دانوں کی طرف سے پنجاب کا لیکر نام جو گالیاں دیتے ہیں وہ نام پنجاب کا ہے دراصل یہ گالیاں بالواسطہ طور پر سرائیکی وسیب کیلئے ہی ہیں ،اس بات کو پشتون بھی سمجھتے ہیں۔کالا باغ ڈیم سرائیکی خطے میں بننا ہے ۔دریائے سندھ خیبر پختونخواہ سے شروع ہوتا ہے ،کالا باغ میانوالی ڈیرہ اسماعیل خان لیہ ڈیرہ غازی خان راجن پور اور کشمور تک 400کلومیٹر علاقے کے سینے پر چلتا ہے کشمور سے آگے سکھر بیراج اور کوٹری بیراج کے رقبے سیراب کرتا ہوا بدین وٹھٹھہ پر سمندر میں جا گرتا ہے ۔ باردیگر کہوں گا کہ پانی کے مسائل کے حل کیلئے اتفاق رائے سے کالا باغ ڈیم بنایا جائے۔ گریٹر تھل بھی ضروری ہے تاکہ وسیب کو پانی کا پورا حصہ مل سکے۔ اسی طرح ڈی آئی خان، ٹانک اور میانوالی کو بھی پانی کا پورا حصہ ملنا چاہئے کہ میانوالی پانی کا سرچشمہ ہے۔ ٭٭٭٭٭

 

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: