مئی 10, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ارشد شریف کے قتل کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ سامنے آگئی

ارشد شریف کی والدہ نے بھی 2 نومبر کو چیف جسٹس کو ایک خط لکھا تھا جس میں قتل کی تحقیقات کے لیے اعلیٰ اختیارات کے حامل عدالتی کمیشن کی تشکیل کی درخواست کی گئی تھی۔

صحافی ارشد شریف کے قتل کی پاکستان میں فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں کوئی واضح شواہد اور نتائج موجود نہیں۔

سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ کے مطابق ارشد شریف کو ایک منصوبہ بندی کے تحت قتل کیا گیا اور کینیا کی پولیس نے ارشد شریف کے قتل کی تفتیش میں کوئی تعاون نہیں کیا۔

ارشد شریف قتل کیس کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ پڑھنے کے لئے کلک کریں 

رپورٹ کے مطابق ارشد شریف پر گولی قریب سے چلائی گئی اور اُن کی گاڑی کی نشست میں گولی کا سوراخ نہیں پایا گیا۔ جس وقت وہ کینیا گئے اُن کے ویزے کی معیاد میں 20 دن باقی تھے۔

ارشد شریف نے ویزے کی مدت میں توسیع کے لیے 22 اکتوبر کو رجوع کیا تھا۔

ارشد شریف کو ایک گولی کمر کے اوپر والے حصے میں لگی۔

ارشد شریف نے وقار احمد کے فارم ہاؤس پر دو ماہ تین دن قیام کیا جبکہ میزبان کے کینین انٹیلیجنس سے قریبی تعلقات ہیں۔

رپورٹ بتاتی ہے کہ ملک بھر میں درج مقدمات کر کے ارشد شریف کو پاکستان چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق 27اکتوبر کو ارشد کے وکیل نےبتایا کہ آئی ایس پی آر ارشد کا دوسرا گھر تھا، اور ارشد شریف بریگیڈیئرشفیق کے بہت قریب تھے، حکومت کی تبدیلی کے بعد ارشد شریف کے بریگیڈیئرشفیق سے اختلافات پیدا ہوئے اور ارشدشریف کے خلاف کچھ مقدمات بریگیڈیئرشفیق کے کہنے پر درج کیے گئے۔

رپورٹ کے مطابق ارشد شریف کے قتل کے بارے میں فیصل واوڈاکی پریس کانفرنس پر ان سے 15نومبر کو رابطہ کیا گیااور شواہد طلب کیے گئے، ان کی درخواست پر ٹیم نے ان کو سات سوال تحریری طورپر دیے�

ٹیم کے مطابق جواب کے لیے دوبارہ رابطے کی کوشش پر واوڈا کی طرف سے خاموشی اختیار کی گئی۔

فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کے مطابق ارشد شریف کے کینیا میں میزبان خرم اور وقار کا کردار اہم اور مزید تحقیق طلب ہیں.

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وقار احمد کمیٹی کے سوالات کا تسلی بخش جواب نہ دے سکے،گاڑی چلانے والے خرم کے بیانات تضاد سے بھرپور ہیں اور یہ دونوں بھائی مطلوبہ معلومات دینے سے ہچکچا رہے ہیں۔

خیال رہے گزشتہ روز چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے صحافی ارشد شریف کے بہیمانہ قتل کے ازخود نوٹس پر سماعت کے دوران حکومت کو  قتل کا مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا تھا۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس محمد علی مظہر پر مشتمل لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران سیکرٹری خارجہ اسد مجید، ڈی جی ایف آٸی ایف محسن بٹ، سیکریٹری اطلاعات شاہیرہ شاہد، پی ایف یو جے کے صدر افضل بٹ، ڈی جی آئی بی، سیکرٹری داخلہ، صدر پی یو ایف جے سپریم کورٹ پہنچے۔

سماعت کے آغاز پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ جب رپورٹ آئی تو وزیر داخلہ فیصل آباد میں تھے، رانا ثنا اللہ کے دیکھنے کے بعد رپورٹ سپریم کورٹ کو دی جائے گی، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا وزیرِداخلہ نے رپورٹ تبدیل کرنی ہے؟ وزیر داخلہ کو ابھی بلا لیتے ہیں، تحقیقات کرنا حکومت کا کام ہے، عدالت کا نہیں، کینیا میں حکومت پاکستان کو رسائی حاصل ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ تحقیقاتی رپورٹ تک رسائی سب کا حق ہے، صحافی قتل ہوگیا، سامنے آنا چاہیے کہ کس نے قتل کیا، چیف نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کو واپس آئے کافی عرصہ ہوگیا، ارشد شریف کی والدہ کے خط پر انسانی حقوق سیل کام کر رہا ہے، حکومتی کمیشن کی حتمی رپورٹ تاحال سپریم کورٹ کو کیوں نہیں ملی؟ یہ کیا ہو رہا ہے، رپورٹ کیوں نہیں ہو آ رہی؟

اس دوران عدالت عظمیٰ نے ارشد شریف قتل کیس کی رپورٹ کو آج ہی سپریم کورٹ میں جمع کروانے کی ہدایت کر دی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ رپورٹ ابھی تک ہمیں کیوں فراہم نہیں کی گئی، کیا اپ نے اس میں کوئی تبدیلی کرنی ہے، اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ کل تک رپورٹ سپریم کورٹ کو جمع کروا دیں گے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آج جمع کرائیں تاکہ کل اس پر سماعت ہوسکے، 43 دن سے رپورٹ کا انتظار کر رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ارشد شریف کی میڈیکل رپورٹ غیر تسلی بخش ہے، معاملے کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں، 5 رکنی بینچ حالات کی سنگینی کی وجہ سے ہی تشکیل دیا ہے، صحافیوں کیساتھ کسی بھی صورت بدسلوکی برداشت نہیں کی جائے گی، کوئی غلط خبر دیتا ہے تو اس حوالے سے قانون سازی کریں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا یہ درست ہے کہ قتل کا مقدمہ نہ کینیا میں درج ہوا نہ پاکستان میں؟ چیف جسٹس نے کہا کہ ہماری معلومات کے مطابق کوئی مقدمہ درج نہیں ہوا، سیکرٹری خارجہ نے کہا کہ پاکستان کا علم نہیں، کینیا سے معلومات لیکر آگاہ کریں گے۔

اس دوران عدالت نے دفتر خارجہ سے کینیا میں تحقیقات اور مقدمہ درج ہونے سے متعلق کل تک جواب مانگ لیا، چیف جسٹس نے کہا کہ ارشد شریف کے قتل کا مقدمہ درج کیوں نہیں ہوا؟ سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کا جائزہ لیکر مقدمہ درج کرنے کا فیصلہ ہوگا، جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ کیا مقدمہ درج کرنے کا یہ قانونی طریقہ ہے؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ مقدمہ درج کئے بغیر تحقیقات کیسے ہوسکتی ہیں؟

چیف جسٹس نے کہا کہ صحافی سچائی کی آواز ہیں، انسانی زندگی کا معاملہ ہے، ارشد شریف نامور صحافی تھے،صحافی ہی معلومات کا ذریعہ ہیں، قتل سے متعلق عوام کو بہت خدشات ہیں، ارشد شریف قتل کے تمام حقائق کو سامنے لانا ہوگا، ارشد شریف کے قتل پر کس کس پر انگلی نہیں اٹھائی گئیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ‏کیا کینیا والے اپنی رپورٹ شیئر کریں گے؟ اس دوران صدرپی ایف یو جے افضل بٹ نے کہا کہ 2 ہفتے قبل ایک درخواست دی گئی،‏ ارشد شریف قتل سے متعلق قوم سپریم کورٹ کی جانب دیکھ رہی ہے ، جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ‏معاملے میں وزرت خارجہ کا کردار سب سے اہم ہے۔

عدالت عظمیٰ نے متعلقہ حکام کو آج رات تک ارشد شریف کے قتل کا مقدمہ درج کرنے کا حکم دیتے ہوئے انکواٸری رپورٹ آج ہی جمع کرانے کا حکم دیا اور کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی۔

سپریم کورٹ نے ارشد شریف قتل کا از خود نوٹس لے لیا

قبل ازیں آج صبح ہی سپریم کورٹ نے ارشد شریف قتل کا از خود نوٹس لیا تھا، یہ پیشرفت پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی جانب سے چیف جسٹس پاکستان کو خط لکھنے کے 3 روز بعد سامنے آئی ہے، اپنے خط میں عمران خان نے استدعا کی تھی کہ چیف جسٹس صحافی ارشد شریف کے قتل کی آزادانہ جوڈیشل انکوائری کرائیں۔

سپریم کورٹ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ملک کی صحافی برادری اور عوام کی بڑی تعداد سینئر صحافی ارشد شریف کی اندوہناک موت پر شدید غمزدہ اور تشویش میں مبتلا ہے اور عدالت سے معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کر رہی ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے سیکریٹری داخلہ، سیکریٹری خارجہ، سیکریٹری اطلاعات و نشریات، ڈی جی ایف آئی اے، ڈی جی آئی بی اور صدر پی ایف یو جے کو نوٹس جاری کرتے ہوئے مقدمے کی سماعت مقرر کی تھی۔

یاد رہے کہ عمران اور پی ٹی آئی کے دیگر رہنما معروف صحافی کی ٹارگٹ کلنگ کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے رہے ہیں، وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ارشد شریف کو پہلے پاکستان اور پھر متحدہ عرب امارات بھی چھوڑنے پر مجبور کیا گیا جہاں وہ کینیا جانے سے قبل کچھ وقت کے لیے ٹھہرے تھے تاہم دفتر خارجہ نے ان دعوؤں کو مسترد کر دیا تھا۔

علاوہ ازیں، وزیراعظم شہباز شریف نے گزشتہ ماہ اعلان کیا تھا کہ معاملے کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنایا جائے گا اور بعد ازاں انہوں نے چیف جسٹس کو بھی اس حوالے سے خط لکھا تھا۔

واضح رہے کہ معروف صحافی و سینیئر اینکر پرسن ارشد شریف کو 24 اکتوبر کو کینیا میں گولی مار کر قتل کردیا گیا تھا۔

ارشد شریف کی والدہ نے بھی 2 نومبر کو چیف جسٹس کو ایک خط لکھا تھا جس میں قتل کی تحقیقات کے لیے اعلیٰ اختیارات کے حامل عدالتی کمیشن کی تشکیل کی درخواست کی گئی تھی۔

از خود نوٹس کا خیر مقدم

سیاستدانوں نے ارشد شریف کے قتل کا ازخود نوٹس لینے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سپریم کورٹ کے کردار کی اہمیت کو اجاگر کیا۔

سابق وفاقی وزیر اطلاعات اور پی ٹی آئی کے سینئر رہنما فواد چوہدری نے کہا کہ ارشد شریف کی شہادت پر ازخود نوٹس لینا خوش آئند ہے، سپریم کورٹ اور جج صاحبان سے عوام کو توقع ہے کہ وہ بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ہر قسم کے دباؤ کے باوجود آئین کی حاکمیت کے لیے کھڑے ہوں گے اور انسانی حقوق کی حفاظت کریں گے۔

سابق وزیر داخلہ اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے کہا کہ ارشد شریف کیس پر سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس قابل تحسین ہے، اس کیس میں بہت سارے چھپے چہرے بےنقاب ہوں گے، قوم عمران خان پر حملے اور اعظم سواتی کیس میں بھی سپریم کورٹ کی جانب دیکھ رہی ہے، 13 فراری پارٹیاں عمران خان کو نااہل کرانے کے بجائے الیکشن کی تیاری کریں۔

سپریم کورٹ کا بیان جاری ہونے سے کچھ دیر قبل ہی وزیر اعظم شہباز شریف نے اسلام آباد جرنلسٹ سیفٹی فورم کے زیر اہتمام منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کینیا کے صدر سے ارشد شریف کے قتل کے حوالے سے بات کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری متعلقہ حکام سے رابطے میں ہیں جب کہ انہوں نے خود بھی پاکستانی ایجنسیوں سے اس حوالے سے فوری کارروائی کے لیے بات کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے چیف جسٹس کو ایک خط بھی لکھا کہ وہ کیس کی تحقیقات کے لیے ایک کمیشن تشکیل دیں اور مجھے امید ہے کہ اس سلسلے میں کارروائی کی جائے گی۔

وزیر اعظم نے مزید کہا کہ کسی صحافی یا انسانی حقوق کے محافظ پر آئین کے تحت حاصل آزادی اظہار کے حق کے استعمال پر حملہ نہیں کیا جانا چاہیے۔

معروف صحافی اور اینکر ارشد شریف کینیا میں قتل

ارشد شریف اگست میں اپنے خلاف کئی مقدمات درج ہونے کے بعد پاکستان چھوڑ گئے تھے، ابتدائی طور پر وہ یو اے ای میں رہے جس کے بعد وہ کینیا گیا جہاں انہیں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔

ابتدائی طور پر کینیا کے میڈیا نے مقامی پولیس کے حوالے سے کہا کہ ارشد شریف کو پولیس نے غلط شناخت پر گولی مار کر ہلاک کر دیا، بعد میں کینیا کے میڈیا کی رپورٹس نے قتل سے متعلق واقعات کی رپورٹنگ کرتے ہوئے بتایا کہ ارشد شریف کے قتل کے وقت ان کی گاڑی میں سوار شخص نے پیرا ملٹری جنرل سروس یونٹ کے افسران پر گولی چلائی۔

اس کے بعد حکومت پاکستان نے تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جو قتل کی تحقیقات کے لیے کینیا گئی تھی۔

قتل کے فوری بعد جاری بیان میں کینیا پولیس نے کہا تھا کہ پولیس نے ان کی گاڑی پر رکاوٹ عبور کرنے پر فائرنگ کی، نیشنل پولیس سروس (این پی ایس) نیروبی کے انسپکٹر جنرل کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’50 سالہ پاکستانی شہری ارشد محمد شریف گاڑی نمبر کے ڈی جی 200 ایم پر سوار مگادی، کاجیادو کی حدود میں پولیس کے ایک واقعے میں شدید زخمی ہوگئے تھے‘۔

کینیا کی پولیس نے واقعے کے لواحقین سے اظہار افسوس کرتے ہوئے بیان میں مزید کہا کہ ’این پی ایس اس بدقسمت واقعے پرشرمندہ ہے، متعلقہ حکام واقعے کی تفتیش کر رہی ہیں تاکہ مناسب کارروائی ہو‘۔

کینیا کے میڈیا میں فوری طور پر رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ارشد شریف کے قتل کا واقعہ پولیس کی جانب سے شناخت میں ’غلط فہمی‘ کے نتیجے میں پیش آیا۔

پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ ارشد شریف اور ان کے ڈرائیور نے ناکہ بندی کی مبینہ خلاف ورزی کی جس پر پولیس کی جانب سے فائرنگ کی گئی، سر میں گولی لگنے کی وجہ سے ارشد شریف موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے جبکہ ان کے ڈرائیور زخمی ہوگئے۔

 

خیال رہے کہ اے آروائی کے مالک سلمان اقبال نے بھی گزشتہ دنوں ایک بیان جاری کیا تھا۔ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ میں اپنےبھائی ارشدشریف کےبہیمانہ قتل سےشدیدصدمےاورشکستہ دل ہوں، بھائی ارشدشریف کےقتل سےشکستہ دل کی کیفیت الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا۔

ان خیالات کا اظہار اے آر وائی نیوز کے مالک سلمان اقبال نے اپنے ایک جاری بیان میں کیا ۔ سلمان اقبال نے کہا کہ ارشدکی وفات پورےپاکستان اور عالمی سطح پرصحافت کیلئےبہت بڑانقصان ہے،ارشدشریف کےاہلخانہ اورتمام سوگواران کیساتھ ہوں ۔اپنےکیریئرکےآغازسےابتک ہمیشہ اپنےلوگوں کاخیال رکھاجس کےوہ گواہ ہیں،

سی ای واےآروائی نیٹ ورک سلمان اقبال نے کہا پاکستان میں صحافی بنناآسان نہیں،میری پوری نیوزٹیم کواکثرمختلف خطرات کاسامنارہتاہےجسےکم کرنامیراکام ہے،دہشت گردی کیخلاف جنگ میں ہم نےکئی ساتھیوں کوکھویا،میں نےآج تک ان ساتھیوں کےخاندانوں کی کفالت جاری رکھی ہوئی ہے،جانتاتھاارشدشریف کوجن خطرات کاسامناتھاوہ حقائق پرمبنی تھے۔

انہوں نے کہا ارشدنےحکومت سمیت تمام متعلقہ اداروں سےحفاظت کی اپیل کی،حکومت نےتحفظ دینےکےبجائےارشدکیخلاف بغاوت کےمقدمات کاانبارلگادیا،ارشدکیخلاف متعددایف آئی آرزکاٹی گئیں،گرفتاری کےوارنٹ جاری کیےگئے۔حکومت کی انتقامی کارروائیوں نےارشدشریف کوپاکستان چھوڑنےپرمجبورکیا۔

سلمان اقبال نے کہا بحیثیت دوست اورساتھی ارشدشریف کےپاکستان چھوڑنےکےفیصلےکاساتھ دیا۔دفترمعمول کےمطابق ہمارےدفترنےارشدشریف کیلئےسفری انتظامات کیے، دوست ساتھی کی مدد کرنا کب سے جرم ہے؟

انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کےآنےکےبعدسےمیرےخلاف منظم مہم چلائی جارہی ہے،حکومت نےمجھےکبھی سونےکااسمگلریااسلحےکاسوداگرسمیت دیگرالزامات لگائے،میرےخلاف مہم کاآغازمریم نوازنےکیا،وزرانےابھی بھی جاری رکھی ہوئی ہے۔

سلمان اقبال نے الزام عائد کیا کہ حکومت نےایف بی آر،ایف آئی اے،پیمرا،ایس ای سی پی کومیرےخلاف ہتھیاربنایا،مجھ پرمتعددایف آئی آرز،وارنٹ گرفتاری اورغداری کےمقدمےبنائےگئے،حکومت کی جانب سےصحافیوں پرمقدمات اورظلم وستم نےتشویش میں ڈال دیا۔ حکومتی اقدامات کی وجہ سے6ماہ سےپاکستان نہیں آسکا،

صدر،سی ای اواےآروائی نیٹ ورک نے کہا وزیرداخلہ کےارشدشریف کےقتل سےمتعلق مجھ پرالزامات بےبنیادہیں،وزیرداخلہ مجھ پرلگائےگئےبےالزامات میرےخلاف منظم مہم کاتسلسل ہیں،واضح کہتاہوں میرےبھائی ارشدکیخلاف بہیمانہ فعل میں میراکوئی دخل نہیں،مجھےدکھ اورصدمہ ہےکہ ارشدشریف کےقتل پرابھی تک کوئی کمیشن نہیں بنایاگیا۔

سلمان اقبال نے کہا تحقیقات کےبجائےحکومت پریس کانفرنسزکرکےمجھےسازش کاحصہ بنارہی ہے،ارشدشریف کی موت پرحکومت جوسیاست کررہی ہےوہ ایک مکروہ فعل ہے،کہا گیاہےکہ مجھےارشدشریف کےقتل کی تحقیقات میں شامل کیا جائے،ن لیگ حکومت میں تحقیقات کی آزادی پریقین نہیں لیکن ہرسوال کاجواب دونگا،اقوام متحدہ کےانسانی حقوق کےدفترکےزیرنگرانی آزادانہ تحقیقات کامطالبہ کرتاہوں۔

خیال رہے کہ گزشتہ دنوں سینئر صحافی اور اینکر پرسن ارشد شریف کی کینیا میں سر پر گولی لگنے سے پراسرار موت ہوئی تھی ،ارشد شریف کی اہلیہ نے  تصدیق  کرتے ہوئے کہا تھا کہ  انہیں قتل کیا گیاہے۔ کینیا پولیس کے مطابق ارشد شریف کو گولی مار کر قتل کیا گیا،،،کینین میڈیا کے مطابق ارشد شریف کینیا کی پولیس کی گولی سر پر لگنے سے جاں بحق ہوئے ،پولیس کے مطابق ابتدائی تحقیقات میں ارشد شریف اور ان کی گاڑی کے ڈرائیور نے پولیس کے کہنے پر گاڑی نہیں روکی تھی انہیں شناخت میں غلطی پر سینئیر افسر کی جانب سے گولی کا نشانہ بنایا گیا۔ واقعے کی مزید تفتیش جاری ہے تفصیلی بیان بعد میں جاری کیا جائے گا۔

نیشنل پریس کلب اسلام آباد ،پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس  اور آرآئی یوجے نے سینیئر صحافی و اینکر پرسن ارشد شریف کے مبینہ قتل کی خبروں پر شدید رنج و غم اور حملہ آوروں اور انکے پیچھے نادیدہ قوتوں کی اس مذموم ترین حرکت پر شدید مذمت کے ساتھ ساتھ اس المناک سانحے پر پاکستان میں جوڈیشل کمیشن اورحقائق سامنے لانے کےلئے فیکٹ فائنڈنگ کمیشن کمیشن بنانے کا مطالبہ کیاہے،

این پی سی ، پی ایف یو جے اور آر آئی یوجے کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیاہے کہ ارشد شریف پاکستان کے مایہ ناز صحافی تھے ،وہ ڈان نیوز، دنیا نیوز اور اے آروائی نیوز سمیت کئی صحافی قومی اور بین الاقوامی اداروں کے لئے کام کرتے رہے۔  انہیں 23 مارچ 2019 میں صحافت میں ان کی خدمات کی بنا پر صدر پاکستان سے پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ بھی دیا گیاہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی عدالت میں بتایا گیا ہے  کہ  ارشد شریف دبئی میں مقیم تھے مبینہ طور پر انہیں وہاں سے انھیں نکالا گیا اور وہ کینیا چلے گئے جہاں انھیں گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔ عدالت نے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے فریقین کو نوٹس جاری کردیے ہیں اور وزارت داخلہ اور  خارجہ کے نامزد افسر کو ارشد شریف کی فیملی سے فوری ملاقات کی ہدایت کے ساتھ ساتھ کل تک رپورٹ بھی طلب کرلی ہے۔

مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ صحافیوں پر حملے اب روزمرہ کا معمول بن چکے ہیں جو ناقابل برداشت ہے۔ اب تک سو سے زائد  صحافی اپنے پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی کے دوران شہید ہو چکے ہیں جبکہ بڑی تعداد میں زخمی ہوئے ہیں۔ بیان میں مزید کہا گیا  کہ آج کے دور میں صحافیوں کو اپنے پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ ارشد شریف کا قتل  نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں آزادی اظہار رائے پر حملہ ہے ۔ارشد شریف  اپنے نظریات اور خیالات کے حوالے سے ایک واضح سوچ رکھتے تھے  اور ان کی سوچ سے اختلاف رکھنے والے اس حملے کے پیچھے ہوسکتے ہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ اگر ماضی میں سلیم شہزاد اغوا و قتل کمیشن یا حامد میر ، ابصار عالم ، مطیع اللہ جان سمیت دیگر صحافیوں   پر حملوں  کی تحقیقاتی رپورٹس سامنے لے آئی جاتیں تو یہ واقعہ پیش نہ آتا۔ نیشنل پریس کلب اور پی ایف یو جے نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اگر آزادی صحافت اور آزادی اظہار رائے کے حوالے سے سنجیدہ ہے تو اسے ارشد شریف   کے مبینہ قتل کو ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر لیتے ہوئے نہ صرف حملہ آوروں بلکہ واقعہ کے اصل ذمہ داروں کو فوری طور پر سامنے لانا چاہیے۔

نیشنل پریس کلب اسلام آباد ،پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس  اور آرآئی یوجے نےعالمی صحافتی اداروں سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان کے سینیئر اینکر پرسن اور صحافی کے قتل کی تحقیقات کے لیے فیکٹ فائنڈنگ مشن قائم کیا جاہیے۔ ماضی میں کئی صحافیوں کے قتل کی طرح یہ کیس نظرانداز نہیں ہونا چاہیے۔‘

ارشد شریف کے بیہمانہ قتل پر نیشنل پریس کلب اسلام آباد ،پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس  اور آرآئی یوجے نے تین روزہ سوگ کا اعلان بھی کیاہے اور تین دن کے لئے نیشنل پریس کلب کا پرچم سرنگوں رہےگا۔ مشترکہ طور پر یہ مطالبہ بھی کیا گیاہے کہ حکومت ارشد شریف کے جسد خاکی کو پاکستان واپس لانے اور انکے اہل خاندان کوانصاف کی فراہمی کے حوالے سے  ہرممکن مدد فراہم کرے

%d bloggers like this: