دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مذہبی روادری کیسے کیسے نبھائی گئی!||حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

حسنین جمال

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گرو تیغ بہادر سکھوں کے نویں گرو تھے۔ اورنگ زیب کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ ان کے حالات کے بارے میں ان کے بیٹے گرو گوبند سنگھ کا بیان سکھوں کی مذہبی مجالس میں پڑھا جاتا ہے کہ اورنگزیب عالم گیر بادشاہ وقت تھے۔ کشمیر کے ہندو پنڈتوں کو مذہبی تعصب کا نشانہ بنایا گیا۔ گرو صاحب اپنے وقت بااثر شخصیت تھے۔ پنڈت غریب مسئلہ لے کر ان کے پاس پہنچ گئے۔ گرو کہنے لگے بادشاہ سے کہہ دو ہم گرو تیغ بہادر کے ساتھ ہیں، آپ انہیں اپنے سیدھے راستے پر لے آئیے، ہم بھی آ جائیں گے۔ گرو صاحب قید ہو گئے، ظلم و ستم ہوا، ہر طریقے سے کوشش کی گئی لیکن وہ گرو ہی کیا جو اپنوں کا ساتھ چھوڑ دے۔ کہتے تھے،

بانہیں جنہاں دیاں پکڑئیے، سر دیجیے بانہہ نہ چھوڑئیے، (جس کا ہاتھ تھام لیا پھر سر جائے تو جائے ہاتھ کہاں چھوٹتا ہے)

تو مار دئیے گئے، کوئی اور حل ممکن نہیں تھا۔ تلسی داس ایک اور سنت سادھو قسم کے شاعر تھے، انہوں نے اس بات کو یوں کہا،

تلسی بانہہ اصیل کی، گر بھولے سے چھو جائے

آپ نبھاوے عمر بھر، بچوں سے کہہ جائے

گرو تیغ بہادر جی خود ہندو نہیں تھے لیکن ان کے خیال میں ہر مذہب کے ماننے والے کو حق حاصل تھا کہ اس کے عقائد سے چھیڑ چھاڑ نہ کی جائے۔ آج بھی ایسے مسلمان گھرانے موجود ہیں جو گوردواروں میں سکھوں کا مقدس کلام پڑھتے ہیں اور جس سوز سے پڑھتے ہیں وہ سننے کے لائق ہے۔ طفیل نیازی تھے، مصدق سانول تھے، اپنے غلام حسن شگن صاحب مرحوم کے آباؤ اجداد تو باقاعدہ ربابئیے تھے، گوردواروں میں رباب بجاتے تھے اور کیرتن گاتے تھے۔

گورا قبرستان الگ ہوتا ہے، مسلم قبرستان الگ اور شمشان گھاٹ الگ، آج تک یہی دیکھا۔ ایک مزار ایسا ہے جہاں ان تینوں مذاہب کے ماننے والے ساتھ ساتھ بھی دفن ہیں۔ یہ قبر کرشن مراری کی ہے، ساتھ احمد علی ہیں، ساتھ ہی اکرم مسیح موجود ہیں۔ مرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو براہمن کو، غالب کا مصرعہ زندہ دیکھنا چاہیں تو سندھ جائیے۔

سچل سرمست ایسے ہی تھے۔ وحدت الوجود کے قائل تھے، ان کی شاعری میں آپ کو ہندو مسلمان کا فرق نہیں ملے گا۔ روائتی مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود انہوں نے اپنے وقت کی خاندانی اور انتہا پسند مذہبی روایات کی پرواہ نہ کی۔ سندھ کی کسی محفل میں اگر اب بھی انتہاپسندی کے خلاف بات کرنی ہو تو سچل سرمست کا ہی کلام پڑھا جاتا ہے۔ انہیں اپنے وقت کا منصور حلاج سمجھ لیجیے۔ شاید سندھ دھرتی کی محبتی اور روادار فضا ہی تھی جہاں وہ طبعی عمر پوری کر گئے اور سات زبانوں کے شاعر کہلائے۔ کہتے تھے،

اهو ڪم ڪريجي جنهن وچ الله آپ بڻيجي

مار نعارا انا الحق دا، سولي سر چڙهيجي۔

(خدا جن میں اپنا جلوہ دکھاتا ہے وہ بس پھر اناالحق کا نعرہ کا نعرہ لگا کر سولی چڑھ جاتے ہیں۔)

اگر کسی بزرگ کے مزار پر جوتے اتار کر اور تمام تر عقیدت سے میں جا کر پیش ہوں گا تو وہ سچل سرمست ہیں\” یہ بیان عارف العصر کا ہے۔

قاضي ساڙ ڪتابان ڪون هڻ، مرشد ايوين فرمايا

آپ سڃاڻ ته تون ڪيا هيئن، عرف نفسه پرجهايا

راه ڪفر دا سانون، مرشد آپ بتايا

(کتابوں کو بھاڑ میں ڈالو اور اپنے آپ میں جھانک کر دیکھو تم کون ہو، مرشد نے ہمیں کفر کی یہ راہ خود بتلائی۔)

امام احمد بن حنبل پر وقت کے خلیفہ نے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دئیے، ایک مسئلہ تو خلق قران کا تھا۔ ایک معاملہ اور تھا۔ ستر برس کا بوڑھا انسان قید خانے میں ہے، پیروں میں بیڑیاں ہیں، اذیتیں اٹھا رہا ہے، کوڑے کھا کھا کر بے ہوش ہو جاتا ہے، پھر ہوش میں آتا ہے، پھر مارتے ہیں پھر بے ہوش ہو جاتا ہے۔ ایسا کیوں کر رہا ہے، حاکم وقت کی غلط بات کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔ بس یہ قصور تھا۔ ان کا عقیدہ اس بات کو درست تسلیم نہیں کرتا تھا، سب کچھ برداشت کیا لیکن موقف سے ایک انچ نہ ہلے اور انہی تکالیف میں وفات پائی۔ بعد میں آنے والوں نے تاریخ کا فیصلہ دیکھ لیا کہ کون درست تھا اور کون غلط۔

میرا بائی کٹر ہندو خاندان میں پیدا ہوئیں، شادی ہوئی سسرال آ گئیں۔ وہ ایسی پجارن تھیں جو کام کاج اپنے شوہر کا کرتیں مگر کہتیں کہ میرا بیاہ تو گردھر کے ساتھ ہو چکا، اور کرشن جی کی پوجا میں لگی رہتیں۔ آہستہ آہستہ جوگ اختیار کر لیا، گوشہ نشین ہوئیں اور کرشنا کی داسی کہلائیں۔ اس زمانے میں یہ کام عین ایسا تھا جیسے آج کسی مذہب میں کوئی نئی چیز شامل کر دی جائے۔ میرا بائی اندر کی آگ میں جلتیں اور وہی آگ ان سے شعر کہلواتی رہتی۔ جب ان کی شاعری مشہور ہوئی تو میاں بھی ان سے ذرا تنگ ہونا شروع ہو گئے کہ بھئی یہ کیا سلسلہ چل نکلا ہے۔ اسی بیچ ایک جنگ میں وہ زخمی ہو کر مر گئے۔ یہ بیوہ ہو گئیں۔ اب ان کے دیور حکم ران ہوئے، انہیں قید کر دیا گیا۔ سسرال کی طرف سے کبھی انہیں پھولوں کی ٹوکری میں سانپ بند کر کے بھجوائے جاتے، کبھی زہر کا پیالہ آتا، طرح طرح کی کوششیں کی جاتیں کہ ان کا معاملہ صاف کیا جائے لیکن وہ کسی نہ کسی طرح بچ جاتیں۔ آخر تنگ آ کر سسرال چھوڑ دیا، دو تین مرتبہ نقل مکانی کی اور جب مریں تو ان کے مزار پر ہر مذہب کے لوگ آتے تھے۔ ایسا شاید اس لیے ہوا کہ وہ کسی کے خلاف تو بات کرتی ہی نہیں تھیں۔ اپنے دکھڑوں میں مگن کائناتی سچائیاں کھولتی جاتی تھیں ایک ایک کر کے۔ ان کا پورا کلام دیکھ لیجیے، مجازی پیرائے میں ہے۔ ہندی شاعری میں عموماً خاتون عاشق ہوتی ہیں، مرد معشوق، تو وہاں بھی سب ویسا ہے اور پھر سیدھے امیر خسرو پر آ جائیں اور رنگ سنیں تو معاملہ صاف ہو جائے گا۔ آج رنگ ہے ری ماں، رنگ ہے ری!

واقعہ کربلا پر نظر ڈالیے، کہنے والے اسے حریت فکر کا معرکہ کہتے ہیں۔ امام سر دے دیتے ہیں، پورا خاندان شہید ہوتا ہے لیکن اپنے موقف سے نہیں ہٹتے۔ دنیا بھر میں ان کی اس قربانی کو ماننے والے ہر سال ان کی یاد مناتے ہیں۔ ایران کو ایک طرف رکھ دیجیے، مذہبی اجارہ اور معاملہ ہے، ہمارے یہاں کئی ہندو اور مسیحی بھی سوگ میں شامل ہوتے ہیں۔ اسلام اور ہندو ازم تو ضد ہیں ایک دوسرے کی، پھر ہندو کیوں شامل ہوئے۔ شاید اس لیے کہ یہ قربانی ایک اقلیتی گروہ کی قربانی تھی، جو یہ مانتا تھا کہ اگر ہم سر نہیں دیتے تو پھر وہی ہو گا جو بادشاہ کی مرضی ہے۔ اور بادشاہ کی مرضی اس کے اپنے فلسفے کو منوانا تھا، اسے کوئی سروکار نہیں تھا کہ ایک سچ وہ بھی ہے جس سے وہ نظر چرا رہا ہے۔ وہی سوچ تھی کہ اپنے علاوہ سب غلط ہیں، اور اپنے ہاتھ پر سب کی بیعت لینی تھی۔ افتخار عارف نے کہا، حسین تم نہیں رہے، تمہارا گھر نہیں رہا، مگر تمہارے بعد ظالموں کا ڈر نہیں رہا۔ آپ مظلوموں کے امام کہلائے۔

ابن رشد نے قانون، فلسفہ، فلکیات، طب، عربی زبان اور نہ جانے کن کن موضوعات پر لکھا۔ وہ متنبی کے حافظ تھے۔ متنبی عربی شاعر تھے جو ذرا عقلیت پسند تھے۔ وہی طبیعت ابن رشد کی بھی تھی۔ کہتے تھے کہ عین ممکن ہے مذہب اور فلسفے میں تصادم ہو جائے۔ یہ سوچ امام غزالی کی کوششوں کا رد تھی جو فلسفے کو بہت حد تک مشرف بہ اسلام کر چکے تھے۔ وقت کے حکم ران نے انہیں سازشی جانا، تمام کتابیں جلوائیں، ابن رشد ملک بدر ہوئے اور فلسفہ، فلکیات وغیرہ پر باقاعدہ پابندی لگا دی گئی۔ لیکن دنیا نے اسی ابن رشد سے بہت فیض اٹھایا، یونیورسٹیوں میں ان کے مجسمے آج بھی لگائے جاتے ہیں جہاں ہر رنگ و نسل کا طالب علم ان کے ساتھ تصویر کھچواتا ہے۔ ابن رشد آج بھی اس دور کی ایک توانا آواز کی صورت موجود ہیں۔ سوچ سے زبردستی نہیں کی جا سکتی، جب بھی کی گئی نتیجہ الٹا ہوا۔

قرہ العین طاہرہ کی مثال لے لیجیے۔ جب انہیں بغاوت، فتنہ پھیلانے اور خواتین کے حقوق پر سوالات اٹھانے کے الزام میں ایران کے بادشاہ ناصر الدین قاچار نے دربار میں بلایا تو انہوں نے بادشاہ کو مخاطب کر کے یہ اشعار کہے:

تو و ملک و جاہ سکندری

من و رسم و راہ قلندری

اگر آن نکوست، تو در خوری

اگر این بد است، مرا سزا

(تیرے پاس بادشاہی ہے، سلطنت ہے، میں ہوں اور میرے فقیری طور طریقے میرے پاس ہیں۔ اگر وہ بھلی چیز ہے، تو تجھے مبارک، لیکن اگر یہ شے بری ہے، تو مجھے یہ بالکل قبول ہے۔) انہیں گھوڑے سے بندھوا کر بھگایا گیا اور مار دیا گیا۔ مر گئیں لیکن آواز مزید توانا ہو گئی۔ علامہ اقبال بھی ان کی سوچ سے متاثر تھے۔ طاہرہ عرض تمنا کی آزادی ہی مانگتی تھیں اور کیا تھا۔

برونو سولہویں صدی کے فلسفی تھے۔ جوانی میں خود بھی ایک اچھے مسیحی ہوتے تھے۔ تھوڑے روشن خیال تھے، آج کل کی زبان میں کہیں تو ذرا لبرل تھے۔ کفر کا الزام لگا تو جنیوا، پیرس، انگلستان سب جگہ بھاگتے پھرے، بہت کام کیا۔ وینس واپس آئے تو حالات عین وہیں تھے جہاں چھوڑے تھے۔ ملحد ہونے کے الزام میں گرفتار ہوئے، پوپ صاحب نے حکم دیا کہ برونو اور ان کی کتابیں جلوا دی جائیں۔ قصور یہ تھا کہ برونو کائنات کو لامتناہی کہتے تھے اور یہ تصور بھی پیش کرتے تھے کہ کائنات پر کسی بھی دوسرے سیارے میں ایسی ہی زندگی موجود ہو سکتی ہے۔ یہ نظریات اس وقت کے پوپ کی مذہبی حکمرانی کو چیلنج کرنے کے برابر تھے۔ ہو گیا، یہ بھی ہو گیا، برونو بھی جل گئے، لیکن اہل یورپ کے دماغوں میں کئی سوال چھوڑ گئے۔ سائنس کے پہلے شہید کہلائے، امر ہو گئے۔

استاد بسم اللہ خان فجر کی نماز کبھی قضا نہیں کرتے تھے لیکن ریاض شیو جی کے مندر میں ہوتا تھا۔ محرم کے جلوس میں ہوتے تو شہنائی وہاں بھی بجتی تھی اور لوگ روتے ہوئے بھی پائے جاتے تھے۔ اقبال بھی تو عین یہی کہتے تھے،

شکتی بھی شانتی بھی بھگتوں کے گیت میں ہے

دھرتی کے باسیوں کی مکتی پریت میں ہے۔ دل مانے تو چھٹا خطبہ دیکھ لیجیے۔

عقیدہ کوئی بھی ہو، اس سے لطف اندوز ہونے کے لیے، اس کا حسن دیکھنے کے لیے انسان کو ایک فاصلے سے اسے دیکھنا پڑتا ہے۔ اس کی روح کو محسوس کرنا پڑتا ہے۔ نفرت کا خاتمہ کرنا پڑتا ہے، یہ سوچنا پڑتا ہے کہ یار اللہ میاں نے دنیا بنائی ہے، اتنے سارے لوگ بنائے ہیں، سب کو دماغ دئیے ہیں، سب کی دعا بھی قبول کر لیتے ہیں تو کیا حرج ہے اگر انہیں لوگوں کو اپنے سے کمتر نہ سمجھا جائے۔ جانوروں تک سے شفقت کا حکم ملتا ہے، ان کا دھیان رکھنے کی مثالیں موجود ہیں تو کیا وجہ ہے کہ گوشت پوست کے انسانوں سے ان کے عقائد کی بنا پر نفرت کی جائے۔ کسی کو آپ محبت سے تو قائل کر سکتے ہیں، مگر نفرت سے دوسرا قائل نہیں ہوتا ہے بلکہ متنفر ہوتا ہے۔  نفرت تو کم بخت ایسی چیز ہے جو ویسے ہی انسان کو برباد کر چھوڑتی ہے، کہاں روحانیت کے معاملات۔ جن کا انحصار ہی لطافت پر ہے۔

جب ایسا ہو جاتا ہے، جب انسان نفرت سے بالاتر ہو جاتا ہے تو حضرت میاں میر سے گولڈن ٹیمپل امرتسر کا سنگ بنیاد رکھوایا جاتا ہے، رنجیت سنگھ کے زمانے میں احمد یار خاں اس پر نقاشی کرتے ہیں، کنور مہندر سنگھ نعتیں کہتے ہیں، روپ کمار کنواری منقبتیں پیش کرتی ہیں، اقبال رام پر ناز کرتے ہیں، اور مصدق سانول گا رہے ہوتے ہیں "بانہیں جنہاں دیاں پکڑئیے، سر دیجیے بانہہ نہ چھوڑئیے۔

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

حسنین جمال کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author