مئی 5, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بے توقیر کتب؟||یاسر جواد

تصنیف و تالیف کا پیشہ زیادہ تر براہ راست اُن لوگوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے جو مارکیٹنگ اور کاروبار کے سوا کچھ نہیں جانتے۔ اس شعبے میں صرف کاروباری اخلاقیات چلتی ہے، یعنی کوئی اخلاقیات نہیں۔ بس آپ کا کسی پبلشر سے ذاتی تعلق ہی ہوتا ہے جو معاملات چلائے رکھتا ہے۔

یاسر جواد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے ملک میں کوئی کتاب جتنی گھٹیا یا غیر فکری ہو گی اُتنی ہی زیادہ فروخت ہو گی۔ جیسے کالا برقع جل رہا تھا، بہشتی زیور، مرغیوں کی بیماریاں، کیرو کی پامسٹری، موت کا منظر……۔ یہ کتب ہزاروں کی تعداد میں چھپتی اور فروخت ہوتی ہیں۔ بلاشبہ منٹو، عصمت، راجندر سنگھ بیدی وغیرہ کو بھی متعدد پبلشرز نے چھاپ رکھا ہے اور وہ بھی فروخت ہوتی ہیں۔ لیکن ایسی کتب شاذ ہی شائع ہوتی تھیں جن میں کسی بھی قسم کا فکری چیلنج یا نئی بات موجود ہوتی یا جو آپ کو کسی بھی طرح سے جھنجوڑ سکتیں۔
مکتبہ فرینکلن نے 1950ء کی دہائی سے لے کر 1973ء تک اِس سلسلے میں کچھ کام کیا اور ول ڈیورانٹ وغیرہ کی کچھ کتب شائع کیں۔ ورنہ فلسفہ، نفسیات، سوشیالوجی، کے شعبے میں بہت بڑا خلا تھا۔ ادب میں پھر بھی تھوڑا بہت کام ہوتا رہا (مثلاً روسی کتب کے طفیل)۔
1990ء کے قریب میں نے ابتدا کی تو ساتھ ہی کمپیوٹر کی بدولت کتب کی تیزی سے اشاعت ہونے لگی۔ متعدد پبلشرز بنے اور تیزی سے ترقی کرتے رہے۔ اُن کا بنیادی سہارا مفت کتب تھیں جنھیں وہ صرف پرنٹنگ اور بائنڈنگ پر خرچ کر کے چھاپ سکتے تھے۔ مثلاً روسی کتب، مکتبہ فرینکلن کی کتب، بنگلہ ادب، ہندوستانی ادب۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
پھر میں نے 2010ء کے بعد ترجمہ کروانے کا رجحان بھی تیزی سے ختم ہوتے دیکھا۔ البتہ پبلشرز فروغ پاتے رہے اور نئے بھی وجود میں آتے رہے۔ کاغذ کا ریٹ ہر عشرے بعد دوگنا بڑھتا رہا، جبکہ لکھنے والوں کا معاوضہ اُسی تیزی سے کم ہوا۔ پھر بھی یہی کام کیے جا رہے ہیں۔ اکثر لوگ پوچھتے ہیں کہ میں اتنا کام کیسے کر لیتا ہوں؟ اِس کا جواب صرف ایک ہی سمجھ آتا ہے: اپنی بیوی کی وجہ سے جس نے نوکری کی، بچوں کو پڑھایا اور اب بھی کر رہی ہے۔ وگرنہ اب کوئی حالات نہیں رہے اس قسم کے پاگل پن والے کام جاری رکھنے کے۔
تصنیف و تالیف کا پیشہ زیادہ تر براہ راست اُن لوگوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے جو مارکیٹنگ اور کاروبار کے سوا کچھ نہیں جانتے۔ اس شعبے میں صرف کاروباری اخلاقیات چلتی ہے، یعنی کوئی اخلاقیات نہیں۔ بس آپ کا کسی پبلشر سے ذاتی تعلق ہی ہوتا ہے جو معاملات چلائے رکھتا ہے۔
گزشتہ تین دن سے فیس بُک پر پابندی تھی تو یہ فہرست اپ ڈیٹ کی۔ حاضرِ خدمت ہے۔
(نوٹ: اِن میں زیر طبع آپ بیتی شامل نہیں)

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

یاسر جواد کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: