حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستانی سیاست کے گزشتہ ادوار کی طرح آج بھی مختلف الخیال سیاسی رہنمائوں کے تندوتیز بیانات اور ایک دوسرے پر ذاتی حملوں سے بنے ماحول میں حقیقی مسائل جس طور نظرانداز ہورہے ہیں اس پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ارباب اختیار اور حزب اختلاف کو اس امر کا احساس تک نہیں کہ ان کے ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشیوں سے بھرے بیانات سے عام آدمی کا چولہا جلتا ہے نہ پیٹ بھرتا ہے۔
حسن اتفاق سے اس وقت ملک کی تقریباً تمام سیاسی جماعتیں اقتدار میں کسی نہ کسی طور شراکت دار ہیں پی ڈی ایم اور اتحادی وفاق میں برسراقتدار ہیں۔ پی ڈی ایم کی ایک اتحادی جماعت پیپلزپارٹی کی سندھ میں حکومت ہے دوسری اتحادی جماعت بی اے پی بلوچستان میں اتحادیوں کے ہمراہ حکومت چلارہی ہے۔
تحریک انصاف پنجاب میں ق لیگ کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنائے ہوئے ہے جبکہ خیبر پختونخوا، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی اس کی حکومت ہے۔
روزمرہ کے جن مسائل سے عام آدمی کو واسطہ پڑتا ہے انہیں حل کرنا صوبائی حکومتوں کا کام ہے۔ صوبائی حکومتیں اپنی ذمہ داریوں سے کس طور عہدہ برآ ہورہی ہیں اس کا اندازہ آسمان کو چھوتی مہنگائی، بدانتظامی اور سٹریٹ کرائم کی بڑھتی ہوئی شرح سے لگایا جاسکتا ہے۔
چند ماہ قبل آنے والے سیلاب سے ملک کا ایک تہائی حصہ متاثر ہوا۔
متاثرہ حصہ میں چاروں صوبوں کے علاقے شامل ہیں۔ ساڑھے تین پونے چار کروڑ سیلاب متاثرین کی بحالی کے لئے چاروں صوبائی حکومتوں نے اب تک کیا اقدامات کئے اس کا اندازہ کھلے آسمان کے نیچے موسم کی سختیاں اور حالات کے جبر کا سامنا کرتے سیلاب متاثرہ خاندانوں کی حالت زار سے لگایا جاسکتا ہے۔ 2018ء کے انتخابات میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والی تحریک انصاف وفاق میں اپنی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں اقتدار سے محرومی کے بعد گزشتہ سات ماہ سے سڑکوں پر احتجاج کررہی ہے مگر وفاق سے منسلک دو یونٹوں کے علاوہ ہے دو صوبوں میں بھی اس کی حکومت ہے کیا پی ٹی آئی کی صوبائی حکومتوں نے روزمرہ کے مسائل حل کرنے پر توجہ مرکوز کی؟ نہیں تو کیوں۔
یہی سوال بی اے پی اور پیپلزپارٹی سے بھی پوچھا جانا چاہیے جو وفاق کے حکمران اتحاد کا حصہ ہونے کے ساتھ اپنے صوبوں میں بھی برسراقتدار ہیں۔
امر واقعہ یہ ہے کہ اگر وفاق صوبوں اور دوسرے یونٹوں میں برسراقتدار سیاسی جماعتوں نے احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہوتا تو پچاس یا سو فیصد نہیں تو کچھ نہ کچھ مسائل بہرطور حل ہوسکتے تھے۔
موجودہ حالات میں دو اہم مسئلے ہیں اولاً مہنگائی اور دوسرا سیلاب متاثرین۔ دونوں مسائل صوبائی حکومتوں کی توجہ کے مستحق ہیں۔
پی ٹی آئی کی سات ماہ سے جاری احتجاجی سیاست کا بیانیہ، امریکی سازش، مقامی سہولت کار، ہماری جگہ کرپشن زدہ لوگوں کو اقتدار میں لانا اور اس طرح کی دوسری باتوں پر مبنی ہے، احتجاجی سیاست کے قائدین نہ تو اپنے پونے چار سالہ دور کی کارگزاری بیان کرتے ہیں نہ ہی یہ بتاتے ہیں کہ ان کی صوبائی حکومتوں نے مہنگائی، سیلاب متاثرین اور سٹریٹ کرائم جیسے مسائل کے حل کے لئے کیا کیا
نہ ہی پی ڈی ایم اور اس کی اتحادی جماعتیں ہر گزرنے والے دن کے ساتھ سنگین ہوتے مسائل پر لب کشائی کرتی ہیں۔
ان متحارب سیاسی قوتوں کی توپوں کا رخ ایک دوسرے کی طرف ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا کسی کو اس امر کا احساس نہیں کہ مہنگائی ملکی تاریخی کے پچاس برسوں کی بلند ترین سطح پر ہے۔
پیاز 220 روپے اور ٹماٹر 240 روپے کلو ہیں۔ گزشتہ روز چینی کی قیمت میں 5روپے کلو مزید اضافہ کردیا گیا۔
مقابلتاً اوسط ماہانہ آمدنی میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ پنجاب کے کئی محکموں میں کئی کئی ماہ تک پنشنیں نہیں ملتیں۔ خیبر پختونخوا میں سرکاری ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی مسئلہ بنی ہوئی ہے۔
سیلاب متاثرین چاروں صوبوں میں دادرسی کے لئے فریاد کررہے ہیں۔ سیاسی قائدین کی ترجیحات میں عوام اور مسائل شامل ہی نہیں جبکہ اہم ترین مسئلہ لوگوں پر بڑھتا ہوا معاشی دبائو ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے عام شہری کو معاشی دبائو سے نجات دلانے کے لئے کسی بھی سطح پر کوئی ریلیف نہیں دیا
ستم یہ ہے کہ وفاقی حکومت کی سبسڈی سے چلنے والے یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن کی سبسڈی سے پہلے 18ارب اور بعدازاں 25ارب روپے منہا کرلئے گئے۔ بازاروں میں روزمرہ ضرورت کی اشیاء کے نرخوں کو گویا آگ لگی ہوئی ہے۔
یہ بجا ہے کہ سیلاب سے ایک تہائی رقبہ متاثر ہونے سے سبزیوں کی طلب و رسد میں عدم توازن آیا مگر یہ سوال بھی غور طلب ہے کہ وفاقی حکومت نے پیاز، لہسن، ادرک، ٹماٹر اور ہری مرچ وغیرہ بیرون ملک سے منگوانے کی اجازت دی تھی بھارت، ایران، چین اور افغانستان سے ان اشیاء کے منگوائے جانے کے بعد بھی ان کے نرخوں میں کمی کیوں نہیں آئی؟
یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ عام شہری کا مسئلہ امریکہ، بھارت، عالمی حالات وغیرہ نہیں، عزت کے ساتھ دو وقت کی روٹی کا حصول ہے۔ آمدنی اور اخراجات میں عدم توازن سے پیدا شدہ صورتحال ہو یا سیلاب سے ایک تہائی رقبہ متاثر ہونے کی صورت میں ساڑھے تین کروڑ سے زائد افراد کا بے سروساماں ہونا ان سے صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا ہے۔
سیلاب متاثرین کے حوالے سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ذمہ داران آئے روز بلندبانگ دعوے کرتے رہتے ہیں لیکن ان کی اکثریت سردیوں کے آغاز پر بھی کھلے آسمان کے نیچے خیموں اور ٹینٹوں کے بغیر پڑی ہے۔
ابتدا میں جس طرح عوام کے مختلف طبقات نے اپنے ان مجبور بہن بھائیوں کی مدد کی تھی اب اس میں بھی کمی آگئی ہے۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ قبل اس کے کہ کوئی بڑا انسانی المیہ جنم لے، وفاقی اور صوبائی حکومتیں گرما گرم بیانات سے دلپشوری کرنے اور مخالفین کو رگیدنے کی بجائے آگے بڑھ کر ان کی بحالی کے لئے موثر اقدامات کریں
تاکہ آئندہ دنوں میں جب موسم سرما کی شدت میں مزید اضافہ ہوگا تو ان بے سروسامان ہم وطنوں کو اذیت ناک صورتحال سے دوچار نہ ہونا پڑے۔
اسی طرح وفاقی حکومت یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن کی سبسڈی میں 43ارب روپے کی کمی کے فیصلے پر نظرثانی کرے۔ چاروں صوبائی حکومتیں مہنگائی پر قابو پانے کے لئے روزمرہ کی بنیاد پر اقدامات کریں۔ عوام کا جی بیانات سے نہ بہلایا جائے۔
ہم تحریک انصاف کی قیادت سے بھی یہ عرض کریں گے وہ اپنی عملداری والے صوبوں میں تو کم از کم عوامی مسائل کے حل پر توجہ مرکوز کرے۔
باردیگر یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ سیاست کے لئے بہت وقت پڑا ہے۔ عوام الناس کی بھاری اکثریت جن عذابوں سے دوچار ہے اسے ان سے نجات دلانے کے لئے بھرپور سعی کی جانی چاہیے تاکہ عوام سیاسی قیادتوں سے مایوس نہ ہوں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
قومی اسمبلی دا تاریخی سیشن ،،26ویں آئینی ترمیم منظور