مئی 12, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پاکستان بھی امریکا کی طرح مساوات پر مبنی ملک بن سکتا ہے ۔۔۔||مبشرعلی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امریکا میں جلد کے رنگ، نسل، زبان، مذہب، قومیت، صنف، جنسی رجحان، علاقے، گروہی تعلق، طبقاتی فرق، پس منظر، عمر، معذوری اور کریڈٹ ہسٹری کی بنیاد پر تعصب اور امتیازی سلوک کرنا غیر قانونی ہے۔
بہت سے معاملات میں امیگریشن اسٹیٹس کو بھی نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ مثلاً امریکا کی سرحدوں کے اندر ہر بچے کو اسکول میں داخلہ ملتا ہے، چاہے وہ غیر قانونی طور پر مقیم ہو۔
صنف کا مطلب محض مرد، خاتون یا مخنث ہونا نہیں۔ اگر کوئی لڑکا خواتین والے لباس پہنے اور کہے کہ اسے لڑکی کے پروناؤن سے پکارا جائے تو یہ اس کا حق ہے۔ اسے جینڈر ایکسپریشن یا صنفی اظہار کہتے ہیں۔
جنسی رجحان میں اے سیکسوئل یعنی جنسی رغبت نہ ہونا اور مذہبی آزادی میں لامذہب ہونا شامل ہے۔
زبان کا معاملہ یہ ہے کہ اگر کوئی امریکی لہجے میں انگریزی نہیں بولتا لیکن بات سمجھتا ہے اور اپنا مدعا بیان کرلیتا ہے تو وہ ہر طرح کے مواقع کا حق دار ہے۔ اگر کوئی انگریزی نہیں جانتا تو تعلیمی اداروں میں زبان سکھانے کا انتظام ہے۔
یہاں کمزور طلبہ کو فیل کرنے، کم اہلیت کے لوگوں کو روزگار سے محروم رکھنے اور مجرموں کو سزا دینے پر زور ہونے کے بجائے سماج کی بہتری نصب العین ہے۔
صرف اخلاقی جرم کرنے والا زندگی بھر وہ داغ لیے پھرتا ہے۔ باقی سب راہ راست پر آجانے والوں، غریبوں، کم اہلیت اور کم صلاحیت والوں، کم صورتوں اور معذروں کے لیے وہی مواقع ہیں جو بائیڈن اور ٹرمپ کے بچوں کے لیے ہیں۔
کیا یہ بات تعجب کی نہیں کہ سفید فام اور اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے بائیڈن چالیس سال سے کانگریس کے رکن تھے لیکن انھوں نے ایک سیاہ فام افریقی مسلمان امیگرنٹ کے بیٹے کا نائب صدر بننا قبول کیا جو ان سے 18 سال چھوٹا تھا۔ اوباما کا صدر بننا امریکی سماج کی خوبیوں کی روشن ترین مثال ہے۔
پاکستان بھی امریکا کی طرح مساوات پر مبنی ملک بن سکتا ہے لیکن اس کے لیے قرارداد مقاصد کو آئین سے کھرچنا ہوگا، مدرسوں اور مولویوں کی زبانوں پر تالا لگانا ہوگا اور دولت مندوں کو قتل کرنے کی چھٹی دینے والے دیت کے قانون ختم کرنا ہوگا۔ یہ نقطہ آغاز ہوگا۔ اس کے بعد کیا کرنا ہے، یہ میں نہیں بتاؤں گا کیونکہ صرف اس نقطہ آغاز تک پہنچنے میں ہزار سال باقی ہیں۔
لیکن جب قوم وہاں پہنچ جائے گی تو کسی سے یہ پوچھنے کی ضرورت نہیں رہے گی کہ آگے کیا کرنا ہے، کیونکہ سامنے روشن راستہ نظر آرہا ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں:

مبشرعلی زیدی کے مزید کالم پڑھیں

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

%d bloggers like this: